علی توقیر شیخ
موسمیاتی تبدیلی سے جہاں مختلف ممالک متاثرہ ہورہے ہیں وہیں اس کا منفی اثر پورے جنوبی ایشیا میں پھیل رہا ہےاور دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہورہا ہے۔ جنوبی ایشیا دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کا گڑھ بن کر سامنے آیا ہے جبکہ سائنسی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ خطے میں رونما ہونے والی موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔گزشتہ ہفتے پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں ڈان میڈیا گروپ کے زیرِ اہتمام موسمیاتی تبدیلی پر ایک کانفرنس میںایک سو سے زائد مقررین نےاپنے خیالات شیئر کئے اور ماحولیاتی بحران پر بات کرتے ہوئےکہا گیا کہ ہم جس جغرافیہ میں رہتے ہیں، وہاں ہم سب کی تقدیر ایک جیسی ہے۔ خلیج بنگال سے بحیرہ ہند تک، ہم سب ایک ایکو سسٹم کا حصہ ہیں جو ہماری تہذیبوں کو تشکیل دیتا ہےاور ہمارا مستقبل مشترکہ ماحولیاتی نظاموں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہے۔یہ باہمی ربط کئی طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ دریاؤں کا بہاؤ پھر چاہے وہ زیادہ مقدار میں سیلاب کا باعث بنے یا خشک سالی اور قحط کا، یہ مسائل سرحدیں نہیں جانتے اور یہ یکساں طور پر جنوبی ایشیا کی کمیونٹیز کو متاثر کرتے ہیں۔سیالکوٹ (2020ء)، اُتراکھنڈ (2021ء)، نوشہرہ (2022ء)، ہنزہ اور ہماچل پردیس (2023ء) میں غیرمعمولی بارشوں نے قرب و جوار میں مقیم کمیونٹیز کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ کیسے موسمیاتی آفات کے اثرات مخصوص خطوں یا ممالک تک محدود نہیں۔جب نیپال میں برفانی جھیلیں پھٹتی ہیں تو ان کے اثرات بہار اور بنگلہ دیش میں بھی مرتب ہوتے ہیں۔ جب سمندری طوفان یاس (2021ء) خلیج بنگال سے ٹکرایا تو اس کے اثرات اڈیشا (اڑیسہ) اور مغربی بنگال میں محسوس کئےگئے۔ سمندری طوفان بپر جوئے (2023ء) نے جب آخری وقت میں پاکستان سے ٹکرانے کا فیصلہ بدل لیا تو ٹھٹہ، بدین اور کراچی میں تیز ہواؤں کے ساتھ بارشیں ہوئیں، جس کے بعد بھارت میں گجرات جاکھاؤ پورٹ کے قریب لینڈ سلائیڈنگ ہوئی۔ ایسے مستقل چیلنجز کا مقابلہ ممالک اپنے طور پر تن تنہا نہیں کرسکتے۔
ہمارے خطے کو جن متعدد اور بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا ہے وہ مشترک ہیں۔ برفباری کے پیٹرن میں ڈرامائی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے جبکہ گلیشیئرز اور جمی ہوئی زمینوں کے پگھلاؤ نے مسائل کو مزید سنجیدہ رخ دیا ہے۔ مون سون کا موسم جو تاریخی اعتبار سے زراعت میں مدد کرتا ہے، اب غیر متوقع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ زمینی اور زیرِ زمین پانی کی صورت حال پر خطے کا انحصار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
خطے کے موسمیاتی پہلوؤں کے اثرات فوری ماحولیاتی اثرات سے مختلف اور زیادہ ہیں۔ روہنگیا سے کراچی تک ہجرت کے روایتی ڈھانچے میں بھی تبدیلی آئی ہے جبکہ وبائی بیماریاں جیسے افغانستان میں پولیو وائرس بہت کم وقت میں خطے میں پھیل رہا ہے اور سرحد پار اپنے تباہ کُن اثرات مرتب کرتے ہیں جو خطے کے بحران میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس نوعیت کے بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر ممالک کا باہمی تعاون درکار ہے۔ان غیر روایتی سلامتی کے خطرات کی اہمیت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ خطرات خالصتاً اندرونی ہیں نہ مکمل طور پر بین الاقوامی۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی مباحثوں نے اکثر ہماری علاقائی اور اندرونی گفتگو کو دبایا ہے جبکہ بعض اوقات مقامی سطح پر حل تلاش کرنے اور خطے کی کوششوں پر بھی اثر پڑا ہے۔ تاہم ان چیلنجز کو ایسے حالات کی طرف لے جانے کی ضرورت نہیں ہے جہاں کسی کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہو بلکہ ایسے حل تلاش کرنے کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں جن سے تمام ممالک مستفید ہوں۔یہ اہم اس لئے ہے کیونکہ ماحولیاتی بحران، غیر روایتی سلامتی کے خطرات کا باعث بنتا ہے جنہیں روایتی طریقوں سے حل نہیں کیا جاسکتا۔روایتی آگاہی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ چترال سے تامل ناڈو تک خطے کے کاشتکار موسم کی پیش گوئی کے لئے مشترک روایتی طریقوں پر انحصار کرتے ہیں۔ 2022ء میں پاکستان نے جس موسمیاتی آفت کا سامنا کیا، اس سے پتہ چلا کہ موسمیاتی بحران کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔ جب دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوا تو یہ واضح ہوگیا کہ گلیشیئرز کے پگھلنے میں تبدیلی اور بالائی علاقوں میں بارش کے براہ راست اثرات زیریں علاقوں میں مقیم کمیونٹیز پر مرتب ہوتے ہیں۔اسی طرح جب بھارتی پنجاب میں کسان فصلوں کی باقیات کو نذرِآتش کرتے ہیں تو اس سے پیدا ہونے والے اسموگ سے ہوا کا معیار خراب ہوتا ہے جبکہ یہ اسموگ ہوا کے پیٹرن اور رفتار پر انحصار کرتے ہوئے دور دراز علاقوں میں پھیلتی ہے۔ اسموگ کے اثرات لاہور، کراچی، لکھنؤ اور بہار کے چند علاقوں سمیت خطے کے مختلف مقامات پر ظاہر ہوتے ہیں۔ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پیچیدہ، طویل مدتی اور مشترکہ کوششوں کی ضرروت ہے۔ یہ مسئلہ معلومات، معیشت اور متنوع ذمہ دار حلقوں کے درمیان تعاون کا تقاضا کرتا ہے۔ عالمی مالیاتی وسائل سے مقامی حل کو تبدیل کرنے کے بجائے مقامی علم اور تجاویز کو ترجیح دی جانی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی وسائل کا استعمال کیا جانا چاہیے۔اس طرح کے مشترکہ چیلنجز کا حل، بین الاقوامی وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی تجاویز کو ترجیح دینے میں ہے۔ سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کُھلنا اور کاکس بازار سے لے کر اڈیشا اور ممبئی سے ٹھٹہ اور بدین تک، برصغیر کی ساحلی پٹی کو پُرخطر بنا رہی ہے۔ حل ان کمیونٹیز کی جانب سے سامنے آنا چاہیے جن کی نسلیں وہاں طویل مدت سے آباد ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی بنیادی طور پر ایک ترقیاتی مسئلہ ہے جس کے لیے قارئین کو گوررننس، سیاسی معیشت اور کمیونٹیز پر اس کے اثرات کو سمجھنا ہوگا۔ اگرچہ آفات کی کوریج اہم ہے لیکن عوام اب مزید گہری رپورٹنگ چاہتے ہیں کہ کس طرح موسمیاتی پالیسیز قومی ترقی سے منسلک ہیں۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ پالیسیز کس طرح موافقت پیدا کرسکتی ہیں اور منصفانہ ترقی کی حمایت کرسکتی ہیں۔لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ چنئی پانی کی قلت سے کیسے نمٹ رہا ہے، شہری ہیٹ ویوز کی بگڑتی صورت حال کو سنبھالنے کے لیے احمد آباد کیا کررہا ہے جبکہ ڈھاکہ اور ممبئی اپنی آبادی کو سیلاب سے بچانے کے لیے کیا تدابیر اپنا رہے ہیں۔ آسام میں چائے کے باغیچوں سے لے کر ملتان میں آم کے باغات تک، کیرالہ کی ماہی گیر کمیونٹی سے لے کر سوات کے پہاڑوں کے کاشتکاروں تک، موسمیاتی تبدیلی سب کو متاثر کررہی ہے۔ ایسے میں ہم سب کا ردعمل بھی مشترکہ ہونا چاہیے۔
پورے خطے میں اختراعی حل کے حوالے سے دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ خطے بھر کی کمیونٹیز کے مجوزہ حل سے دیگر ممالک کے افراد بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں حکومتیں موسمیاتی کمزوریوں کو کم کرنے کے لیے مقامی کوششوں کی حوصلہ افزائی اور حمایت کررہی ہیں۔ یہ میڈیا کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ باقاعدہ کالمز، تجاویز اور علاقائی حل پر توجہ مرکوز کرکے خطے کو آگاہی فراہم کرے۔