میرا گھر میری جنت

دادا دادی کی یاد میں قرآن خوانی کی تقریب ختم ہوئی تو میں اپنے حصے کے سارے کام نپٹا کر اپنے کمرے میں آرام کر نے کے لئے بیٹھی۔ آج مجھے میرا گھر واقعی جنت لگ رہا تھا۔ اسی کے ساتھ میں اپنے ماضی کی کتاب کےاوراق پلٹنے لگی۔۔۔۔۔
مجھے یقین ہی نہیں آرہا ہے جیسے کل ہی کی بات ہے۔ پورے دس سال بیت گئے جب میں نے دوسرے کمرے سے زور زور سے انکل جی کو یہ کہتے سنا دیکھو عدیل نہ تمہاری بیوی کسی امیر باپ کی بیٹی ہے اور نا ہی کسی بڑے افسر کی۔ بڑی آئی پڑھی لکھی۔ اسے اچھی طرح یہ بات سمجھانا کہ اسے ہمارے گھر کے اصولوں پر چلنا پڑے گا ورنہ اسکے لئے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ غیر مناسب سے الفاظ سنتے ہی مجھے میری خوشیاں اور میرے خواب بے معنی سے لگنے لگے۔ ہر ماں باپ کی طرح میرے ماں باپ نے بھی مشکلوں سے لڑ لڑ کر مجھے پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا کہ میں صحیح و غلط ، کھرے اور کھوٹے کی پہچان کر سکوں۔ پھر انہوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر میرے زیور اور جہیز کا بندوبست کر کے میرے لئے بڑے گھر کا انتخاب کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بڑے گھر میں چھوٹے گھر سے آئی ہوئی لڑکی کی کوئی قدر نہیں ہوتی کیونکہ بڑے گھروں میں بڑے بڑے مگر کھوکھلے اصول ہوتے ہیں، جن پہ چلنا مشکل ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے پھر ان بڑے گھروں کے اندر بڑی بڑی باتوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے قصوں کہانیوں کی شروعات ہوتی ہے۔
بظاہر میرا سسرال ایک نامور اور بڑا کامیاب تجارتی گھرانہ تھا۔ بڑا گھر کسے پسند نہیں؟ گھر کی عمارت شاندار ہو، ہر چیز میسر ہو اور گھر کے اندر رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے والے ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے اور ایماندار ہوں تو ایک عام سی لڑکی تو یہی تمنا دل میں لے کر سسرال کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے۔ عدیل اپنے بھائی بہنوں میں  سب سے چھوٹا تھا۔ اس کے دو چاچے تھے ۔ دونوں اہل و عیال والے اور دونوں عدیل کے ابا سے چھوٹے تھے۔ داد دادی بھی حیات تھے۔ مشترکہ کاروبار تھا۔ گھر کے سارے لوگ دن رات مشین کی طرح کام کرکے اپنا خون پسینہ ایک کر کے اس کاروبار کو چلاتے تھے۔ اسکے باوجود گھر کے سبھی افراد چھوٹے بڑے بے اختیار تھے کیونکہ کاروبار کا سارا پیسا بغیر حساب کے انکل جی کے کھاتے میں چلا جاتا تھا۔ انکل جی عدیل کا سب سے چھوٹا چاچو تھا۔ تھوڑے پڑھے لکھے تھے۔ اپنا بھرپور اہل و عیال ہونے کے باوجود کوئی کام دھندا کرتے تھے، نہ گھر کے اندر اور نا ہی باہر۔ البتہ بڑی چالاکی اور عیاری کے ساتھ گھر کے معاملات نبھا نبھا کر گھر کے سبھی شریکوں کے حق پر شب خون مار تے تھے۔ کہاں پیسا خرچ کرنا ہے اور کہاں نہیں،  گھر کی رسوئی کا سامان، بچوں کی اسکول فیس، کتابیں،  گھر کے ہر فرد کے لئے کپڑے،  چپل،  جوتے حتیٰ کہ گھر کی عورتوں کے کپڑوں کا رنگ اور پرنٹ بھی وہی منتخب کرتے تھے۔ ہر شام اپنے سے بڑوں کا ایک ایک پیسے کا حساب ایک قصائی کی طرح لیتےتھے۔ انکل جی کے قدموں کی آہٹ آتے ہی گھر کے ماحول میں عجیب سی خاموشی چھا جاتی تھی۔ بات کرنے کے لئے اُنکا موڑ دیکھنا پڑتا تھا۔ کہیں آنے جانے کے لیے ایک دن پہلے ہی انکی اجازت لینی پڑتی تھی۔
