’’ٹک ٹوک‘‘(TIK TOK)

عصر  حاضرمیں انٹر نیٹ اور سوشل میڈ یا کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اَنٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا۔دنیا کے بسنے والے افراد بلا تمیز مذہب و ملت،رسم و رواج،ذات پات،علاقائی و لسانی تفریق ایک دوسرے کے دوست بن سکتے ہیں اور کبھی یہ دوستی مفید اور کبھی بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ سوشل ویب سائیٹس باہمی روابط اور اطلاعات و خبر رسانی کا موثر ترین وسیلہ بن کر دنیا میں چھاچکا ہے۔فیس بک ،واٹس ایپ، ٹویٹر انسٹاگرام وغیروہ وغیرہ سوشل میڈیا کی اہم سہولیات ہمیں دستیاب ہیں جن کا صحیح خطوط پرا ستعمال ہونا چاہیے۔ آج فیس بک بچہ بچہ استعمال کر نا جانتا ہے اور ہماری وادی کا کوئی خواندہ ہو یا نا خواندہ فرد، وہ بنا کسی مشکل یا رکاوٹ کے سماجی رابطہ سایٔٹس کا استعمال جانتا ہے۔ فیس بک کا بانی امریکہ کی ہارڈورڈ ینورسٹی کے ایک طالب علم مارک زکر برگ نے فیس بک کو اپنے کالج کے ساتھیوں سے رابطہ کے لیے بنایا تھا مگر یہ ایپ ۲۰۰۰۷ء پوری دنیا میں متعارف کی گئی۔شروع شروع میں فیس بک اطلاعات کے پھیلاؤ،تفریحات اور علم کے حصول کا بہترین ذریعہ بنا مگر وقت گزرنے کے ساتھ فیس بک میں بہت سارے تفریحی موادکے اضافے سے اس کے شایقین کا دائرہ بہت بڑھا ۔آج کی تاریخ میں خاص کر نوجوان نسل نے اس چیز کے مثبت اور منفی پہلو نظر انداز کر تے ہوئے اس کی پُر اسرار دنیا کا حصہ بنی ہوئی ہے اور اب تمام لوگوں کے ہاتھ میں سمارٹ فونز ہیں بلکہ ناقابل تردید سچ یہ ہے کہ سمارٹ فونز نے تقریبا ہر کس وناکس کو ذہنی طور مشغول رکھا ہوا ہے۔
وادیٔ کشمیر دور جدید میں بھی سایٔنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میںصدیوں پیچھے ہے لیکن دنیائے انٹر نیٹ معرض ِوجود میں آنے کے ساتھ ہی یہ شہر ودیہات اور امیرو غریب کی زندگی کا لازمی حصہ بلکہ جزولاینفک بناہوا ہے۔ افسوس کہ ہمارے یہاںانٹر نیٹ کی وساطت سے سماجی روابط سایٔٹس کا غلط استعمال ہورہاہے، بالخصوص فیس بک کا ناروا استعمال جاری وساری ہے ۔ آج کل فیس بک کے طرز پر ایک اور ایپ جسے ’’ٹک ٹوک‘‘(TIK TOK) کہا جاتا ہے ،کشمیر میں بھی باقی سماجی سایئٹس سے زیادہ شہرت پا چکی ہے۔ ’’ٹک ٹوک‘‘ ۲۰۱۶ء میں چین نے فیس بک کے طرز پرہی دنیا میں منظر عام پر لایا اور اب یہ پورے عالم میں ایک مقبول ترین ایپلکیشن بنی ہے۔ اس کے ذریعے صارفین ساؤنڈ ٹریکس پر پہلے سے بناے گئے مختصر ویڈیو زکے میوزک استعمال کر کے اپنا ویڈیو بنا لیتے ہیں۔’’ٹک ٹوک‘‘ کو فیس بک کے صارفین بآسانی  لاگ اِن کر سکتے ہیںاور اپنے بنائے گئے تفریحی ویڈیوز کو اپنوں اور غیروں کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔کہنے کو یہ نئی اَیپ کشمیر میں تفریحی مقاصد کے لیے جانی مانی گئی ہے مگراس اَیپ کے ذریعے سماجی برایئوں کو بھی بے حد فروغ دیا جارہا ہے۔ ’’ ٹک ٹوک‘‘ کا خاص طور غلط اورحیا سوز استعمال صنف ِنازک بے خوف و خطر کر کے سماج کا سر شرم سے جھکا رہی ہے۔ کشمیری پوری دنیا میں با حیا،با وقار اور با غیرت قوم مانی جاتی ہے تاہم ہمارے مٹھی بھر نادان لڑکے اور لڑکیاںآج ہم سے یہ مقام اپنے کرتوتوں سے چھین رہے ہیں۔ ایسا شاید ہماری قوم کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ سماجی سایئٹس کی اس اَیپ کے ذریعے ہماری بہنوں اور بیٹوں کے حیا سوز چہریحد سے زیادہ منظر عام پر آ رہے ہیں ۔ اس سے ہمارے ارد گرد بے پردگی پھیل رہی ہے اور اخلاقی گھاٹے جیسے بد ترین گناہ جنم پارہے ہیں ۔ ہماری کوئی بہن یا بیٹا اگراپنی عفت و رفعت کو نظر انداز کر کے بے پردگی کے عالم میں بالی ووڈ اور ہالی ووڈ اداکاروں (بانڈوں)کی نقل کر کے اپنی برہنہ تصاویر اور ویڈیوز سماجی روابطہ نیٹ پر اپلوڈ کر نے لگے تو کیا یہ ایک با حیاقوم کے شایان شان ہوگا؟