کاسنی کے پھول
کاسنی کے پھول ابھی کھلے نہیں تھے
کہ محبت مر گئی
موسم وقت کی گڑیا ہے
وقت جسے وقت وقت پہ بدلتا رہتا ہے
محبت نہیں
محبت دائروں سے باہر ہے
صحرا میں پڑی کسی گمشدہ مسافر کے حوادث کی پوٹلی جیسی
شیلا مندر کی آخری سیڑھی پہ رک کر
کہا کرتی تھی
دیکھ بھیّا۔۔۔محبت امر ہے
تب ماہی میری طرف دیکھ کے پلکوں سے آرتی اتارتی تھی
شیلا کا سندور چھن گیا
دکھ اور درد کے خوفناک جنگل میں
میں اور ماہی کسی عجیب موسم میں آگرے
دائروں کے بیچ حادثہ آ ٹپکا
ماہی اور میرا موسم کئی حصوں میں بٹ گیا
شیلا وقت کی دھند میں کھو گئی
تپتی دوپہر کی دھوپ میں پگھل گئی
پہلگام کی وادیوں میں برفیلے بابا کی طرح
پگڈنڈی کے دوسرے سرے کی اور
ہم تنہا ہوتے گئے لمس چھوٹنے لگے
کاسنی کے پھول ابھی کھلے نہیں تھے
میرے گاؤں کی تازہ ہلکی ٹھنڈی ہواؤں کو ماہی کے شہر کی تپش نے دھول چٹائی
کچے دھاگے ٹوٹ گئے
میرے ہاتھوں کی انگلیوں میں لمبے ریشمی بالوں کو سہلانے کی تڑپ دم توڑ چکی تھی
ایک ہو کا عالم تھا
بے خواب آنکھوں سے لڑکتے آنسؤں کا ہجوم ریگ زار سے لپٹ چکا تھا
دائروں سے باہر انجان رستے پہ جنازہ نکل پڑا
اپنے پیچھےنہ کھلےکاسنی کے پھولوں کی مہک چھوڑ کر
دل کی کھڑکی کا پٹ کھلا رہتا ہے
جانے کب دائروں سے باہر کی مہک
موسم کی گرفت میں آئے
وقت کی کروٹ کا کیا بھروسہ ۔۔!
محبت دوسرا جنم لے گی
میری انگلیوں می ریشمی بالوں کو سہلانے کی جنبشیں لوٹ آئیں
کاسنی کے پھول دبارہ کھلیں۔۔۔۔۔!!!!!!
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، موبائل نمبر؛9419045087
ماڈرن وومن
میرے وجود کے کئی حصے ہیں
میری ذات کئی خانوں میں بھٹ چکی ہے۔
میں بیوی ہوں،بہو ہوں ،ماں ہوں
بیٹی و بہن بھی
ہاں یاد آیا
میں شاعرہ بھی ہوں، ادیبہ بھی
اور استانی بھی
مہینے کی آخری تاریخ کو
میرے ہاتھوں میں موٹی رقم بھی آتی ہے۔
جو بیس تک آتے آتے ختم بھی ہوجاتی ہے۔
گھر کا سودہ سلف،دودھ والا،سبزی فروش
بچوں کے اسکول کی فیس
ان کے کپڑوں، کھلونوں۔ویڈیو گیم،باربی ڈول۔سب خرچ ہوجاتا ہے۔
میری ذات کے ان تمام خانوں میں
میرے کھاتے میں کیا کبھی کوئ سکہ گرتا بھی ہے؟
میں فیشن کے نت نئے ڈیزائن کی پوشاکیں بھی بنوا تی ہوں۔
میچنگ جیولری ،جوتے اور پرس
بھی خرید لاتی ہوں۔
پرفیوم بھی فارئن چاہیے مجھے
کہ جس کی خوشبو میرے ذہن کے پردوں پر رقصاں ہوکر میرے وجود کو معطر کرتی ہے۔
مجھے رولان کی ویجھی لپسٹک
بھی چاہیئے
جس سے میرے ہونٹوں کی مسکان
دوبالا ہوجاتی ہے۔
میں یہ سب کرتی ہوں
کہ میں آج کے زمانے کی الٹرا ماڈرن وومن ہوں۔
جو تمام پارٹ بڑی خوش اسلوبی سے
نبھانا جانتی ہے۔
مگر میرے وجود کے ان تمام حصوں میں
ذات کے اس بٹوارے میں
میں کہاں ہوں؟
میری " میں" کس خانے میں ہے؟
میں اپنی بازیافت میں گم ہوں۔
اور لوگ کہتے ہیں۔
کہ مجھے "ہینگ اوور" ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر کوثر رسول
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی