ایک چمچہ چاہئے اپنی بڑھائی کے لئے
کُچھ تو پاس ہو اپنے ، خود نمائی کے لئے
حضرات! قدیم وقتوں میں چمچے ہر گز نہیں ہوا کرتے تھے۔ایک چمچے پر ہی کیا موقوف!اصل میں کچھ بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔مگر زندگی تھی۔انسان پتوں سے تن ڈھانپا کرتا تھا اور کچاّ کھاتا تھا۔پھر اُس نے پتھر کے اوزار اور برتن بنائے۔برتنوں میں چمچوں کا وجودکب ناگزیر سمجھا گیا۔۔۔۔۔! اِس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
البتہ چمچوں کی اہمیت اور افادیت کے مدِنظر‘یہ کہا جا سکتا ہے کہ کھانا پکانے کی نوبت آتے ہی چمچوں کے وجود کو ناگزیر سمجھا گیا ہو گا۔بھلے ہی پتھر یالکڑی کے بنائے گے ہوں گے۔بعد میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز کا رنگ و روپ اور معیار بلند ہوتا گیا اور ساتھ ساتھ چمچوں کا بھی۔۔۔۔! اور آج تو بازار میں علاحدہ علاحدہ اقسام میں ایک سے بڑھ کر ایک چمچے دستیاب ہیں۔مثلاً پلاسٹک کے چمچے ‘ سٹیل کے چمچے‘لکڑی کے چمچے‘چاندی اور سونے کے چمچے‘کھانا پکانے کے چمچے‘ہر دیگ کے چمچے اور چھری و کانٹے سمیت کھانا کھانے کے چمچے وغیرہ وغیرہ۔
چھوٹے سائز میںجب کھانا کھانے کے چمچے وجود میں آئے تو لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے چمچوںکے ساتھ کھانا باعث افتخار سمجھا اور جنہیں چمچے میّسرنہیں ہوئے یاپسند نہیں آئے تو انہوں نے دلائل پیش کئے کہ’’ہاتھ کے ہوتے ہوئے چمچے کیوں۔؟یہ تو سرِ عام ہاتھ کی توہین ہوئی! اور پھرجو مزہ انگلیاں چاٹنے میں ہے وہ چمچوں میں کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔!
مگر اس سب کے باوجودآج بھی ایک کثیر تعدادچمچوں پر ہی انحصار کرتی ہے۔ان میں سے بعض تو ایسے نزاکت پسند ہیں کہ انہیں سرِدست چمچہ دستیاب نہ ہو تو وہ کھانا کھانے سے ہی گریز کر لیتے ہیں۔بڑوں پر ہی کیا موقوف‘عام طور پر بچے بھی چمچوںسے ہی کھانا کھانے کی ضد کرتے ہیں۔یوں چمچوں کی اہمیت وافادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔
چمچوں کی ایک خاص حیثیت یہ ہے کہ پلیٹ ہو یا ہنڈیا‘خالی ہونے کی صورت میں آگاہی کی صدا بلند کرتے ہیں۔ویسے سالن ہو یا بھات‘اُلٹے سیدھے ہو کر چمچے کھرچن تک باہر لے آنے میںکامیاب رہتے ہیں۔دراصل کامیاب اور کارگر چمچے وہی ہوتے ہیںجو ہر ہنڈیا میں فِٹ بیٹھیں۔یعنی چمچوں کے لئے ہر دیگ کا چمچہ ہونالازمی بھی ہوتا ہے۔علاوہ ازیں چمچے کچھ کار ہائے نمایاں بھی انجام دیتے نظر آتے ہیں۔بطورِ ہتھیار کام کرتے ہوئے چمچے نہ صرف دفع کے کام آتے ہیں بلکہ مارنے کے کام بھی آتے ہیں اوراکثر بیویاںچمچوں کی مدد سے ہی شوہروں کو مطیع اور فرمانبرداربنائے رکھنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ورنہ ایک شوہر کو مصلحتاًیوںہر گز نہیںسوچنا پڑتا ۔؎
اِس مقابلے سے بہتر ہے ہار مان لوں میںاپنی
میرے ہاتھ آیا جھاڑو،بیوی نے چمچہ اٹھا رکھا ہے
