سیّد آصف رضا
ناربل
حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒ ۱۲؍ رجب المرجب ۷۱۴ ہجری۶؍ ذی الحجّہ ۷۸۶ ہجری، ہمدان (کولاب) میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کا سلسلۂ نسب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ آپؒ کے والدِ گرامی کا نام سید شہاب الدّین ہمدانیؒ تھا۔ حضرت امیرؒ نے زمانہ طفولیت میں ہی قرآن مجید کے حفظ کو اپنی پوری توجہ کا محور بنایا۔ ابتدائی تعلیم اپنے ماموں سید علائو الدّینؒ سے حاصل کی اور اُنہیںروحانی مدارج و مراتب حاصل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی، جس نے آپؒ کو حضرت شیخ رکن الدّین علائوالدّولہ سمنانیؒ اور اُن کے خلیفۂ شیخ شرف الدّین مزدقانیؒ کی صحبت میں پہنچایا۔ حضرت امیرؒ نےاُن کی خدمت میں چھ سال گزارے،جنہوں نے آپؒ کو مزید تعلیمات کے لئے اپنے رہبر حضرت ابو البرکات تقی الدّین شیخ علی دوستیؒ کے پاس حاضر ہونے کا حکم دیا، جہاں آپؒ نے دو سال گزارے،پھر حضرت شیخؒ کے حکم کے تحت سیرو سیاحت کرنے اور دنیا بھر کے دوستانِ خداؒ سے فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے نکلے۔ بائیس سال سیر و سیاحت میں گزارے۔ اس طرح آپؒ نے ریاضات و مجاہدات سے وہ مقام حاصل کیا جو بندگی کا مقصود ہے۔
مرحوم ڈاکٹر سید محمد فاروق بخاری رقمطراز ہے:’’اللہ تعالیٰ نے امیر کبیرؒ کو اس ریاضت و عبادت کی بدولت ایسے فضل و انعام سے سرفراز فرمایا ، جس پر اولو العزم سلاطین رشک کر سکتے ہیں۔ اس مردِ مومن نے دشت و جبل میں اعتکاف کئے، صحراوں اور بیابانوں میں چلّے کاٹےاور اپنی پُر اسرار روحونی قوّت سے جہاں لاکھوں انسانوں کو دولتِ اسلام سے سرفراز کیاوہیں جنّات اور رجال الغیب کی راہنمائی فرمائی۔‘‘(کشمیر میں اسلام: منظر اور پسِ منظر، صفحہ ۱۔۲)
کشمیر، جہاں کی اکثریت کفر و ضلالت اور توہم پرستی کے اندھیروں میں پڑی ہوئی تھی، حضرت امیرؒ کی بدولت نورِ ایمان سے منوّر ہوئی، جس کے لئے اس خطہ کے باشندگان آپؒ کے مرہونِ منّت ہیں۔ بقول قاری سیف الدّین صاحب: ’’جناب امیر کبیرؒ محتاجِ تعارف نہیں باالخصوص ہم کشمیریوں کے لئے آپؒ محسنِ اعظم ہیں جن کے احسانات کا حق تا قیام قیامت ادا کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘(ترجمۂ منہاج العارفین، صفحہ: ۵)
علامہ سیّد محمد قاسم شاہ بخاری ؒ ان الفاظ میں حضرت امیرؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی آپؒ کے محبین اور عقیدت مندوں کو دعوتِ فکر دیتے ہیں:
’’مذہبی سوزوگداز رکھنے والے اہلِ علم جب کبھی مبلغینِ اسلام کے کارناموں اور ان کی دینی مساعی جمیلہ کا جائزہ لیں گے تو وہ ضرورحضرت میر سیّد علی ہمدانی ؒکو اس میدان میں بہت اُونچے مقام پر پائیں گے کہ آپؒ اپنے وطن مالوف ’’ہمدان‘‘ میں بہت بڑے ظاہری جاہ وجلال، عزّت واقتدار کے مالک تھے۔اس عظمت وشوکت کے باوجود جب آپؒ کو اس بات کی خبر ہوئی کہ خطۂ کشمیر ابھی تک کفر وشرک اور ظلمت و عدوان کا گہوارہ بنا ہوا ہے اور یہ کہ حضرت بلبل شاہ صاحب ؒ کا مشن اُن کی وفات کی وجہ سے ادھورا رہ گیا ہے تو آپؒ فوراً آرام وراحت چھوڑ کر تین سوسے زائدسادات کرام،علماء عظام اور مشائخ وقت اپنے ساتھ اُٹھاکر مہینوں دشوار ترین کوہستانوں اور بیابانوں کا راستہ طے کرکے اپنے قدوم میمنت، اپنی کمال قوت قُدسیہ اور بلند پایہ رُوحانی طاقت سے اسلام اور توحید کی آغوش میں لایااور ان لوگوں کے دلوں کو اپنا گرویدہ بنایاکہ انہوں نے بطیب خاطرقبولِ اسلام اپنے لئے فخرو سعادت کا ذریعہ قرار دیا۔