گزشتہ بدھ اور جمعرات کے درمیانی شب میں ایک دوست کا پیغام آتا ہے کہ سپریم کورٹ کھلوایا جارہا ہے اور کانگریس کے اُس پٹیشن پر شنوائی ہونے جارہی ہے جس میں کانگریس نے عدالت سے یہ مانگ کی ہے کہ کرناٹک میں یدی یورپا کو حکومت سازی کا جو حکم گورنر نے دیا ہے اُسے کالعدم کیا جائے اور حلف برداری پر روک لگائی جائے۔میرے لئے یہ بہت بڑا مسئلہ ہو گیا کیوںکہ میں نے خود سے احتجاج درج کر رکھا تھا کہ کرناٹک الیکشن کے نتائج کے دن سے ۳؍دنوں تک ٹی وی کا کوئی چینل نہیں دیکھوں گا کیونکہ اُن چینلوں پر بی جے پی کی ہار کی صورت میں بھی وہی باتیں سنائی دیں گی جو جیت کی صورت میں سنائی دیں گی۔اس سے بہتر ہے کہ خود کو خواہ مخواہ کے پریشر سے دور رکھا جائے۔دیر گئے رات پیغام دینے والے دوست سے میں نے اُسی لمحے کہا تھا کہ نیند خراب نہ کرو ،ہونا اونا کچھ نہیں ہے،یدی یو رپا کی حلف برداری ہوگی اور عدالت اُس کی حمایت میں اپنا فیصلہ سنائے گی ۔زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ ۱۵؍روز کی جو مدت گورنر صاحب نے اکثریت ثابت کرنے کے لئے بی جے پی کے یدی یو رپا کو دی ہے ممکن ہے کہ اُس مدت میں کمی کر دی جائے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔اُس دوست سے یہ بھی کہا تھا کہ یعقوب میمن والا مقدمہ کیا یاد نہیں کہ کس طرح رات بھر ڈراما رچا گیا اور بالآخر اسے پھانسی دے دی گئی۔کورٹ تو اسی لئے کھلوایا گیا تھاتاکہ پھانسی کی سزا شاید روک دی جائے کیونکہ اُسے پہلے ہی پھانسی کی سزا سنائی جا چکی تھی اور صدر مملکت نے بھی ہری جھنڈی دے دی تھی۔صرف دنیا کو بتانے کیلئے وہ ڈرامارچا گیا تھا کہ ہماری عدالت(عظمیٰ) کتنی فعال ہے کہ رات میں بھی سنسنی خیز مقدموں کی شنوائی کرتی ہے۔قارئین یاد کریں کہ وہ بھی مودی کے دورِ حکومت میں ہی ہواتھا اور آج جو کرناٹک کے تعلق سے ہو رہا ہے وہ بھی مودی کاہی دورِ حکومت ہے۔ابھی ایک برس جو بچے ہیں اُن میں بھی بہت ساری ایسی باتیں اور واقعات رونما ہونے والی ہیں جن کے تصور سے روح کانپنے لگتی ہے۔
سیدھی سی بات تھی ۔۲۲۲؍ارکان اسمبلی کی کُل تعداد میں بی جے پی کو صرف ۱۰۴؍نشستیں ملی تھیں اور کانگریس کو ۷۸؍اور جنتادل سیکولر بمع بی ایس پی کو۳۸؍اور آزاد امیدوار کو ۲؍۔کانگریس نے بلا شرط جنتا دل ایس کو اپنی حمایت کا اعلان کر دیااور کمارسوامی کو بطور وزیر اعلیٰ قبول کر نے میں کوئی دیرنہیں کی۔اِس طرح کانگریس اور جنتا دل نے ۱۱۷؍ ارکان اسمبلی کی لسٹ گورنر موصوف کو پیش کردی جس میں ایک آزاد امیدوار کا بھی نام تھا اور کمارسوامی نے حکومت بنانے کا دعویٰ پہلے پہل پیش کر دیا۔ظاہر سی بات ہے جب ۱۱۷؍ ارکان اسمبلی اِس گروپ کے ساتھ ہیں تو بی جے پی کے پاس اکثریت ثابت کرنے کے لئے ارکان اسمبلی کہاں سے آئیں گے۔گورنر کو اس پہلو پر غور کرنے کے بجائے سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں ابھری بی جے پی کو حکومت سازی کے لئے بلا لیا اور اکثریت ثابت کرنے کے لئے ۱۵؍دنوں کی مدت بھی دے دی حالانکہ یدی یو رپا نے ۷؍دنوں کی مہلت مانگی تھی۔ماہرین اسے گورنر کی کھلی جانب داری قرار دے رہے ہیں۔سینئر وکیل جیٹھ ملانی نے عدالت عظمیٰ میں الگ سے ایک پٹیشن داخل کرکے اچھا ہی کیا ہے جو گورنر موصوف کے خلاف ہے اور اس میں انہوں نے گورنر کی کارکردگی کوو چیلنج کیا ہے اور گورنر کو برخاست کرنے کی بات کی ہے۔