بہرحال ان چمچوں سے ہٹ کر دیکھا جائے توہماری جیتی جاگتی دنیا میںہمارے جیسے جیتے جاگتے چمچوں کی بھی کمی نہیں ہے اور ان جیتے جاگتے چمچوں کی کارگزاری اور اہمیت و افادیت،کھانے پینے کے چمچوں سے کہیں زیادہ مسلّم مانی جاتی ہے۔اِن کی اِسی اہمیت و افادیت کے مدِ نظر ہی توہمیں یہ کہنا پڑاکہ
ایک چمچہ چاہیے اپنی بڑھائی کے لئے
کچھ تو پاس ہو اپنے، خودنمائی کے لئے
کچھ سیانے لوگ تواپنے منہ میں سونے و چاندی کے چمچے لے کر ہی دنیا میں آتے ہیں۔عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ بڑے لوگوں کے بے شمار چمچے ہوتے ہیں۔حتیٰ کہ جو لوگ اپنے منہ میںسونے و چاندی کے چمچے لے کر دنیا میں آتے ہیں،انہیں بھی مزید چمچوں کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ بڑوں سے بھی بڑے کہلوائے سکیں اور دوسروں کو اپنا بڑا پن دکھا سکیں۔مگر ہماری طرح کے لوگ جنہیںچمچے دستیاب نہیںہو سکتے وہ اپنے دل کے پھپھولے کچھ اِس طرح پھوڑتے نظر آتے ہیں۔
عزت و شہرت ملتی ہے اپنے کام سے
چمچوں کے کہنے سے کوئی بڑا نہیں ہوتا
مگر اس حقیقت کونظر انداز نہیں کیا جا سکتاہے کہ جو جو کام ایک بندہ خود نہیںکر سکتاہے وہ سارے کام چمچے بہ آسانی کر سکتے ہیں۔دراصل چمچے ایک قسم کا ہتھیار ہوتے ہیں۔اور ظاہر ہےکہ ہتھیاروں کی مدد سے کوئی بھی کام ہو بہ آسانی ہو سکتا ہے۔اسی لئے تو ہر طرف سے ناکام اور نامرادہو جانے والا بندہ آخر یہی تمنّا کرتا نظرآتا ہے۔؎
کہیں بھی دال گلتی نہیں ہے ہماری
اب کوئی چمچہ چلا کر دیکھتے ہیں
دراصل اس بھاگتی دوڑتی دنیا میںسب کو ہی چمچوں کی ضرورت ہوتی ہے۔چونکہ چمچے دست راست ہوتے ہیں۔مگر بہت سے لوگوں کے لئے مشکل یہ ہے کہ وہ پہچان نہیںکر پاتے ہیں کہ کون بندہ چمچہ گیری کے قابل ہے اور کون نہیں۔دراصل چمچے ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہو سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ آپ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔نظر تیز اور مشاہدہ عمیق رکھیں۔ چلتے پھرتے ہوئے،چلتے پھرتے لوگوں کو بغور دیکھیں اور بغور سنیں۔مثلاًآپ اگر اپنا چھوٹا سا بیگ یاکوئی دیگر سامان آسانی سے اٹھائے چل رہے ہیں اور کوئی دوسراخواہ مخواہ ہی آپ کا بیگ یا سامان اٹھانے کو بے قرار ہے تو سمجھ جائیے کہ بندہ چمچہ گیری کے قابل ہے۔
آپ اگراپنے دفتر میں ہیں اور آپ کی خدمات کے لئے مخصوص بندہ موجود ہے مگر کوئی دوسرا آپ کے کام کرنے میں پہل کر رہا ہے۔آپ کے لئے اٹھک بیٹھک کر رہا ہے۔ضرورت سے زیادہ سرکار،سرکاراور جناب،جناب کر رہا ہے تو جان جائیے کہ چمچہ گیری کے لئے بندہ موزوں ترین ہے۔اگر کوئی آپ کی بے جا تعریف کر رہا ہے۔خوبیاں گِن رہا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ آپ ان خوبیوں کے قطعی مالک نہیں ہیںتو جان جائیے کہ وہ بندہ چمچہ ،یعنی آپ کا دستِ راست، بننے کے قابل ہے۔البتہ اُن اَنا پرستوں کا کوئی کیسے چمچہ بن سکتا ہے،جو اپنی تعریف سن کرخوش ہونے کی بجائے اپنے ریمارکس بہ زبانِ شاعر کچھ یوں کہہ دیں؎
تمہاری چکنی چپڑی باتوں میں آ جاؤں
میں چمچہ نواز وہ جناب نہیں!