کہتے ہیں کہ حضرت میر سیّد علی ہمدانیؒ کی رُوحانی برکات وانوار سے دفعۃً کئی لاکھ غیر مسلم حلقۂ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ اس تاریخی واقعہ سے حضرت میرؒکی عظیم شخصیت، صفائی قلبی اور شرح صدر کی اس کیفیت کا کچھ اندازہ تو لگائیے جس نے اُس وقت کے باکمال برہمنوں اور نیک دل اور رمزشناس غیر مسلموں کو آپ ؒکے سامنے ہتھیار ڈالنے اور سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کیا۔ حضرت میر سیّد علی ہمدانیؒ کی تبلیغ کا اگر ایک طرف عوام کے دلوں پر کیا گہرا اثر پڑا تو دوسری طرف بادشاہوں اور اُمراء نے بھی آپؒ کی قدم بوسی کو اپنے لئے باعثِ عزّت قرار دیا۔ اسی اثناء میں آپؒ کو معلوم ہوا کہ بادشاہ نے مسلمان ہونے کے بعد باوجود اسلامی تعلیمات سے بے خبر ہونے کی بِنا پر دو سگی بہنوں کو معًا اپنے عقدِ نکاح میں رکھا ہے تو آپؒ نے بادشاہ کو ٹوک کر فرمایا:کہ ایسا کرنا اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے۔بادشاہ نے فوراً آپؒ کے حکم کی تعمیل میں اُن میں سے ایک بہن کو طلاق دی۔ آنجناب ؒ نے اس ارض کشمیر میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد تبتؔ اور لداخؔ کے فلک بوس پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں کو طےکرکے وہاں کے ظلمت کدہ میں بھی آفتابِ اسلام کی روشنی پھیلا دی۔پھر تبلیغ اسلام کے لئے ترکستانؔ وغیرہ کا سفر کیا اور دُنیاوی راحت وآرام سے بالکل بے نیاز ہوئے۔اس طرح شاہ ہمدانؒ کے چہار دانگ عالم کے مسلمانوں کیلئے عموماً اور اپنی خانقاہ کے خادموں اور ہمدانی نسبت رکھنے والے بزرگوں کیلئے خصوصاً بہترین مثال قائم کی۔حقیقت یہ ہے کہ بزرگانِ دین اور علمائِ ابرار کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ یوں تو اس خطۂ پاک میں حضرت میر ؒکی تبلیغی سرگرمیوں کی یادگار طور پر بہت سی خانقاہیں موجود ہیں۔ان میں خانقاہ معلٰی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ آج جب کہ تبلیغ اسلام کی حد سے زیادہ ضرورت ہے تو قدرتی طور پر ہماری اورباقی مسلمانوں کی نگاہیں اس مرکز عالیہ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔اور دیکھنا یہ ہے کہ اگر واقعی اس خانقاہ کے منتظمین اور شاہ ہمدانؒ کی طرف نسبت رکھنے والے اس مقدّس مشن کی حفاظت اور دیکھ بال اسی طرح کررہے ہیں جس کے لئے حضرت امیرؒ اور آپؒکے پاکباز ساتھیوں نے بڑی صعوبت وسختی برداشت کی تھی تو زہے سعادت اور تمام مسلمانوں کو ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ ہم ،ہمدانیت اور خانقاہ کے انتظام وانصرام سے یہ معنی سمجھتے ہیں کہ اسی خانقاہ سے حضرت میرؒ کی تعلیمات کے موافق پورے جوش وخروش سے ریاست کے اطراف واکناف میں مختلف تبلیغی وفود بھیجے جائیں۔ہم ہمدانیت سے یہ مفہوم مُترشح کر رہے ہیں کہ ہر سال عُرس مبارک کے موقع پر اس مرکز عالیہ سے حضرت میرؒ کی تصنیفات وتالیفات مسلمانان عالم کے سامنے پیش کی جائیں۔ ہمدانیت کی نسبت اس بات کی غمازی اور عکاسی کرتی ہے کہ ہر روز صبح وشام میں پوری عزّم وہمت اور جوانمردی سے قرآن حکیم اور سنّت نبویہ ؐ کا سلسلہ درس وتدریس جاری وساری ہو۔ ہاں! ہم ہمدانیت کو اسی معنی کا مترادف قرار دیتے ہیں۔اس مرکز خانقاہ سے حضرت میرؒ کی صوفیانہ تعلیمات کی ریسرچ کرکے علم تصوّف کو منکرینِ تصوّف کے لئے کُحل البصر بنایا جائے ۔‘‘(ماہنامہ التبلیغ، بحوالہ سیرۃ البخاریؒ، صفحہ: ۸۹۲)
ایک طرف تصوف اور صوفیاء کے بارے میں زبان درازی کرنے والوں کے لیے دعوت فکر ہے اور دوسری طرف ان کے محبین کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)