کہیں نہ کہیں اندر ہی اندر مجھے گھر کا ماحول کچھ ٹھیک نہیں لگا۔ مرتی کیا نہ کرتی بڑے احتیاط سے گھر کے ماحول میں گُھلنے ملنے کی کوشش کرنے لگی۔ 
انکل جی ایسے کیوں ہیں؟ کیوں گھر والوں نے انہیں سر پہ چڑھا رکھا ہے۔ کب سے یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے اور کب تک چلتا رہے گا؟ میں ابھی سمجھنے کی کوشش ہی کر رہی تھی کہ انکل جی نے مجھے  اور عدیل کو اپنے کمرے میں بلایا۔ انکل جی کچھ پل خاموش رہے پھر کہنے لگے بہو! عدیل میرا لاڑلا بھتیجا ہے۔ یہ جانتا ہے مجھے کسی چیز کا نہ لالچ ہے اور نا ہی خواہش، پھر بھی میں نے اس گھر کا سارا بوجھ ، ذمہ داریاں اور ساری پریشانیاں اپنا فرض سمجھ کر اپنے کندھوں پر لی ہیں۔ اسے پتا ہے کہ میرے علاوہ اس گھر میں اس گھر کے بھلے کے لیے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ مگر مجھے ڈھنڈورا پیٹنے کی بالکل بھی عادت نہیں اور مجھے باتیں گھما پھرا کر کرنے کی عادت نہیں ہے۔ تم بڑی سمجھدار ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھی لکھی بھی ہو۔ مجھے غلط نہیں سمجھنا دراصل مجھے عورت کا نوکری کرنا اچھا نہیں لگتا مگر مہنگائی کا زمانہ ہے اسلئے تم میرے کہنے کا مطلب سمجھ گئی ہوگی۔ ہاں ایک اور بات آج کل سونے کے بھاو آسمان کو چھو رہے ہیں کیوں نہ بہو تمہارا سارا زیور۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے  جب سے تمہاری اور عدیل کی شادی ہوئی ہے گھر کا کاروبار گھاٹے میں چل رہا ہے میں چہتا ہوں کہ گھر کے کاروبار میں تھوڑی سی وسعت ہوجائے۔ اب تم بھی اس گھر کی ایک فرد ہو۔ اب تک گھر کی ساری بہوؤں نے کوئی سوال کئے بغیر اپنا فرض نبھایا ہے۔ یوں سمجھ لو کہ یہ ہمارے گھر کا ایک رواج بن گیا ہے۔ انکل جی نے بڑے میٹھے اور حق جتانے والے انداز میں کہہ دیا۔ میں چاہ کر بھی کوئی جواب نہ دے پائی البتہ عدیل نے بڑے اعتماد کے ساتھ انکل جی کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اس دن کے بعد سے میری آنکھوں کی نیند اُڑ گئی۔ دن میں تقریبا دس دس بار عدیل انکل جی کی بات کو دہرا دہرا کر مجھے پریشان کرنے لگا۔ اور یہ بھی بتایا کہ ہمارے گھر میں انکل جی کی ہر کہی ہوئی بات پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ میرے اندر ایک آگ سی بھڑکنے لگی۔ آنسوں بہتے بہتے خود ہی خشک ہوتے گئے۔ مجھے ان حالات میں عدیل کے ساتھ کی سخت ضرورت تھی  مگر وہ تو بالکل گونگا بہرا ہو چکا تھا۔ اسے گھر کے باقی لوگوں سے زیادہ انکل جی کے آگے پیچھے گھوم گھوم کر انکی جی حضوری کرنے کی عادت پڑگئ تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا عدیل کہتا رہا اور میں اسکی باتوں کو ان سنا کرتی رہی۔ میں بڑے احتیاط کے ساتھ انکل جی سے نظریں چرا چرا کر صبح سویرے سب لوگوں کے لیے ناشتہ ، پورے گھر کے کمروں کی صفائی،  کپڑوں کی دھلائی،  استری وغیرہ کے ساتھ ساتھ گھر کے دوسرے کام بھی کرتی رہی۔ اس طرح کچھ اور وقت گزر گیا۔