بے جان چمچوں کی طرح جاندار چمچے بھی کئی اقسام کے ہوتے ہیں اور الگ الگ اوصاف کے مالک ہوتے ہیں۔مثلاًمطلبی،خود غرض اور ہوشیار قسم کے چمچے۔ معصوم،بے غرض و بے لوث قسم کے چمچے۔ دفتری چمچے ،سفری چمچے،سیاسی چمچے اور بے خبر چمچے وغیرہ وغیرہ۔
مطلبی،خودغرض اور ہوشیار قسم کے چمچے تا دیرکسی کی چمچہ گیری کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔یہ صرف اپنی غرض و غائت کے لئے اداکاری کرتے ہیں۔ مطلب نکلتے ہی منہ پھیر لیتے ہیں۔یا اور زیادہ کی تمنّالئے ہوئے کسی اور کی سیوا میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ معصوم، بے غرض و بے لُوث چمچوں کو اپنی غرض و غایت کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی ہے۔ان کے اندر ایک ہمدردانہ جذبہ موجود ہوتا ہے۔وہ محض کسی کے کام آنا چاہتے ہیں اور کسی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس کے آگے پیچھے بچھے بچھے رہتے ہیں۔یہ تو ہم جیسے نکمّے لوگ ہیں جو خود کسی کے کام تو آنہیں سکتے اور کام آنے والوں کو چمچہ چمچہ کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح لگ بھگ ہر سرکاری دفتر میںکچھ ایسے مخصوص بندے ہوتے ہیں،جن کے ذمّے دفتر کا کوئی خاص کام ہو یا نہ ہومگر وہ دفتر کے اندر اور باہر ہر دن بھر منڈلاتے رہتے ہیں۔یہ اصل میں دفتری چمچے ہوتے ہیں۔آفیسر کے منظورِ نظر ہوتے ہیں اور ان کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔ٹرانسفر، ایڈجسٹمنٹ یا کوئی بھی دفتری کام ہو،ان چمچوں کی مدد لئے بغیرکروانا بہت مشکل ثابت ہوتا ہے ۔لیکن ان کو اعتماد میںلے کر ان ہی کے ذریعے کام کروانا بے حد آسان ہوتا ہے ۔کیونکہ ان کا رابطہ سیدھے طور پر دفتر کے بڑے آفیسر سے ہوتا ہے۔سفری چمچے چلنے پھرنے سیرو سیاحت میں یقین رکھتے ہیں۔آپ کہیں بھی جائیے۔ان کو ساتھ لے جائیے ۔ وہ بصد خوشی آپ کے ساتھ چلیں گے اور آپ کا ہر کام اُچھل اُچھل کر کریں گے۔
سیاسی چمچے سب سے زیادہ مصروفِ عمل رہنے والے ہوتے ہیں۔توڑ جوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ذہنی اور جسمانی طور پر مصروفِ عمل رہتے ہیں۔جتنا بڑا ان کا کام ہوتا ہے،اتنی ہی بڑی ان کی غرض و غایت ہوتی ہیں۔یہ اپنے آقائوں کے اشاروں پہ ناچتے ہیں۔بالخصوص الیکشن کے دنوں میں مرنے مارنے تک تیار رہتے ہیں۔دیکھا جائے تو مجموعی طور پر سب ہی چمچے سادہ لوح ہوتے ہیں اور بعض ایسے بے خبر کہ انہیں خبرتک نہیں ہوتی کہ وہ کسی کے چمچے بن چکے ہیں۔اور گھاگ قسم کے لوگ ایسے ہی بے خبر چمچوںکو استعمال کر کے قتل، اغوا، چوری اور سمگلنگ جیسے کام کرواتے ہیں۔
دیکھا جائے تو چمچہ نوازی اور چمچہ گیری کا دائرہ بہت وسیع ہے۔گھر گرہستی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک چمچہ نوازی اور چمچہ گیری،دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔بلکہ بین الاقوامی سطح پریہ چیزیںکچھ زیادہ واضح انداز میں کار فرماء نظر آتی ہیں۔بین الاقوامی سطح پرکوئی چمچہ نوازی کر رہا ہے تو کوئی چمچہ گیری۔کچھ ملک عتاب سے بچنے کے لئے تو بعض اپنی شان میں بڑھاوا کرنے کے لئے چمچہ گیری کر رہے ہیں۔جو چمچہ گیری نہیں کرتا ہے ،وہ مات بھی کھاتا ہے اور مار بھی۔اور نیست و نابود ہو کر رہ جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ چمچہ نوازی اور چمچہ گیری ایک فن ہے۔ایک ذہانت ہے۔ایک قابلیت ہے۔زندگی کی ضرورت ہے اور بسا اوقات زندگی کی ضامن بھی۔عالمی سطح پر چمچہ نوازی اور چمچہ گیری دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ دنیا ہی چمچوں کی ہے اورچمچوں کے سہارے ہی چلتی ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ چمچوں اور چمچہ گیری کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔کیونکہ بعض چمچوں کے بھی کچھ اپنے اصول ہوتے ہیں۔وہ جس کے ساتھ منسوب ہو جائیں،آخر دم تک ساتھ نبھاتے ہیں۔دل بدل نہیں ہوتے ہیں۔
درج ذیل اشعار بھی چمچہ نوازی اورچمچہ گیری کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے نظر آتے ہیں۔؎
اُن کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے ہیں
اُنہیں چمچوں نے سر پہ اُٹھا رکھا ہے
وہی بڑا ہے بڑی ہے اُس کی ہر بات
جس نے چمچوں کو ساتھ ملا رکھا ہے
سب گُن گاتے ہیں اُس کے جِس نے
چمچوں کو انگلیوں پہ نچا رکھا ہے
وہ تو کب کا پکڑا گیا ہوتا مگر
چمچوں نے اُسے کہیں چھپا رکھا ہے
وقت آنے پہ استعمال کر لیں گے
ہم نے بھی اک چمچہ چھپا رکھا ہے
دودھ میں اُبال آئے بھی تو کیسے آئے
اماّں بی نے برابرچمچہ چلا رکھا ہے
سازش ہی لگتی ہے یہ کسی چمچے کی
بھائی کو بھائی سے ہی لڑا رکھا ہے
نچلے ہو کے بیٹھتے ہیں نہ بیٹھنے دیتے ہیں
چمچوں نے ہمیں ہر دیگ کا چمچہ بنا رکھاہے
سچ پوچھئیے تو یہی کہنا پڑے گا زنفرؔ
چمچوں کے سِوا دنیا میں کیا رکھا ہے
���
موبائل نمبر؛9858009983
ساج، تھنہ منڈی، راجوری