کیا ایسی حماقتوں سے معاشرے میں بے حیائی کو فروغ نہ ملے گا؟ کیا اس سے بنت ِحوا عدم تحفظ کی شکار نہ ہوگی ؟ حال ہی میں انٹر نیٹ کے سماجی روابطہ سایٔٹس پر کشمیری بیٹیوں اور بیٹوں کے ایسے سینکڑوں غیر اخلاقی اور بے پردہ ویڈیوز منظر عام پر آئے جن سے عوامی حلقوں میں اخلاقی بگاڑ کے حوالے سے کافی تشویش پھیل گئی۔ جب ہم بنا سوچے سمجھے تفریح کے نام پر ایسی شرم ناک ویڈیوز بناتے پھرے اور پھر  انہیںسماجی رابط سایٔٹ فیس بک پر ڈالا تو پوری دنیا میں ہمارے عزت کی پامالی کے سوا کچھ اور ہمارے ہاتھ نہ لگا ۔ اب ہماری مسلم معاشرت پر سینکڑوں سوالات اور اعتراضات اُٹھتے ہیں جو ہمارے لئے شرم ساری ا ور ذِلت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ایسی نادان حرکتوں سے ہمارے معاشرے کی ہر پاک دامن بہو بیٹی پر سوالیہ نشان لگاہے ۔ہماری ان نادان اورنارواحرکتوں سے ایک طرف دنیا میں ہماری شریف وبا پردہ خواتین کی شناخت کو ٹھیس پہنچی ہے ، دوسری طرف دنیائے اسلام میں ہم سے ہمدردی رکھنے والے ہمیں بے غیرت ، خدافراموش وخود فراموش قوم سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ یاد رکھئے ’’ٹک ٹوک‘‘ کے غلط استعمال سے ہماری وادی جسے پیر وأر کہا جاتا ہے ، کی تہذیب و تمدن پر بھی ایک دھبہ سا لگا ہوا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ معاشرے کے ذِی حس اور ذمہ دار افراد اس قسم کی غیر اخلاقی حرکات کے نتائج جاننے کے با وجود بھی منافقانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔وہ اس نوع کے غیر شرعی اور غیر اخلاقی کام میں ملوثین کو روکنے ٹوکنے کے بجائے شتر مرغ کی چال چل کر انہیں نظر انداز کررہے ہیں۔ کیا یہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی لاج شرم کی نیلامی نہیں ؟اور ہم مسلمانان ِ وطن ہیں کہ خاموش تما شائی بنے بیٹھے ہیں ۔ معاشرے کے باشعور افراد اور علماء سے مودبانہ التماس ہے کہ ہر سطح پر اپنی بہنوں بیٹوں کو ’’ٹک ٹوک ‘‘کے غیر اخلاقی اور غیر شرعی کاموں سے مکمل طور دور رکھیں تاکہ آگے ہمیں شرمسار ہونا نہ پڑے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی بیٹیوں اوربیٹوں کو اس غیر اخلاقی سے فوراً سے پیش ترروکیں تا کہ ہمارا معاشرہ بے پردگی سے کوسوں دور رہے۔ ہماری وادی عارفوں،صوفیوں،اولیاء اللہ کی سر زمین رہی ہے، یہ ہمیشہ پاک دامن لوگوں کا مسکن رہی ہے ، خاص کر مستورات کے متعلق ہم طبعاً حساس واقع ہوئے ہیں ، بہن،بیٹی،بہو،ماں کی بے پردگی کو ہم سب معیوب سمجھتے ہیں ۔ یہی ہماری زندگی اور تشخص کی علاماتِ حیات ہیں ۔ آخر پروالدین سے گزارش ہے کہ اپنے جگر گوشوں یعنی بیٹیوںاور بیٹوں کوہر طرح کے غیر اخلاقی کاموں سے دور رکھیں ۔ یاد رکھیں کہ آگ کی ایک چنگاری شہر کے شہر اور گاؤں گاؤں کو خاکستر کر سکتی ہے۔ ہم اپنے اردگرد اس آگ پر قابو کرنے کا سا مان کریں تو ہمارے گھرآنگن میں سدا بہارپھول کھلتے رہیں گے اور ہرچہارسُو سر سبز و شاداب نظر آ ئے گا۔ اپنی بہن اور بھائیوں سے ہاتھ جوڑکرگزارش ہے کہ آپ پر سوشل نیٹ ورک سایٔٹس کے اچھے اور تعمیری استعمال پر کو ئی پابندی نہیں مگر حدیں نہ پھلانگیں۔ یہ بات سمجھ لیجئے کہ جب بھی ہم شریعت کے حدود سے باہر کوئی کام کر یں گے تو اللہ نہ کرے وہ دن دورآکر رہتاہے جب قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہو تاہے ۔ ا س عذاب ِ الہیٰ سے ہم سب ڈریں ۔قرآن ہمیں بار بار تنبیہ کرتا ہے کہ خبردار! تم سے پہلے جن قوموں نے اللہ کے پسندیدہ اصولوں اور شریعت کو نظر انداز کیا ، اور اپنی من مانیاں کیں، اس قوم کا پھر کہیں نام و نشان تک باقی نہ رہا۔