’’راکیش‘‘ پچھلے ایک ماہ سے بستر علالت پر تھا۔گھٹنوں ،جوڑوں کے درد جیسی عمومی Age related بیماریوں میں تو پہلے سے ہی مبتلا تھا ۔اب کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری نے بھی اس کے بوڑھے اور نحیف جسم میں اپنی جگہ بنالی تھی۔جب گھر پر اپنے طریقے سے علاج کرنے سے کچھ افاقہ نہ ہوا تو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا ،مسلسل دوائی اور علاج سے طبیعت کچھ سنبھلی تو ہسپتال سے فارغ ہو کر گھر آگیا ۔حالت ذرا سدھری تو اپنے کام اور گھریلو حالت کی فکر ستانے لگی ۔اسی سوچ میں غلطاں و پیچاں تھا کہ کمرے میں بیوی ادرک کا کاڑھا اور کچھ دوا ئیاں لے کر داخل ہوئی ۔
’’لگتا ہے آپ پھر سے سوئے نہیں ہیں ؟آپ کو آرام کی ضرورت ہے ۔کن سوچوں میں گم رہتے ہو ؟‘‘ راکیش کی بیوی نے پوچھا
’’میں سوچ رہا ہوں کہ کل سے کام پہ چلاجاؤں ‘‘ راکیش نے بیوی سے کہا ۔
’’نہیں!! اس حالت میں کام کرنا مناسب نہیں ۔اپنی صحت کا توخیال کرو۔ڈاکٹروں نے بھی کام کاج سے سختی سے منع کیا ہے۔کچھ دن آرام کر لو۔اس کے بعدچلے جانا‘‘بیوی نے کہا۔
’’گھر میں چولہا سرد پڑا ہواہے اور مجھ سے کہہ رہی ہوہے کہ میں آرام فرمالوں۔بہت مشکل سے ادویات اور ٹسٹ کے اخراجات پچھلی کمائی اور رحیم سے لی ا دھار ی کی رقم سے پورے کئے ہیں۔تم کیا جانوگی یہ سب !۔میں بھی گھر پہ رہوں تو فاقوں کی نوبت آجائے گی ۔کھاؤ گی کیا ۔تمہارا باپ لائے گا ؟…ان ڈاکٹروں کی تو…‘‘!! ڈاکٹروں کے نام پہ ایک سخت اور موٹی گالی دیتا ہوا اور کچھ بڑبڑاتا ہوا وہ زمین پر لیٹ گیا ۔
علی الصباح گھر سے سبزی منڈی کے لیے روانہ ہوا ۔سائیکل پر سوار گھر سے نکلتے ہوئے راستے میں وہ اپنی زندگی کے گذشتہ ایام کو یاد کر رہا تھا ۔واقعات اور روداد کا ایک لامتناہی سلسلہ اس کے سامنے گویا پردئہ سیمین پر چل رہا تھا۔ایک مہینے میں اس نے سبزی منڈی اور اپنے ساتھیوں کو کتنا یاد کیا ۔ان سے دور رہنا اس کے لیے کتنا مشکل تھا ۔صبح سے شام تک زندگی کے پینسٹھ سال اسی سبزی منڈی میں گزارے ۔اس نے اپنی کاروباری اور عملی زندگی کا آغاز ہی یہیں سے کیا تھا ۔