خطہ پیر پنچال ہمیشہ اہل علم دانشوروں ،شاعرو ں ادیبوں صحافیو ں اور علما ء کا مسکن رہا ہے ۔مگر اس خطہ کا المیہ یہ ہے کہ یہا ں کے ان عظیم اہل علم و مفکرین کا تذ کرہ و تاریخ مر تب نہیں ہو سکی ۔شاید گذشتہ سات دہا ئیو ں کے نا مساعد حالات ،جنگیں ،مہا جر ت اور سیا سی و جغرافیا ئی اتھل پتھل اس میں سد راہ رہی ہے ۔مفتی ضیا ء الدین پو نچھی ،چراغ حسن حسرت پو نچھی ،اوپندر ناتھ اشک ، شیخ محمد عبدا للہ (بانی عبداللہ ہال علیگڑھ مسلم یو نیو رسٹی )مولانا فخر الدین احمد راجوروی ناظم مدرسہ فر قانیہ لاہور ،مو لا نا فیض الحسن راجوروی استاد دارالعلوم دیو بند ،جسٹس سر دار محمد اقبال خان ،وفاقی محتسب حکو مت پاکستان اور اس قسم کی دیگر سینکڑوں شخصیات ایسی ہیں جنہو ں نے سیا ست ،شعرو ادب تعلیم و صحافت ،دینی و مذہبی میدان میں غیر معمولی خد مات انجام دیں جن کی تاریخ محفوظ کر نی اس خطہ کے اہل علم وبصیرت پر ایک قر ض با قی ہے ۔
مولانا صدر الدین الرفاعی بھی اس خطہ کی ایک عظیم و ممتاز علمی وتاریخی شخصیت گذری ہے جنہیں اس خطہ کی نسلیں شاید ہی آج جانتی ہوں ۔مو لا نا صد رالدین الرفاعی خطہ پیر پنچال کے ممتاز عالم دین نا مور خطیب داعی دین اور مصنف گذرے ہیں ،ان کے جد امجد نے سید احمد کبیر الرفاعی عراقی کے شاگر د رشید جان باز ولی رفاعی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا ۔اسی لئے ان کے خاندان کو رفاعی کہا جا تا ہے مو لا نا صد ر الدین الرفاعی کی پیدائش سابقہ ریاست پو نچھ کے شا ہ پو ر گا ئوں میں مو لا نا حبیب اللہ رفاعی کے گھر ہو ئی مو لا نا حبیب اللہ رفاعی ریا ست پو نچھ کے ممتاز عالم دین و صاحب نظر بزرگ تھے جو محد ث کبیر علامہ انور شا ہ کشمیر ی ؒ کے تلمیذ رشید و فاضل دیو بند تھے ۔ جو متحدہ ریا ست پو نچھ میں اپنے علم و تقوی کی بنا ء پر منفر د مقا م رکھتے تھے ۔ مو لا نا صد ر الدین نے اپنی ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد سے حاصل کی اور پھر شہر لا ہور کا رخ کر کے وہا ں کے مختلف مدارس و علما ء سے اکتساب فیض کیا بعد ازاں آپ دہلی تشریف لے گئے اور مدرسہ امینیہ کشمیر ی گیٹ دہلی میں بر صغیر کے مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ مر حو م سے شر ف تلمذ حاصل کر کے دورہ حدیث کی تکمیل کی جو مدارس عر بیہ کی سب سے بڑی ڈگر ی ہے دورہ حدیث کی سند حاصل کر نے کے بعد آپ شاہ پو ر ریا ست پو نچھ واپس آگئے جہا ں آپ کے والد مو لا نا حبیب اللہ رفاعی نے انہیں مزید علمی رسوخ پیدا کر نے کے لئے بخاری ،تر مذی ،مو طا اما م مالک اور طحاوی وغیر ہ کتب دو با ری پڑھائیں اور اپنی نگرانی میں علمی و عملی اور فکر ی تر بیت کی ۔
مو لا نا صد الدین الرفاعی ۱۹۳۵ء میں ریا ست پو نچھ سے پنجاب کے شہر امر تسر منتقل ہو گئے جہا ں شریف پو رہ کی جامع مسجد میں اما مت و خطابت اور درس و تد ریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔مو لا نا صد رالدین ایک بالغ نظر عالم دین اور سیا دی فہم و فراست بھی رکھتے تھے ۔۱۹۳۵ء تا ۱۹۴۷ء کا زما نہ بر صغیر میں انگریزوں سے آزادی زبر دست اتھل پتھل اور تقسیم بر صغیر کاہنگامہ خیز دور تھا مو لا نا نے اپنے قیا م امر تسر کے ابتدائی دور میں سیا سی طور پر مسلم لیگ اور دینی اعتبار سے مو لا نا الیاس ؒ کی تبلیغی تحریک سے متاثر تھے ۔لیکن ۱۹۰۴ء میں کسی آدمی نے انہیں مو لا نا مو دودی کی دو کتابیں’’ مسئلہ قو میت ‘‘’’مسلمان اور مو جو دہ سیا سی کشمکش‘‘مطالعہ کے لئے دیں جنہیں پڑھ کر ان کے دل و دماغ میں غیر معمولی تبدیلی پیدا ہوئی جس کا تذکر ہ انہوں نے اپنے والد ما جد سے کیا ۔