سید عطیہ تبسم
’’یہ دنیا گول ہے‘‘ اس جملے کی سچائی کا ثبوت ہمیں پوری کائنات فراہم کرتی ہے۔ فقط دنیا نہیں، بلکہ پوری کائنات گول ہے۔ جو بھی سیّارہ اس کائنات میں رقص کر رہا ہے وہ گول ہے۔روشن سورج ہو یا چمکتا چاند دونوں ہمیں آسمان پر گول ہی نظر آتے ہیں۔ ہماری زمین جو انسانوں کا واحد مسکن ہے، کافی تحقیقات کے بعد اس کا گول ہونا بھی ثابت ہو چکا ہے۔ دراصل اس بیرونی کائنات کبریٰ کی طرح ہمارے اندر کی کائنات صغریٰ بھی گول ہے۔ یہ کائنات احساسات اور جذبات کا ایک مجموعہ ہے۔ اس کے اپنے آسمان اور اپنی زمین ہے، کبھی غموں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا جاتے ہیں، تو کبھی کسی شب کو مزیّن کرنے کے لیے ستارے نمودار ہوتے ہیں، کوئی صبح، صبحِ کاذب ہوتی ہے ،تو کبھی کوئی صبح روشنی کا پیغام لاتی ہے۔ خیر اس کائنات کی مکمل وسعت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
مگر ایک نکتہ جو اس کائنات کی خوبصورتی کا ضامن ہے اور اس کے گول ہونے کی تصدیق کرتا ہے وہ نکتہ ٔخاص ’’ہجرت‘‘ ہے۔ ہر انسان اپنی اس کائنات میں ایک مہاجر کا کردار ادا کرتا ہے، زندگی کے سفر کو شروع کرتے ہی یہ ہجرتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ہجرتیں گود سے پہلے ہی شروع ہوتی ہیں اور گور تک چلتی ،جاری و ساری رہتی ہیں۔ رحمِ مادر سے بے رحم دنیا کی طرف ہجرت کرنے کو ہجرتِ اُولیٰ کہا جائے تو بجا ہوگا۔ شاید بچّے کی وہ پہلی چیخ گواہی دیتی ہےکہ ہجرت کتنی تلخ اور محال ہے۔ کبھی انسان کسی مکان سے ہجرت کر جاتا ہے تو کبھی کسی کے دل سے۔ کبھی یہ ہجرت فقط مقامات کی ہوتی ہے تو کبھی احساسات سے لبریز۔ انسان چاہے یا نہ چاہے اسے ہجرتیں کرنی پڑتی ہیں ورنہ زندگی کے اس سفر کو پایہ تکمیل تک پہنچانا محال ہے۔ جیسے صبح کی روشنی کے دیدار کے لیے تاروں کی محفل کو الوداع کہنا شرط ہے، ویسے ہی کامیاب مسافر کے لیے ہجرت شرط ہے ۔ مگر یہ الوداعی کلمات کسی زہریلی نشتر کی طرح تا عمر چبتے رہتے ہیں۔ یہ ہجرت بہت مشکل ہوتی ہے ۔ مہاجر کی دنیا میں غموں کا طوفان اور اشکوں کی لہریں اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے جاتی ہیں۔ کبھی کبھی یہ طوفان اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ مگر وقت کہاں کسی کے لیے رُکتا ہے، مہاجرین کو اس کے ساتھ گول چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔بے شک ہجرت مشکل ہے مگر رب مہاجرین کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ جب جب انسان اپنی بقاء اور ربّ کی رضا کے لیے ہجرت کرتا ہے، تب تب انصار کی صورت میں نصرت آتی ہے اور یہ نصرت لازوال اور باکمال ہوتی ہے۔ چاہے پھر وہ ہجرت کسی عادت سے ہو، کسی خواہش سے ہو یا کسی محبوب کے دل سے، وہ قدردان ربّ بہترین نعم البدل عطا کرنے والا ہے۔ نہ جانے پھر کیوں یہ اشرف المخلوقات ہجرت کا خوف کھا کر اپنے ہی مقام کو گرا دیتا ہے۔ اس گول دنیا میں مہاجرین کو ہر ترک کی ہوئی شے کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں بہترین صورت میں لوٹائی جاتی ہے، اور یہ نعم البدل ان ترک شدہ اشیاء سے کئی گناہ بہتر ہوتا ہے۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک انسان کو ربّ کی بنائی ہوئی اس گول دنیا کے اصول اور اپنے اندر کی کائنات کا رقص سمجھ میں آجائے ۔
[email protected]