جب سے کام کاج کرنے کے لائق ہوا اور جسمانی طور پر اپنے لیے روٹی کمانے کی صلاحیت پیدا ہو تب سے وہ اسی سبزی منڈی میں ترکاری و میوے فروخت کرنے لگا تھااور یوں عمر عزیز کا بیشتر حصہ اسی منڈی میں گزاراتھا۔اس منڈی میں اس کا سکہ چلتا تھا گو پیسوں کے معاملہ میں نہیں البتہ پرانے مکین کی حیثیت سے ۔باہمی تنازعے اور آپسی نزاع اس کے فیصلے سے ہی حل ہوتے تھے اور اس کی بات حرف آخر مانی جاتی تھی ۔ جوں جوں منڈی قریب آرہی تھی اس کے جذبات متلاطم ہورہے تھے۔اسے خوشی تھی کہ زندگی نے چند دن اور یہاں رہنے کی اوراپنے ساتھیوں کو دیکھنے اور ان سے ملنے کی مہلت دی۔خوشی اس کی چال سے ظاہر تھی ،فرط مسرت سے وہ زیر لب کچھ گنگناتا اپنی سائیکل کو کھنچتا ہوا سبزی منڈی پہنچ گیا۔صدر دروازے سے داخل ہونے لگا تو اسے پان کے پتے والا نظر نہیںآیا اور نا ہی اس کا ٹھیلا ،جو ہمیشہ اس کے آنے پر خیر مقدم کرتے ہوئے اس کا مرغوب پان پیش کرتا تھا ۔وہ یہ سوچ کر آگے بڑھا کہ ابھی آتا ہی ہوگا دور سے جو آنا ہوتا ہے ۔دوسری جانب سے چمیلی اور گلاب کے پھول کی مہک غائب تھی۔خیال آیا کہ شاید بندہ ابھی کسی لالہ زار گلستاں میں گلچینی میں مصروف ہوگا ۔چند قدم اندر گیا تو اس نے سبزی منڈی کا نقشہ ہی بدلا ہوا پایا ۔نہ تو وہ ترکاری والے موجود تھے ،نہ کیلے والا ،نہ آچار پاپڑی والے تھے،نہ میوہ فروش ،نہ سوکھے پھل اور خشک میوے والے تھے اور نہ ہی کوئی اور ٹھیلے والے تھے ۔سامنے سے چائے والا بھی بمع اپنے ٹھیلے کے لاپتہ تھا۔خدایا ! یہ ہو کیا گیا ہے ان سب کو؟یہ میں کہاں آگیا ہوں ۔کہیں جلدی تو نہیں آیا میں؟!! ۔مشرق کی طرف سورج کو دیکھا تو دن کافی چڑھ گیا تھا۔یہ سب کے سب کہاں مر کھپ گئے ہوں گے۔یہاں اتنا سناٹا کیوں ہے ۔کیوں نہیں آیا ابھی تک کوئی! وہ خود ہی خود سے سوال پے سوال کئے جا رہا تھا ۔
جس کونے میں بیٹھ کر وہ پچھلے پینسٹھ سال سے آلو پیاز اور ترکاری بیچتا آرہا تھا۔ جس ٹھیلے پہ سبزیاں قرینے سے سجا کروہ اپنی روزی روٹی کماتا آرہا تھا اور جس سے اس کا گھر چلتا تھا وہ سرے سے ہی غائب تھا ۔سبزی منڈی میںنہ سبزیوں کی بوریاں تھیں نہ ترکاریوں کے ڈھیر۔ نہ پھلوں میوں کے ٹھیلے تھے نہ ہی اس کے ساتھی سبزی فروش اور ان کے ٹھیلے۔ بلکہ اس کی نظروں کے سامنے ایک نیا اور ہولناک منظر تھا ۔