انہوں نے بھی اس کتاب کے علاوہ رسالہ تر جما ن القرآن کے بعض شماروں اور مو لا نا مو دودی کی تحریر و ں کا مطا لعہ کیا اور دو نو ں باپ بیٹو ں نے پٹھان کو ٹ جا کر مو لا نا مو دودی سے ملا قات وتبادلہ خیا لات کر کے ان کی دعوتی تحریک میں خو د کو شامل کر لیا ۔مو لا نا مو دودی کی تحریر وں کے مطالعہ کے بعد ان کے والد نے مو لا نا صد رالدین کو نصیحت کی کہ اش شخص کا ساتھ نہ چھوڑنا ۔یہی و ہ شخص ہے جو اس وقت ملت کی صحیح رہنما ئی کر سکتا ہے ۔مو لا نا رفاعی جن دنوں مو لا نا مو دودی کی تحریروں و فکر سے متاثر ہوئے یہ وہ زما نہ تھا جب کا نگریس متحدہ قو میت کی تحریک چلا رہی تھی اور ہندوستانی علما ء کا ایک طبقہ کا نگریس کے ساتھ مل کر متحدہ قو میت کی تحریک کا روح رواں بنا ہوا تھا جس پر علامہ اقبال نے بھی زبر دست تنقید کر کے ملت اسلامیہ ہند کو اسلامی نقطہ نظر اور اسلامی قو میت کا نظریہ سمجھایا ۔مو لا نا صد رالدین رفاعی نے بھی ان دنوں اس مو ضو ع پر ایک کتابچہ تحریر کر کے اسلامی نقطہ نظر کی بھر پور وضاحت اور متحدہ قو میت کی تر دید کی مو لا نا صدرالدین رفاعی باصلاحیت مستند عالم دین اور دو قو می نظریہ کے حامل تھے ۔انہوں نے قیام امر تسر کے دوران پنجاب میں مقیم جمو ں وکشمیر کے مسلمانو ں اور خاص طور خطہ پیر پنچال کے لو گو ں میں بیداری نظم پیدا کر نے کے لئے شریف پو رہ امر تسر کی جا مع مسجد اور لدھیانہ وغیر ہ میں متعدد اجتماعات منعقد کئے اور تقسیم ہندوستان کی صورت میں انہیں اپنے مستقبل کے لائحہ عمل بارے آگاہ کیا ۔
تقسیم ہندوستان اور مشر قی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام کے باعث مو لا نا صد رالدین رفاعی بھی مہا جرین کے قافلوں کے ہمراہ پاکستان منتقل ہو نے کے بعد راولپنڈی پہو نچے اور اسی شہر کو اپنے مستقبل کی رہا ئش و سر گر میوں کا مر کز بنا یا اور با قا عدہ طور پر جما عت اسلامی پاکستان کی رکنیت حاصل کر کے اقامت دین کی سر گر میوں میں شامل ہو گئے مو لا نا کچھ عر صہ راولپنڈی کے قدیم علاقہ نیا محلہ میں اقامت پذیر رہے بعد میں وہاں سے سٹیلائٹ ٹائون میں منتقل ہوگئے اور وہاں کی جا مع مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دینے لگے انہوں نے کبھی بھی دین کو ذریعہ معاش نہیں بنا یا بلکہ ان کا ذریعہ معاش مکتبہ تعمیر ملت کے نا م سے کتابوں کا کارو بار تھا مو لا نا رفاعی نے پا کستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور ختم نبوت کی تحریک میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی وجہ سے ۱۹۵۳ء میں مو لا نا مسعو د عالم ند وی ،مو لا نا عبدالجبار غازی اور جماعت اسلامی پاکستان کے بعض دیگر کابرین کے ہمراہ قید و بند کے مر حلوں سے بھی گذرنا پڑا ۔
۱۹۷۰ء تک آزاد کشمیر میں پاکستان کی کسی جماعت کانظم قائم نہیں ہوا تھا اور آزاد کشمیر میں جمو ں وکشمیر کے مسلمانوں کی اولین سیا سی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سر گر م عمل تھی ۔لیکن ۱۹۷۰ء کے عشرے میں جب ذو لفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا آزاد کشمیر میں قیام عمل میں آیا تو پا کستان اور آزاد کشمیر میں مقیم جما عت اسلامی کے لوگوں نے بھی آزاد کشمیر میں جما عت اسلامی کے قیام کا بیڑا اٹھا یا ۔چنانچہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے قیام کا پہلا اجلاس مد نی مسجد سٹیلائٹ ٹائو ن راولپنڈی میں مو لا نا صد رالدین الرفاعی کی صدارت میں منعقد ہوا اور با قا عدہ طور پر جما عت اسلامی آزاد جمو ں و کشمیر کا دستور مر تب کر کے اس کا قیا م عمل میں آیا ۔امارت کے لئے مو لا نا صدر الدین کا نا م تجویز ہوا لیکن آپ نے یہ کا م کارکن کے طور پر کام کر نے کی خواہش کا اظہار کر کے امارت کی ذمہ داری قبول کر نے سے معذرت کر لی جس کی وجہ سے بانڈی پوری کشمیر کی ممتاز شخصیت مو لا نا عبدالباری مر حوم کو جماعت اسلامی آزاد جمو ں و کشمیر کا پہلا امیر منتخب کیا گیا ۔مو لا نا رفاعی اردو عر بی فارسی اور پنجابی زبانوں میں تحریر وتقریر کی بھر پو ر صلاحیت رکھتے تھے ۔خطہ پیر پنچال کے وہ واحد عالم دین تھے جنہیں حر مین شریفین میں خطابت کی اجازت حاصل تھی ۔جامع مسجد مد نی سٹیلائٹ ٹائون راولپنڈی میں انہوں نے پورے تیس سال تک جمعہ کی خطابت و امامت کے فرائض انجام دیئے ان کے علمی و دلنشیں خطابات سننے کے لئے جمعہ کے روز راولپنڈی اور اسلام آباد کے دور دور علاقوں سے لوگ آتے تھے ۔مولانا پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے لئے ہمیشہ سر گر م عمل رہے پاکستان کی تما م مذہبی جماعتیں مختلف مکاتب فکر کے علما ء اور اہل علم آپ کی صلاحتیوں علم و فضل اور نزاعی معاملات میں اعتدال پسندی وافہام و تفہیم کے معترف تھے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ایک لمبے عر صہ تک حکو مت پاکستان کی وفاقی وزارت مذہبی امور اور فیڈرل شر عی کورٹ کے مشیر رہے اور اپنی قیمتی آراء و تجاویز سے فیڈرل شر عی کو رٹ کو تعاون دیتے رہے وہ اختلافی و نزاعی معاملات میں سب کا احترام کر تے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی تھے ۔یہی وجہ تھی کہ آزاد کشمیر و پاکستان کے تما م مکاتب فکر کے علما ء اورسیا سی لو گو ں کے ساتھ ان کے یکساں گہر ے تعلقات تھے اور تما م مذہی و سیا سی گرو پ ان کا احترام کر تے اور ان کی رائے و تجاویز کو وقعت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔راقم نے ایک دفعہ فیصل مسجد اسلام آباد کی بین الاقوامی سیرت کانفرنس میں صدر پاکستان جر نل ضیاء الحق مر حو م کو عقیدت و احترام کے ساتھ انہیں بعد وضوء اپنے ہا تھو ں سے شیروانی پہناتے دیکھا ۔وہ بہت ہمدردر اور غمگسار قسم کے آدمی تھے جس کی وجہ سے سب ہی لو گ بلا لحاظ سیا سی و دینی وابستگی ان کی وسیع المشربی اور علم و فضل کے باعث احترام کر تے تھے ۔علماء کی مجا لس میں وہ ہمیشہ عالمانہ وفاضلانہ سنجیدہ علمی گفتگو کر تے اور عام لو گو ں میں عوامی زبا ن میں گفتگو کا خصو صی سلیقہ رکھتے تھے وہ اپنی چا ل ڈھال او روضع قطع کے لحاظ سے بڑے خو بصورت و خو ب سیرت آدمی تھے ۔ہر قسم کی مجلس جما نے عر بی و فارسی اور اردو و پنجابی کے اشعار سے اس میں رعنائی و دلکشی پیدا کر نے میں انہیں خصوصی ملکہ حاصل تھا وہ چھوٹی بڑی کل بارہ کتابوں کے مصنف و مو لف اور متر جم تھے ۔ جن میں خطبات حجۃ الوداع ،فلاح دارین،مکتوبات شا ہ ولی اللہ دہلوی ،عقائد اسلام ۔صحیفۃ السلوک کے تراجم کے علاوہ ان کی اپنی تصنیف کر دہ کتب میں حکمت تبلیغ و ارشاد اسلامی تہذیب کیا ہے ،دستور علی،پر دہ اور قرآن ،فیملی لاز پر تنقید،ختم نبوت،اور سیر ت خاتم النبییین وغیر ہ شامل ہیں ۔مو لا نا رفاعی مر حوم ۱۶ دسمبر ۱۹۹۳ء کو اسلام آباد پاکستان میں اپنی زند گی کا سفر پو را کر کے خالق حقیقی سے جا ملے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
نوٹ :مضمون نگار چیر مین الہدی ٹر سٹ راجوری ہیں
رابطہ نمبر 9419267231