اننت ناگ//گورنمنٹ میڈیکل کالج اننت ناگ میں دوہفتوں تک زیر علاج رہنے کے بعد فوت ہونے والے کووِڈ- 19مریضوں کے لواحقین نے اسپتال کی بدانتظامی اورناقص سہولیات کو اموات میں اضافے کاذمہ دار قراردیا ہے ۔ منگل کو متوفی کووِیڈمریضوں کے لواحقین اسپتال کے باہر جمع ہوئے اورذرائع ابلاغ کونم آنکھوں اپنی روئیداد سنائی۔اِن میںاننت ناگ قصبے کے بخشی آبادعلاقے کے39برس کے آصف دادا،جنہوں نے والدہ محبوبہ(67برس) اوراہلیہ شبنم(35برس) کومحض چوبیس گھنٹوں میں کھویا،نے کہاکہ دونوں آیئسولیشن وارڈ میں دوہفتوں رہیں اور گھر ان کی لاشیں ہی لائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ محبوبہ،جو ذیابیطس اورہائی بلڈپریشرکی مریضہ تھی،کو27اپریل کو اسپتال میں داخل کیا گیاجب ان کی سچوریشن کم ہوکر83رہ گئی تھی ،جبکہ اُ س کی بہوشبنم کواگلے دن اسپتال پہنچایا گیاجب اُس نے بخار کی شکایت کی اور اس کی سچوریشن کم ہوکر87رہ گئی تھی۔ آصف اوراس کے چھوٹے بھائی جنید دادا،نے دونوں کی تیمارداری کی ،اگرچہ وہ دونوں خود بھی کووِڈ مثبت تھے۔کچھ دن بعد اُن کے والدعبدالحمیددادا(70برس)ایک ریٹائرڈ استادکوبھی اِسی وارڈ میں داخل کیا گیا لیکن چارروز تک اس وارڈ میں رہنے کے بعد اس نے گھرواپس جانے کافیصلہ کیاکیوں کہ وہاں کوئی ان کو پوچھتا ہی نہیں تھا۔دادانے اپنے لئے کنسنٹریٹر کابندوبست کیااوروہ بیماری سے نجات پاگیا۔جنیددادا نے کہا ،’’ہم نے اپنی والدہ کو دوروز بعد اسپتال میں داخل کیا جب اُس میں علامات ظاہر ہوئیں ،تاکہ اُسے بہتر علاج میسر ہولیکن ہم غلط تھے۔اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ وہ مریضوں کو مرنے کیلئے داخل کرتے ہیں توہم کبھی یہاں نہ آتے‘‘۔انہوں نے کہا کہ آئیسولیشن وارڈ میں قلیل نرسنگ اسٹاف مریضوں کو دوادینے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتاتھا۔جنید نے کہا ،’’ایک بار والدہ کو انسولین کالازمی ڈوز نہیں دیاگیاتھا جس کی وجہ سے اس کی شوگر لیول میں اضافہ ہوااوراس کی حالت غیر ہوگئی۔ڈاکٹر نے ٹراپ ٹی ٹیسٹ تجویز کیا لیکن ہمیں بتایا گیا کہ اس میں تین دن لگیں گے‘‘۔انہوں نے کہا کہ صبح کی گشت پراکثر نان سپشلسٹ چکر لگاتے ،مریض کی سچوریشن سطح اوردرجہ حرارت جانچ کرکے رخصت ہوجاتے‘‘۔انہوں نے مزیدکہا کہ رات کے وقت جب مریضوں کی حالت غیر ہوجاتی توہم نرسنگ اسٹاف کے ہاتھ جوڑتے کہ وہ جونیئریا سینئر ریذیڈنٹ کوطلب کریں‘‘۔جنید نے کہا کہ آخر کار اس کی والدہ کی سچوریشن سطح ہائی فلوآکسیجن پر45 تک گرگئی اور اسپتال میں وینٹیلیٹر کی سہولیت نہیں تھی۔انہوں نے سوال کیا کہ اسپتال میں سپیشلسٹ فزیشن یاپلمونالوجسٹ چوبیسوں گھنٹے دستیاب کیوں نہیں ہے۔حکام ایسے مریضوں جو پہلے ہی کئی دائمی امراض میں مبتلا ء ہوں ،کیلئے کارڈیالوجسٹ،یاگیسٹرواینٹرالوجسٹ یا کسی اور کو مہیا نہیں رکھ سکتے؟اگرانہیں معلوم ہے کہ وہ مریضوں کاعلاج نہیں کرسکتے ہیں تو وہ انہیں سرینگر ریفرکیوں نہیں کرتے اور اسکے بجائے انہیں آیئسولیشن وارڈوں میں مرنے کیلئے چھوڑتے ہیں؟‘‘جنید کی والدہ نے آخرکارآیئسولیشن وارڈ میں دوہفتے گزارنے کے بعد رات11بجے زندگی کی جنگ ہاری اور اگلی صبح اُسے سپردخاک کیا گیا۔خاندان ابھی اس صدمے سے باہر نہیں آیاتھاکہ اگلی صبح ان پر ایک اورمصیبت آن پڑی۔آصف کی اہلیہ جو اپنی ساس کے پہلو میں بیڈ پر تھی،نے بھی کووِڈ – 19کے سامنے زندگی کی جنگ ہاری۔