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
میرا جرم کوئی اور تھا میری سزا کوئی اور ہے
  ایک دن ایک بار پھر انکل جی نے ہم دونوں کو اپنے کمرے میں بلایا۔ نا چاہتے ہوئے بھی میں عدیل کے پیچھے پیچھے اپنی نظریں جھکائے انکے کمرے میں داخل ہوئی۔ سامنے انکل جی پہاڑ کے مانند کھڑے تھے۔ اپنے چہرے کے نقش بگاڑتے ہوئے کہنے لگے، چھوٹی بہو مجھے اس گھر میں انکل جی بلاتے ہیں۔ انکل جی کا مطلب سمجھتی ہو؟ یا گھر کے کسی فرد نے تمہیں سمجھایا نہیں؟ ( ہاں خوب سمجھ چکی ہوں انکل جی کا مطلب کھوکھلا غرور، غصہ، کام چور، مکار اور خودغرض میں نے دل ہی دل میں جواب دیا) مجھے ایک بات دوبارہ دہرانے کی عادت نہیں۔ مجھے ہاں یا نا میں صبح تک جواب چاہیے۔ انکل جی نے حکم دینے والے انداز میں کہا۔ 
میں نے بھی نہ جانے کیسے اپنے دل کو مضبوط کرکے عدیل سے مخاطب ہو کر جواب دیا۔ عدیل مجھے اس بات پہ پے حیرت ہے کہ نئے گھر میں آتے ہی میرے اوپر یہ کیسے ظلم ہونے لگے۔ نوکری کرنا کہیں نہ کہیں ٹھیک ہے کیونکہ میں پڑھ لکھی ہوں مگر نوکری کوئی حلوہ نہیں جو گھر سے نکلتے ہی مل جائے اور میں کیسے کسی اور کے کہنے پر گھر سے باہر کمانے نکلوں گی اور کیوں؟ رہی زیور کی بات، چاہے عورت کو سسرال سے ملیں یا میکے سے اس پر تو صرف عورت کا ہی حق ہوتا ہے۔ کیوں کوئی ایرا غیرا عورت کے زیورات کی خرید فروخت کی بات کرے۔ سن لیا عدیل یہ میرا آخری  فیصلہ ہے۔ آج کے بعد اس بارے میں بات کرنا مجھے بالکل برداشت نہ ہوگا۔ میں نے انکل جی کے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔ میری باتیں سن کر عدیل بالکل خاموش رہا۔انکل جی کا حکم اور میرا فیصلہ سنتے ہی پورے گھر کی فضا میں بے چینی پھیل گئی۔ مجھے دکھ اس بات کا ہوا کہ انکل جی کی کہی ہوئی باتوں پر کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ میں نے گھر میں موجود ہر انسان سے بات کرنی چاہی کہ انکل جی جو کہتے ہیں وہ سراسر غلط ہے مگر میری بات عدیل سمیت کوئی سننے کو تیار نہ تھا۔ میں بالکل اکیلی ہوگئی  بالکل ایک کٹی پتنگ کی طرح۔ سب نے مجھ سے بات کرنی چھوڑ دی۔یہاں تک کہ عدیل بھی ہوں ہاں میں جواب دینے لگا۔ مگر میں نے بھی اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ نہ میں اس معاملے میں اپنے میکے والوں کو شامل کروں گی اور نا ہی کبھی ہار مانوں گی بلکہ مضبوط بن کر اس گھر میں رہ کر اپنے حق کے خاطر لڑوں گی۔  اور گھر کو بکھرنے بھی نہیں دوں گی اسلئے مجھے سب سے پہلے عدیل کو اپنے اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی۔ اس دن کے بعد میری سوچ صرف عدیل کے ارد گرد گھومتی رہی کہ کس طرح اسے اعتماد میں لے کر اس حق کی لڑائی شروعات کروں۔ ایک رات میں اپنے نیم تاریک کمرے میں انکل جی کی باتوں پہ غور کر رہی تھی۔ آنے والے وقت کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اب کیا ہوگا۔ اگر ہار مانوں تو میرے ساتھ ظلم ہوگا۔ اگر نہیں مانوں تو بھی بُرا ہی ہوگا۔ اسی دوران عدیل نے مجھ سے کہا کہ اگر تم اپنی اور اس گھر کی  بھلائی چاہتی ہو تو تمہیں ایڈجسٹ کرنا پڑے گا۔تم اکیلے پورے گھر سے نہیں لڑ سکتی اسلئے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرو۔ میں نے موقع غنیمت جان کر عدیل سے بڑے پیار سے کہا میں اکیلی کہاں ہوں تم جو ہو میرے ساتھ ۔ ہم دو ہیں اگر تم نے اس بات سے انکار کیا تو میں واقعی بکھر جاوں گی۔ میری بات سن کر عدیل خاموش رہا۔ بس یہی تو میری پہلی جیت تھی۔ وہ بیچارگی اور بے بسی سے میری طرف دیکھتا رہا۔ اس کے بعد اسے اعتماد میں لینے کے لئے میں نے ہر ممکن کوشش کی۔ ایک دن اس کا موڑ  اچھا دیکھ کر میں نے عدیل سے پوچھا کہ انکل جی کوئی کام دھندا کیوں نہیں کرتے؟ کیوں انہوں نے ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے؟ مرد گھر میں نہیں بلکہ گھر کے باہر کام کرتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔ عدیل خاموشی سے میری بات سنتا رہا  کچھ دن اور گزر گئے انکل جی گھر پر نہ تھے تو میں نے عدیل کے اَبا سے بات کی۔ ان کے چہرے پر ایک تلخ سی مسکراہٹ آئی پھر مجھ سے کہنے لگے بہو کیا تم سجھتی ہو کہ ہم ان باتوں سے بے خبر ہیں؟ ہم سب سمجھتے ہیں کہ ہم سب کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے مگر ہم اسلئے چپ ہیں کہ کہیں ہم بدنام نہ ہوجائیںاور ہمارے گھر کا تماشا نہ بن جائے۔ بدنامی سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ یہ سب عدیل کے دادا دادی کی نا اہلی کی وجہ سے ہورہا ہے کیونکہ انہوں نے بچپن سے اسے لاڑ پیار کرکے بگاڑ کر غنڈہ بنایا ہے اور اس نے ہمیں یرغمال بنایا ہے، جس کی سزا ہم سب بھگت رہے ہیں۔ اس نے جو تمہارے ساتھ برتاؤ کیا اس پر میں شرمندہ ہوں مگر بہو مجھے معاف کر دے نا میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔  دوسرے ہی دن انکل جی نے ہمیں تیسری بار اپنے کمرے میں بلایا۔ اپنی عینک درست کرتے ہوئے کہنے لگے کہ آج ہی آپ دونوں اپنے رہنے کا بندوبست کہیں  اور کر دو ۔ آج کے بعد آپ دونوں کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں۔ آج عدیل اور انکل جی کے درمیان خوب بحث اور ٹکراؤ ہوا۔ گھر کے سارے لوگ ایک کمرے میں اکٹھا ہوگئے۔ عدیل نے میرا ہاتھ تھام کر انکل جی سے کہا جب رب کائنات نے ہم مردوں کی طرح عورتوں کا وجود بنایا ہے تو اسے بھی اپنے وجود پر اپنی چیزوں پر بھرپور اختیار ہونا چاہئے۔ کیوں مردوں کا سماج اسے بغاوت کرنے پر مجبور کر تا ہے؟ عدیل نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر  انکل جی کو آئینہ دکھا کر زندگی کی حقیقت سے روبرو کرایا۔ اس طرح انکل جی کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا۔ آج پہلی بار میں نے خود کو مضبوط اور محفوظ محسوس کیا کیونکہ ہرعورت کو گھر اور سماج میں تحفظ کے ساتھ ساتھ عزت کا مقام ایک با ضمیر شوہر ہی دلا سکتا ہے۔ مجھے آج عدیل اور اپنے آپ پر فخرمحسوس ہوا جب میں نے گھر کی ساری عورتوں کو ہمارے پیچھے کھڑا سسکیاں لے لے کر روتے ہوئے دیکھا۔ یہ ڈر کے نہیں بلکہ عورت کی جیت اورخوشی کے آنسوں تھے۔۔۔
���
 پہلگام،اننت ناگ،موبائل نمبر ؛9419038028