عاشق آکاش ؔ
ارض کائنات پر پروموشن ایک ایسی شئے ہے جس نے ہر گوشئہ حیات کو اپنا مرید بنا کے رکھا ہے ۔ ہا ں جی !پروموشن ایک ایسی چیز ہے جو ہر وقت اور ہر پہر ڈِموشن کو ذلیل و خوار کرنے کی خاطر کمر بستہ رہتی ہے اور اپنا لوہا منوانے کی تاک میں کسی بھی حد تک گزر سکتی ہے ۔
جاندار ہو یا بے جان ، رند ہو یا درند پروموشن ان میں فطری طور پر پیوست رہتی ہے۔ جہاں ایک جاندار دوسرے جاندار کے رشک میں پروموشن کی پوجا میں ہر وقت محو رہتا ہے وہیں ایک بے جان شے بھی دوسری بے جان اشیاء سے منفرد دکھنے کی تاک میں رہتی ہے۔
دنیا میں پروموشن نے انسان اور انسانیت کے وجود سے پہلے ہی اپنے قدم جمائے ہیں۔ یا یوں کہئے، انسان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی اس پروموشن کو پروموشن ملی تھی جس کا بخوبی اندازہ ہمیںعزازیل کے گھمنڈ اور اُس کی نافرمانی سے ہوتا ہے ۔ عزازیل کا حضرت آدم ؑپر ایمان نہ لانے کا سبب بھی اسی پروموشن کے ہی کرتوت ہیں ورنہ روئے زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ سر بہ سجود نہ ہوا ہو۔ اس طرح سے پروموشن کی ہوس نے ہی اس کو تاابد لعنت میں گرفتار کیا ۔ بقول کسے:
تکبر عزازیل راخوار کرد
بہ زندان لعنت گرفتار کرد
بدلے کی آگ نے پھر حضرت آدمؑ کو جنت سے بھی بے دخل کیاجس کاجال مردود شیطان نے پروموشن کی لالچ میں ہی بُنا تھا۔
پروموشن نے ہر حلقہ ارباب میں اپنی جگہ بنادی ہے، چاہے وہ گھنے جنگلوں میں جنگلی جانوروں کا دبدبہ ہو یا پھر دیودار کا آسمان کو چھوتا ہوا قد آور پیڑ جس پر جنگل کے ہر چھوٹے بڑے درخت رشک کی آگ میں تپتے رہتے ہیں۔ ندی نالوں کا دریا بننے کی فکر اور اس فکر میں فطری اصولوں کو تار تار کرنے کاسہرا بھی پروموشن کے سر ہی جاتا ہے۔
پروموشن کو اگرانسانی خمیر کا جز مانا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ کیونکہ یہ انسانی زندگی کے ہر گوشے میں مقناطیسی حیثیت رکھتی ہے۔ گھر گرہستی ہو یا سماجی زندگی ، حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد ، سرکاری دفاتر ہویا نجی ادارے ، غلامی ہو یا شہنشاہی غرض ہر شعبے میں یہ بر سر اقتدار رہتی ہے۔
گھر گرہستی میں جہاںبچے کو جوان ہونے کی پروموشن ستاتی ہے تو وہیں بیٹے کو باپ بننے کی پرموشن !!جس کا ذکر دنیا کے سب سے بڑے ماہر نفسیات فرائڈ نے بھی ایڈیپس کمپلکس (oedipus complex) کو بیان کرتے ہوئے چھیڑا ہے ۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس کمپلکس کو بیان کرتے ہوئے فرائڈ نے ایڈیپس کے ایک بچے کا ذکر کیا ہے جس نے اپنے باپ کو قتل کرکے اپنی ماں کے ساتھ شادی کرلی اور یہی نفسیاتی تجربہ پھر ایڈیپس کمپلکس کے نام سے مشہور ہوا ۔
اتنا ہی نہیںاس گھر گرہستی میں بیٹی کو ماں بننے کی پرموشن ، بہو کو ساس اور ساس کو مالکن بننے کی پروموشن ہر وقت بے قراری کا سامان مہیا کرتی رہتی ہے ۔حالات ایسے بنتے ہیں کہ یہ ہوم منسٹری ملک کی وزارت داخلہ کو بھی مات دیتی ہے اور پرموشن کے کرتوت کا مشاہدہ کرتے کرتے بچارے باپ میں بھی بوڑھا ہونے کی پروموشن کی خواہش جاگ جاتی ہے ۔
انسان کے پیشے میں پروموشن کا کچھ الگ ہی حال ہے ۔ یہ پل بھر میں کسی کو شیطان اورکسی کو بلوان بنا دیتی ہے لیکن کسی کے ارمان ہر گز بھی پورا نہیں کرتی!۔۔۔
ایک اُستاد رات بھر میں ناظم تعلیم بننا چاہتا ہے جس کی خاطر وہ نا جانے کتنی حدیں پار کرتا ہے۔ وہ بے چارہ اپنے پیغمبرانہ پیشے کو بھول کر ایک الگ راہ اختیار کرتاہے ۔ آخر کیوں نہ کرے یہ بے رحم پروموشن تو اس کے ذہن کو ہی نہیں بلکہ ضمیر کو بھی بندی بنا دیتی ہے اور اس کے جال میں پھنس کر بے چارہ جعلی اسناد بنانے پر بھی مجبور ہوتا ہے اور اپنے کرموں کو چھپانے کی خاطرطرح طرح کے بے سود فرضی طریقوں کا سہارا بھی لیتا ہے لیکن اس کا پیچھا ہرگز بھی نہیں چھوڑتا ۔