یہ تو اچھا ہوا کہ کانگریس کی لیگل ٹیم نے بروقت فیصلہ کیا اور آناً فاناً عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔اگرچہ عدالت عظمیٰ نے یدی یو رپا کی حلف برداری تو نہیں رکوائی یہ کہہ کر کہ یہ اُس کے اختیار میں نہیں ہے لیکن یہ کہا کہ دوسری اور نکات پر وہ بات کر سکتی ہے۔عدالت عظمیٰ اگرچہ نچلی عدالتوں نیز ہائی کورٹ کی مثالوں کی پیروی نہیں کرتا لیکن کس بنیاد پر اُترا کھنڈ کے چیف جسٹس کے ایم جوزف نے اُترا کھنڈ میں بی جے پی کی مرکزی حکومت کے ذریعے لگائے گئے صدر راج کو اپنے فیصلے سے ختم کر دیا تھا اور کانگریس کی حکومت بحال ہو گئی تھی۔وہ بھی تو گورنر کا ہی فیصلہ تھا جس کی پکڑ جسٹس جوزف نے کی تھی جس کا خمیازہ وہ اب تک بھگت رہے ہیں۔اُن کو عدالت عظمیٰ کا جسٹس مقر ر ہونا تھا لیکن مودی کی مرکزی حکوت نے اُن کا نام کالیجیم کے پاس واپس بھیج دیا اور معاملہ ابھی تک کھٹائی میں ہے۔اسی طرح سپریم کورٹ بھی گورنر کے اختیارات کا نوٹس لے سکتاتھا لیکن خیر یہ قانونی پہلو ہیں۔سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہے جیسا کہ مودی کی حکومت چاہتی ہے۔لیکن یہاں بہر حال اچھا ہوا کہ عدالت عظمیٰ نے ۱۵؍روز کی مدت کو ۵۴؍گھنٹے(کُل ۲؍دن) میں بدل کربی جے پی کی نیندحرام کر دیہے۔اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو یدی یو رپا فلور ٹیسٹ دینے سے پہلے استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں ہوئے ہوتے۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ کانگریس والے اپنے ایم ایل ایز کو امیت شاہ اور مودی کے ڈر سے بچائے بچائے لئے لئے اِدھر اُدھر پھرتے رہے ۔کبھی کیرلا جانے کی بات کرتے تو کبھی پانڈیچیری اورکبھی حیدرآباد۔ ۷۸؍ کو ایک ساتھ رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔اِ ن پر بھی دنیا بھر کے روپے خرچ ہو رہے تھے ۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے چارٹر فلائٹ سے اُڑ کر کسی محفوظ مقام پر جانے کی اجازت مانگی تھی لیکنانہیں اس کی اجازت نہیں ملی۔یہی حال جنتا دل کے نو منتخب ایم ایل ایز کے ساتھ بھی تھا۔قارئین یا د کریں کہ کس طرح گجرات کے راجیہ سبھا کے الیکشن کے وقت امیت شاہ نے کانگریس کے احمد پٹیل کو ہرانے کے لئے کھلے عام ایم ایل ایز کی خریدی کی تھی،وہ پولنگ کے دن ہی پتہ چل گیا۔یہ تو اُن کا نصیب تھاکہ احمد پٹیل جیت گئے لیکن اُس وقت بھی کانگریس کو الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا تھا اور اُن ایم ایل ایز کے ووٹوں کوکالعدم کرنے کی سفارش کی تھی جنہوں نے اپنے ساتھی ایم ایل ایز کو وہ بیلٹ پیپر دکھا دئیے تھے جن پر بی جے پی کو ووٹ ڈالے تھے اور اِس طرح اُن کے ووٹ کالعدم ہو گئے۔وہ بیلٹ اس لئے دکھا رہے تھے کہ یہ ثابت کر سکیں کہ انہوں نے بی جے پی کو ووٹ ڈالے۔ اُس وقت بھی احمد پٹیل نے اپنے تمام ۴۶؍ایم ایل ایز کو بنگلور کے ہی ایک ریسورٹ میں رکھا تھا تاکہ اُن کی وفاداری امیت شاہ خرید نہ سکے ۔مودی جی کی حکومت آنے کے بعد ’ریسورٹ اور سوٹ کیس کی سیاست ‘کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے اِس پر الیکشن کمیشن کو عقابی نظر رکھنی چاہئے۔اِن تمام معاملات اور پیش رفتوں میں الیکشن کمیشن ایک خاموش تماشائی بنا ہوا ہے جب کہ دیکھا جائے تو روپوں کی لین دین کی ہی بات ہو رہی ہے ۔مودی اور امیت شاہ جوڑی اِس ملک کے لئے کتنی خطرناک ہو سکتی ہے، اس کے لئے مزید واقعات کا انتظار کرنا ضروری نہیں ہے۔یہ تو اب سب کو معلوم ہوگیا ہے کہ انہیں کسی طرح حکومت چاہئے چاہے ان کی پارٹی اکثریت میں آئے یا نہ آئے۔اسی نتائج( مینڈیٹ) کو ہم ذرا بدل کر تجزیہ کرتے ہیں۔اگر بی جے پی کی جگہ کانگریس ۱۰۴؍سیٹوں کے ساتھ بڑی پارٹی ہوتی اور بی جے پی کو کانگریس کی طرح ۷۸؍سیٹیں ملی ہوتیں تو کیا گورنر موصوف کا یہی رویہ ہوتا؟ یہ اور بات ہے کہ اس ترتیب میں کمار سوامی وزیراعلیٰ شاید نہیں ہوتے۔
بی جے پی جتنی شرارت کر سکتی تھی ،اس نے کی،لیکن کانگریس نے فعالیت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اس کے جبڑے سے اقتدار نکال لیا۔یہ دوسرا موقع ہے جب کانگریس نے بیداری کا ثبوت پیش کیا ہے۔اس سے قبل احمد پٹیل کے راجیہ سبھا الیکشن کے وقت بھی کانگریس اسی طرح بیدار نظر آئی اوراسے اس کا پھل بھی ملا تھا۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883