سبزی رکھنے کے لیے لال اور نیلے رنگ کے پلاسٹک کی ٹوکریاں نیلے رنگ کی چادر وںپر سجائی ہوئی تھیں۔ سبز جالی نما چادر سے چھت بنا ہوا تھا جس کے اندر اور اطراف سے آرائشی برقی قمقمے اور بلب لٹک رہے تھے ۔رنگ برنگی پلاسٹک کی ٹوکریوں میں قرینے سے سبزیاں ،پھل میوے اور باقی اشیا ء سجائی ہوئی تھیں۔ حیران و پریشان وہ سمجھ نہیں پارہا تھاکہ یہ سب بدلاؤ کیا ہے ۔اُس نے قیاس کیا کہ ہوسکتا ہے کہ میونسپلٹی والوں نے کسی نیتا کی آمد پر خیر مقدم کے لیے سجایا ہو۔عام طور پر انتخاب سے پہلے مختلف پارٹی کے ممبراں اپنی پارٹی کے کسی نیتا کی آمد سے قبل منڈی کو ایسے ہی سجایا کرتے تھے۔ اس طرح نیتا اپنی دبی کچلی غریب ،مفلس ،بھوکی ننگی رعایا سے ملنے آتے تھے اور جھوٹے دلاسے ،وعدے کر کے ڈھیروں دعائیں اور ووٹ لے کر چلے جاتے تھے ۔ پھر چاہے ان وعدوں کو کرسی ملتے ہی بھول جاؤ ۔اوسان خطا تو تب ہوئے جب اس نے ٹوکریوں کے سامنے نرخ نامہ Rate listچسپاں دیکھا ۔آلو 80روپے ،پیاز200روپے ،ٹماٹر 100روپے کلو ۔ سبزیوں کی قیمت( نرِخ) دیکھ کے وہ سٹپٹا گیا۔گو سبزیاں تووہی تھیں جو راکیش تمام عمر فروخت کرتا آیا تھا مگراتنی مہنگی سبزی تو اس نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی تھی ۔یہ پیاز آلو تو دیسی ہوں گے نا ؟کہیں ودیش سے تو نہیں آئے ہوںگے ؟یہ سب کیا تماشا ہے ؟ وہ خود ہی خود سے سوال کرتا رہا۔کافی دیر تک وہ سبزی منڈی کی فضا کو بُت بن کر تکتا رہا ۔یا خدا !میں یہ کس جگہ آ پہنچا ہوں ۔مبہوت اور متحیر کھڑاکافی دیر سے وہ اس غیر متوقع بدلاؤ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔تشویش اور تجسس کی ملی جلی کیفیت اس کے چہرے سے ہویدا تھی ۔اسی تجسس میں وہ گم تھا کہ اچانک پتلون ،قمیص، ٹائی میں ملبوس ، ہاتھ میں پلاسٹک کا دستانہ پہنے ایک’’ صاحب ‘‘ اس کی طرف آگیا ۔
’’کیا چاہئے ؟ ٹائی والے صاحب نے اس سے پوچھا ۔
’’ج۔۔ججہ۔جی۔۔۔صصصص۔۔ صاحب !!اُس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
پھر اُس صاحب نے اس کے سارے شکوک و شہبات کو دور کر تے ہوئے کہا
’’تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟ جاؤ باہر اگر سامان ہی نہیں لینا ہے تو ہمارا وقت برباد مت کرو‘‘!!!
’’یہ ہماری منڈی ہے ! تم کون آئے یہاں بیچنے والے؟؟؟؟ ہم کیوں خریدیں یہاں سے ؟؟؟؟؟پینٹھ سالوں سے اس منڈی کو اپنے خون اور پسینے سے سجایا ہے ہم نے ــ‘‘راکیش نے بھی غصیلا ہوکر جواب دیا ۔
’’اب یہاں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے !! دیکھتے نہیں ہو کیا ؟؟؟ یہ جگہ اب ہماری کمپنی نے لے لی ہے ۔یہاں ہماری کمپنی کی سبزی منڈی اور Easy shopsکھلی ہیں۔ حکومت نے Privatisation schemeکے تحت یہ منڈی نیلام میں ہما ری کمپنی کو فروخت کی ہے۔اور تو اور اب اس طرح تمہارے جیسے Unprofessional چھابڑی فروشوں کے لیے نہیں ہے یہ منڈی ۔اب تم لوگ سبزی ،ترکاری اور پھل وغیرہ ایسے نہیں بیچ سکتے ۔اس کے لیے تمہیں ہم سے Franchisee لینی ہوگی ۔سمجھ میں آیا کچھ !!!یہ منڈی نیلام ہوچکی ہے ‘‘۔ اُس صاحب نے اس کی سوالیہ نگاہوں اور سوالات کا دو ٹوک جملوں میں جواب دیا ۔۔۔۔۔بدحواس اور پریشاں ہوکر وہ زمین پر بیٹھنے لگا۔ ٹائی والے صاحب اس کی حالت پر رحم کرنے کے بجائے اس پر برہم ہوگیا اور گالیاں دیتے ہوئے اسے دھکے مار کر منڈی سے باہر نکال دیا۔
وہ روتا ،پیٹتا ،اور غم و غصے کے عالم میں باہر سڑک کنارے پہنچا تو وہاں اس کے شفیق دوست رحیم سے ملاقات ہوئی۔۔۔رحیم نے اس کی تکلیف کو سمجھتے ہوئے اسے دلاسا دیا ۔
دیکھو !حکومت نے ملک میںنجی کاری کو عام کیا ہے ۔نئے قوانین وجود میں لائے گئے ہیں۔زرعی قوانین میں ترمیم کی گئی ہیں۔یہ نجی کاری اور اس طرح کمپنی راج کے اصول تو اسی ترمیم شدہ قوانین کی دین ہے !!! رحیم نے لمبی چوڑی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا’’جب حکومت کو اپنی پالیسیوںاور کارکردگیوں میں ترقی کے آثار نظر نہیں آئے اورجمہوری سسٹم میں ترقی کی رفتار سست محسوس ہونے لگی تو جمہور ی نظامِ حکومت کو برائے نام رکھ کر شخصی طرز کو فوقیت دے رہی ہے۔‘‘رحیم نے اپنی دانست کے مطابق جو کچھ سن رکھا تھا وہ اپنے دوست کو سمجھایا۔’’حکومت اب نجی کاروبار پر زور دے رہی ہے ۔ سبزی منڈیوں ،اناج منڈیوں ،میوہ منڈیوں میں اب ہم جیسے لوگوںکا کوئی کام نہیں، یہ سب صرف کمپنیاں چلائیں گی۔ اور تو اور ہم اب یہ کام نہیں کرسکتے ۔اس کے لیے ہمیں ان کمپنی والوں سے لکھ کر لائسنس لینی ہوگی۔وہ کیا کہتے ہیں اسے !!! ہاںfranchisee جس کے لیے ایک کثیر رقم دینی ہوگی جو ہمارے بس کی بات نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ آمدنی کے ایک معقول حصے پر بھی کمپنی کا ہی حق ہوگا ‘‘! رحیم نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
اس پر راکیش کافی برہم ہوگیا ۔اپنی عمر کا لحاظ کیئے بغیر دو چار موٹی اور غلیظ گالیاںدیں۔’’قانون بنانے والوں کی تو۔۔۔۔۔‘‘!!!