حال ہی میں ایک مہاشے پرموشن کو پکڑتے پکڑتے رہ گئے۔حالانکہ سرکار نے باضابطہ طور پر اُن صاحب کو محکمہ تعلیم میں ایک ضلع آفسر کے عہدے کی پرموشن کا حکم نامہ صادر کیا تھا جس کے لئے بی ۔ایڈ کی ڈگری درکار رہتی ہے ۔ایک بھلے مانس نے اپنی پرموشن کے لئے مہاشے کا آر۔ ٹی۔آئی کیا۔ بعد میںخبر ملی کہ جو جال مہاشے نے اس عہدے تک پہنچنے کی خاطر بُنا تھا اس میں کہیں نہ کہیں چھیدرہ گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پرموشن نے اس کو چکما دے کر اسے ڈموشن کی مالا پہناتے ہوئے رسوا کردیا۔ بے چارے اب اس چھید کو بند کرنے کی خاطر ہر ایرے غیرے نتھو خیرے سے مشاورت لیتے رہتے ہیں ۔ اس خبر سے علاقے میں سنسنی سی پھیل گئی ۔یہ تو منی بس کے ٹائر کی مہربانی ہے کہ اُس کی بیوی مائکے جاتے جاتے رہ گئی۔ نہیں تو مُنی اور ارسلان اُس شب اپنے ابا کی افسردگی کھا کے ہی سو جاتے۔ ہر فرد اپنا دامن بچانے کی خاطر کنارہ کشی کی ترکیبوں پر اتر آیا۔جامع مسجد اور دارالعلوم کی انتظامیہ نے انہیں تسلیم کرنے سے گریز کرلیا۔یہ بات الگ ہے کہ وہ اپنے مریدوں کو ایمانداری کا وعظ سناتے سناتے کبھی کبھی یہ شعر بھی سنا بیٹھتے ہیں:
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
یہ تو حال تھا تعلیمی محکمہ میں پروموشن کی رنگ رلیوں کا۔
ہماری ادبی دنیا بھی تو پروموشن کی عزت افزائی میں طرح طرح کے طور طریقے اپناتی رہتی ہے۔ یہاںایک طرف نقادوں کی بھرمار سے پروموشن کو تقویت ملتی ہے کیونکہ ان نقادوں کی تنقید( جس کی پروموشن شائد انہوںنے بھی فرضی طریقوں سے حاصل کی ہے) کی بدولت ہی یہ پروموشن ادیبوں کو اپنے آپ کو چھُونے سے بچاتی ہے۔ وہ بے چارے یا تو احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں یا اپنی عزت کو بچاتے بچاتے ادیب بننے سے رہ جاتے ہیں۔دوسری جانب نوآموز لکھاریوں کو ممتاز ادیب بننے کی پرموشن کا خواب نا جانے کتنے اصناف سخن کا حلیہ بگاڑ دیتی ہے اور پھر مطلع اور مقطع میں امتیاز قارئین کے لیے کارِ حاتم سے بھی تجاوز کرتا ہے۔
اسی طرح محکمہ بجلی میں کام کرنے والا لائن مین انجینئر بننے کی تاک میں نہ جانے کتنے ٹرانسفارمروں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے اور کبھی کبھار تو جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور بعدمیں جورو اور کمسنوں کو بے چارگی کی پرموشن کا تحفہ تھما کر ان کو دردر کی ٹھوکروں کے عہدے پر بھی فائز کرتا ہے۔
ایک ڈینٹل ٹکنیشن کا ڈاکٹر بننے کی پرموشن کا خیال نا جانے کتنے تندرست حضرات کی بتیسی کھا جاتا ہے۔ اس بات کی گواہی مجھے تب ملی جب میں نے میرے دوست ناصر کے ابو رفیق چاچاکے مصنوعی دانتوں کو ایک شادی کی تقریب میں پلیٹ پرگرتے ہوئے دیکھا اور وہ بے چارہ عزت نفس کو بچاتے بچاتے ان کو نوالے کے ساتھ ہی منہ میں دھکیل گیا۔ اس کے ماتھے سے پسینے چھوٹنے لگے مگر بھلا ہو رحمان وازہ کی ضیافتوں کا کہ لوگوں نے پسینے کا سارا الزام اُنہی پر تھوپ دیا۔ بعد میں ناصر سے پتہ چلا کہ ایک سر پھرےٹیکنیشن نے اُس کے ابو کے ایک خراب دانت کے عوض چار کی بلی چڑھائی تھی اور پھر اپنی کاری گری کا پرچار کرنے کی خاطر مصنوعی دانتوں کا بھی تحفہ ارسال کیا تھا۔ ضیافتوں سے مجھے یاد آیا کہ پروموشن نے اب شادی بیاہ کے معاملات میں بھی ٹانگ اڑانی شروع کی ہے۔پروموشن نے ان ضیافتوں کا حال ہی بے حال کیاہے۔ اب ان کی گنتی میں لوگ ان کا مزہ چکھنے سے رہ جاتے ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک دکھنے کی تاک میں بے چاری ضیافتیں اتنی بدنا م ہوتی ہیں کہ پوچھئے مت اور اس بدنامی کا پہاڑ مسکینوں پر ایسے آن پڑتا ہے کہ دو شیزائوں کے شباب کو بھی اپنے نیچے دبوچ لیتا ہے۔
