جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آتے ہی اب یہ طے ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس الائنس مل جُل کر حکومت بنائے گا اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ ہی بطور ِوزیر اعلی اس حکومت کی کمان سنبھالیںگے۔اب جو اہم سوال یہاں کےعوام میں اُبھر رہا ہے،وہ یہی ہے کہ کیا وہ اُن دعووں اور وعدوں سے وفا کرپائیں گے جو انہوں نے انتخابی عمل کے دوران عوام سے کئے ہیں۔ظاہر ہے کہ کسی بھی حکومت کے مستحکم ،مضبوط اور کامیاب ہونے کی واضح دلیل یہ ہوتی ہے کہ اُس کے دورِ اقتدار میں عام لوگوں کی حالت بہتر ہو ،معاشی صورت حال اچھی ہو ،قانون کی حکمرانی ہو ،امن و امان پر حکومت کا کنٹرول ہو،ہر ایک کے لئے سستا اور فوری انصاف میسر ہو،بے روزگاری پر قابو پانے کی سکت ہواور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اعتدال رکھنے کی طاقت ہو۔انہی باتوں پر تو ہر کوئی سیاستدان ، سیاست کرتا ہے اور اسی سیاست گری کے تحت اُسےحکمرانی بھی مل جاتی ہے۔اگرچہ حکمرانی ایک آنی جانی چیز ہے، تاہم ایک کامیاب حکمران کی واضح نشانی یہ ہوتی ہےکہ جس کا مدعا و مقصد عوام کی بے لوث خدمت ہوتی ہے۔چنانچہ عمر عبداللہ پہلے بھی جمو ں و کشمیر کےوزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور واجپائی کے دورِ حکومت میں مرکزی کابینہ کا بھی حصہ رہے ہیں،جس کے باوصف اُنہیں سیاسی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور اُن کا بہتر طریقے پر حل نکالنے کا تجربہ ہونے کے علاوہ اپنے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی سیاست کا درس بھی مددگار ہوگا۔ اس لئےاُمید کی جاسکتی ہے کہ جموں و کشمیر میں دس سال کے بعد آنے والی یہ حکومت عوام کی اُمیدوں پر کھرا اُترنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی اور حزب ِاختلاف ،خصوصاًبی جے پی جوکہ جموں صوبے کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر اُبھر آئی ہے ،کے ساتھ خیر خواہی کا مظاہرہ کرکے اُن کی آراء کا بھی احترام کرے گی ،بلکہ جموں و کشمیر کی ترقی ،خوشحالی اور امن و امان کی بحالی کے لئے اُنہیں بھی اپنی ہمہ جہت کوششوں میں ساتھ رکھے گی،تاکہ جس صورت حال سے جموں و کشمیر عوام گذر رہی ہے ،اُس میں تبدیلی لا ئی جاسکے۔ظاہر ہے کہ پچھلے ایک لمبے عرصے سے وادیٔ کشمیر کے لوگ سیاسی غیر یقینی صورت حال دیکھتے چلے آرہے ہیں ،جس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف وہ فطری افلاس میں مبتلا ہوئے ہیں، وہیں دوسری طرف کشمیر ی سیاسی لیڈران بھی باہمی عدم اتحاد کے شکار رہے ہیںاور اپنی اپنی الگ ٹولیاں بناکربانت بانت کی بولیاں بول رہے ہیں ۔ اس طرح عوام اور لیڈران دونوں کے درمیان باہمی اختلافا ت اور آپسی خلفشار کے شکار ہوکر بکھر کر رہ گئے ہیں۔ جس کے باعث عوام کو درپیش کوئی مسئلہ حل نہیں ہوپا یا ہے۔گذشتہ دس سال کے دوران بھی جموں و کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے اگرچہ کئی ترقیاتی کاموں کو آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا لیکن عوام کو درپیش بنیادی مسائل کو حل کرنے میں وہ سنجیدگی نہیں دکھائی ،جس کی ضرورت تھی،بلکہ کئی ایسے اقدام اٹھائے ،جن سے عوام کی پریشانیوں میں حد درجہ اضافہ ہوتاگیا اور جس کے نتیجے میں انہوں نے اس اسمبلی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور ایک جمہوری حکومت کے قیام کے لئے راہیں استوار کیں۔جبکہ بخوبی یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سیاسی غیر یقینی صورت حال سے جموں و کشمیر کے زیادہ تر عوام دل برداشتہ ہوکر محکومی اور محرومی سے چھٹکارا پانے کے لئے اُن چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں سے اپنا ناطہ توڑ کریہاں کی مخصوص سیاسی جماعتوں کے ساتھ جُڑ گئےتاکہ سیاسی غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہوجائے۔اب جبکہ دس سال کے بعد جموں و کشمیر میں مقامی حکومت قائم ہورہی ہے تو لوگوں نے اطمینان کی سانس لی ہے ،اس لئے کہ نئی حکومت اُن کو درپیش مسائل کا کوئی خاطر خواہ حل نکال کر اُنہیں راحت پہنچائے گی۔بے شک اس حکومت کے لئے عوام کو درپیش مسائل کا حل نکالناایک بڑا چیلنج ہے ،لیکن اگر یہ حکومت خلوص دل کے ساتھ کام کرنے کا تہیہ کرلیںاور ایک مشترکہ لائحہ عمل کے تحت بلا مذہب و ملت،رنگ و نسل اور ذات پات کےآپس میں اتحاد و اتفاق ،نظریات کی یکسوئی ،خیالات کی ہم آہنگی اور مساوات کا مظاہرہ کرے گی تو اُس کے لئے ہر منزل آسان بن جائے گی۔ظاہر ہے لوگوں کو درپیش مسائل کا حل ناممکن نہیں البتہ مشکل ضرور ہے ،لیکن یک مشت نہ سہی،آہستہ آہستہ ہر مسائل کا حل یقینی ہے۔ اس لئے یہ بھی لازم ہے حکومت اپنی انتظامیہ میں اُنہی لوگوں کو شامل کریںجو پُر خلوص ہوں،لوگوں کے ہمدرد ،عوامی مفادات کے محافظ ،استحصالی ذہنیت سے صاف و پاک ہوں اورلوٹ کھسوٹ اور نجی مفادات کے قائل نہ ہوں۔حکومت میں شامل ہونے لوگ بھی اس بات سے بالکل با خبر ہیں کہ جموں و کشمیر کے عوام کو بہت سارے ایسے مسائل درپیش ہیں،جنہوں نے انہیں گھیر کر رکھ لیا ہے۔جبکہ بے روز گاری کی لعنت،مہنگائی کی عفریت،نقلی اشیاء خوردنی اور ادویات کی عفونیت نے غریب لوگوں کا جینا اجیرن کردیا ہے اور وہ ایسی حکومت اور انتظامیہ کے منتظر ہیں ،جو اُن کے لئے مسیحا ثابت ہوسکے۔