پھر اپنی علمیت اور دانست کے مطابق کہا ’’ارے بھائی یہ تو شخصی راج کی علامت ہے، جمہوریت کا دیوالیہ نکلا جا رہا ہے‘‘۔ان سب کی تو۔۔۔۔!!!کہہ کر ایک اور گالی پٹخ دی۔ ’’ہمیں خاموش نہیں رہنا چاہئے ،ہمیں مل کر اس فتنے کے خلاف احتجاج کرنا چاہئے۔‘‘ راکیش نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ہاں بھائی کیا کیا جائے۔ شومئی قسمت !!!کون ہے ہماری سننے والا۔ یہاں ’’آپ ہی منصف آپ ہی مدعی ‘‘ والا معاملہ ہے۔ اور تو اوراب ہماری عمر نکل گئی ہے احتجاج کریں تو بھی کس سے کریں ۔بوڑھے جسموں میں طاقت بھی نہیں۔اس نظام سے لڑنے کی ۔‘‘لمبی سانس لیتے ہوئے رحیم نے کہا ۔
’ ’ دیکھو حکومت کو سوچنا چاہئے کہ وہ انفرادیت کو ترجیح دے رہی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا نا کہ کچھ سرمایہ داروں کی دکان اونچی کرنے کے لیے ہزاروں گھروں کے چولہے بند کررہی ہے۔ جس جگہ سے غریبوں کو دو وقت کی سوکھی روٹی میّسر ہوتی ہے، جس سے ان کے اہل خانہ کے پیٹ کی آگ بجھ جاتی ہے اس جگہ کو ان سے چھین کر سرمایہ کاروں کے حوالہ کر کے ان کے وسیلہ رزق کو بند کرنے پر تلی ہے حکومت۔ جن کا دانا پانی اسی منڈی سے جڑا ہے کیا حال ہوگا ان کا۔ کیا ان کے گھروں میں اس وقت چولہا جل رہا ہوگا ؟کیا ہوگا ہم سب کا ‘‘!!!راکیش نے ایک سرد آہ بھر کردرد بھرے لہجے میں کہا
’’دو روز سے میرے گھر کا بھی چولہا سرد پڑا ہے !!! رحیم نے کہا
ابھی دونوں پریشانی کے عالم میں سڑک کے کنارے بیٹھے اس نئی مصیبت اور شورش کا رونا رو رہے تھے کہ سامنے سے چیختی چلاتی مخلوقِ خدا سے کھچا کھچ بھری ہوئی لاریاں گزرنے لگیں ۔اور ان کی آواز فضا میں گونج رہی تھی ۔
نہیں چاہئے نہیں چاہئے!!! نیا قانون نہیں چاہئے !!!
Privatisationکو واپس کرو !!!
منڈی ہماری ہے ۔ہماری ہی رہے گی !!!
زمین ہماری ہے۔محنت مزدوری ہم کرتے ہیں !!!وغیرہ وغیرہ
گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے ایسے چیخ چیخ کر لگا تے ہوئے جارہے تھے جیسے ان کی صدائیں سننے کے لیے ان کے نمائندے بیتاب ہوئے جارہے ہوں۔۔۔
یہ لوگ ترمیم شدہ قانون اور حکومت کے غلط اور ناروا منصوبوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے تھے ۔جس کے جرم میں پولیس انہیں قید کر کے لے جارہی تھی ۔ان میں مختلف عمر کے لوگ شامل تھے ۔بچے ،بوڑھے ،مرد و زن ۔۔
ان لوگوں کو کہاں لیا جائے گا۔کہاں بھیج دیے جائیں گے ،یہ کب واپس لوٹیں گے کسی کو خبر نہیں ۔۔۔
جب لاریاں ان کے سامنے سے گزر نے لگیں تو راکیش بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے لگا ۔اس کے پیچھے رحیم نے بھی دہرایا !!!
’’ہماری منڈی ہماری ہے ۔کمپنی والو باہر جاؤ ‘‘ !!!
ابھی دونوں نعرے لگاتے ہوئے جس سمت سے لاچار و بے کس مخلوق سے بھری لاریاں گزری تھیں اس طرف کوچلنے لگے تھے کہ پولیس کی گاڑی آئی اور ان کو گھسیٹتا ،پیٹتاہوا گاڑی میں پھینک دیا اور گاڑی شہر کی مصروف ترین شاہراہ پر پھراٹے بھرنے لگی ۔لوگ ان کی صدائیں سن رہے تھے۔ لیکن اپنے کاموں میں مصروف ۔۔۔۔۔۔
’’نہیں چاہئے نہیں چاہئے!!! نیا قانون نہیں چاہئے ‘‘!!!
���
پی ایچ ڈی سکالر،مولانا آزاد اُردو یونیورسٹی حیدرآباد
موبائل نمبر؛9490029362