اب ایک جنرل فزیشن کا حال بھی دیکھئے وہ سرجن بننے کے خواب میں نہ جانے کتنے گردوں کو انتڑیوں کے بدلے قربان کرتا ہے اس سب کا کریڈٹ بھی پرموشن کو ہی جاتا ہے۔
یہ بات الگ ہے کہ کسی کے حق میں پرموشن کا یہ جال کچھ مدت تک جنت کے محل خانوں جیسا ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اس بات میں بھی دورائے نہیں کہ کسی کو فوری شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑھتا ہے کیونکہ یہ کلموہی اس بے چارے کا منہ کالا کر کے ہی چھوڑتی ہے اور یوں پرموشن اتنی مشہور ہوتی ہے کہ اس کا چرچا ہر گھر اور ہر نگر لازمی بن جاتا ہے اور مشہوری کے اس عالم میں پرموشن کا رد عمل کچھ اس طرح سے ہوتا ہے :
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ساتھ
پرموشن کو اگر سماجی تناظر میں دیکھا جائے تو ایک بات واضح ضرور ہوتی ہے کہ ہمارے سماج میں ہر آدمی کو دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانے کی پرموشن ستاتی رہتی ہے۔ یہاں مسجد کے متولی کو مولوی بننے کی پرموشن کی پریشانی اور میاں مولوی صاحب کو صدر اوقاف بننے کے خواب اجالے کی نمازوں کو بھی قضا کر دیتے ہیں۔ اوقاف پریزیڈنٹ کو بلاک ڈیولپمنٹ کونسل کا چئیرمین بننے کی خلش اور چئیرمین کو ضلع فتح کرنے کی پرموشن کی تڑپ ہر لمحہ اس کے وجود کو جھلس دیتی ہے اور اندر کی اس آگ کو بجھانے کے لئے وہ کیا کیا کر تے ہیں!! اس کا برملا اظہار کمبخت پرموشن کی عزت نفس پر ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے!! خیر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے جس میں بے چارہ ایک تھکا ماندہ انسان یا تو پیچھے ہٹتا ہے (لیکن پیچھے ہٹنا انسانی فطرت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ ) یا اپنے جسم کو ایک ابدی نیند کی پرموشن کا تحفہ دے کر اسے قدرے آرام مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ البتہ یہ بات الگ ہے کہ اس ابدی نیند میں بھی ظالم پرموشن اس بے چارے کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ وہاں اس کو دوزخ کی آگ سے نکل کر جنت کی حسین وادیوں میں گھومنے کی خواہش اور یہاں پہنچ کرحوروں سے بھرے محل خانوں میں داخل ہونے کی پرموشن اس کی روح کو کریدتی رہتی ہے اورپھر ان حالات میں بے چارے کے پاس ذوق صاحب کے اس شعر کے ورد کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں رہتا۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہے کہ مرجائینگے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائینگے
لیکن اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی گھمنڈی پرموشن کا غرور نہیں ٹوٹتا اور ہر انسان کی ڈموشن کے ساتھ ہی اس خوش قسمت کی پرموشن ہوجاتی ہے۔ پرموشن کا یہ جذبہ پروموشن کے علاوہ ہر شخص میں اپنی حیثیت کی جانچ کئے بغیر ہی اُمڈ آتا ہے اور اس کے سانچے میں اُترنے کے لئے انسان اپنی ذات کو یوں تراشنے لگتا ہے کہ اپنی اصل پہچان ہی کھو بیٹھتا ہے۔ اور اگر وہ کبھی اس سانچے میں آ بھی گیا تو اس پروموشن کی لاج رکھنے کے لئے ایک اور پروموشن کے سپنے اس کے قلب و ذہن پر حاوی ہوتے ہیں۔ یوں وہ سکون کی تلاش میں اپنے حال کو کھو بیٹھتا ہے اور ماضی کو کھوجتے کھوجتے مستقبل کے ویرانوں میں آوارہ پھرتا ہے۔ جہاں وہ پروموشن کے اس مایا جال سے نکلنے کی خاطر ایک اور پروموشن کی تاک میں رہتا ہے۔
آخر کیوں نہ رہے پرموشن ہے؟ ہی ایسی جس کا جام چکھنے پر اس کا نشہ بالکل بھی نہیں جاتا بلکہ انسان ہو یا جانور اس کی تڑپ میںہر آن دیوانہ بنا رہتا ہے۔
���
برنٹی اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛990705778