آصف نے کہا،’’میری اہلیہ کو بخار تھا اور اس کی سچوریشن 80 تھی اور اُسے کوئی دائمی مرض بھی نہیں تھالیکن یکایک اُس کی سچوریشن 50تک گرگئی اور وہ فوت ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ جب ایک بار آکسیجن پلانٹ میں کوئی خرابی پیدا ہوئی،توانہیں آکسیجن سلینڈروں کیلئے ہاتھ جوڑنے پڑے لیکن وہاں کوئی سلینڈر ہی نہ تھا۔آصف نے کہا کہ ضلع اسپتال کو میڈیکل کالج کا درجہ دینا کیا معنی رکھتا ہے جب آپ بنیادی طبی سہولیات فراہم نہیں کرسکتے۔ایک اور نوجوان آصف نذیر جس نے اپنے والد نظیراحمدٹنڈا(66برس)کو کھویا،نے اس کیلئے اسپتال کی نااہل انتظامیہ کو موردالزام ٹھہرایا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے مریض کا چارروزتک کوئی ایکس رے یا خون کاٹیسٹ نہیں کیاگیااور جب انہوں نے کیاتورپورٹ گم ہوئے۔جب ہم نے اسپتال کے اُ س وقت کے انچارج ڈاکٹر عزیہ منظور سے سوال کیا تو انہوں نے ہمیں دھمکی دی کہ وہ ہمارے خلاف ایف آئی آر درج کرائیں گے۔انہوں نے لیفٹینٹ گورنر سے اس معاملے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا کہ کیوں اس اسپتال میں اتنی زیادہ اموات ہوئیں۔کووِڈ مریض جو اس اسپتال میں دس دن سے زیادہ داخل رہے،کے لواحقین نے بھی اسپتال انتظامیہ پرالزام لگایا کہ انہوں نے ان کے عزیزوں کو اُن سے چھین لیا۔نئی بستی کے رئیس احمد جن کے والد اسپتال میں کووِڈ سے فوت ہوئے ،نے کہا کہ ہمیں وقت پر ادویات نہیں دی گئیں۔24اپریل کو شہزادہ بانو اہلیہ منظوراحمد غازی عمر56برس ساکن کاڈی پورہ بھی اسپتال میں ونٹی لیٹرنہ ہونے کی وجہ سے فوت ہوگئی۔اُسے16اپریل کو اسپتال میں داخل کیاگیاتھا۔عرفان غازی نے کہا کہ اُسے وینٹی لیٹر کی ضرورت تھی لیکن سرینگر کے کسی اسپتال میں بیڈ خالی نہ تھا اور وہ آخر کار آیئسولیشن وارڈ میں فوت ہوئی۔اسپتال میں پانچ دن میں کم ازکم 20کووِڈ مریض فوت ہوئے جن میں ہرناگ کی ایک اور ساس ، بہو بھی شامل تھیں۔ان میں سے اکثر اسپتال میں ایک ہفتہ سے زیادہ رہے ۔میڈیکل کالج اننت ناگ کے پرنسپل ڈاکٹر شوکت جیلانی نے تاہم ان الزامات کو رد کیا کہ اسپتال میں کووِڈ کی وجہ سے زیادہ اموات ہوئیں۔ڈاکٹر جیلانی نے کہا کہ اکثر مریضوں کو کامیاب علاج کے بعد رخصت کیاگیا لیکن کچھ مرگئے کیوں کہ وہ کافی زیادہ بیمار اسپتال لائے گئے۔انہوں نے کہا کہ اسپتال کے آیئسولیشن وارڈ میں معقول تعدادمیں ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ تعینات ہے۔
الزامات کی حقیقت انکوائری کا حکم دیدیا گیا
اننت ناگ /عارف بلوچ /سماجی رابط گاہوں پر گردش کرنے والی ویڈیو کلپ جس میں جی ایم سی اننت ناگ میں حالیہ کوویڈ اموات کا ذمہ دار ڈاکٹروں کو قرار دیا گیا ہے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر (ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ) اننت ناگ ڈاکٹر پیوش سنگلا نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ منگل کے روز سماجی رابط گاہوں پر ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک شخص، جنہوں نے حال ہی میں کوویڈ 19 کی وجہ سے اپنی ماں اور اہلیہ کھو دی ہے ،نے جی ایم سی اننت ناگ میں تعینات ڈاکٹروں و پرنسپل کو انکی موت کا زمہ دار قرار دے کر ان پر سنگین الزامات لگائے ۔اس ڈی سی اننت ناگ نے ویڈیو کا فوری نوٹس لیتے ہوئے معاملہ کے حوالے سے تحقیقات کا حکم جاری کیا اور الزامات کی جانچ کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی۔حکم نامہ میں پرنسپل جی ایم سی اننت ناگ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تشکیل دے جو انکوائری سے متعلق تحقیقات کرے اور 3 روز کے اندر اندر اپنی رپورٹ ڈپٹی کمشنر کے آفس میں جمع کریں۔