خوشنویس میر مشتاق
دو کمروں پر مُشتمل بوسیدہ گھر۔ گھر کی چھت پہ مکڑی کے جالے ۔ درودیوار بھی پھٹے ہوئے۔ کونوں کھدروں میں کیڑے مکوڑوں کی اتنی کثرت جن کو دیکھ کرانسان کا دل کانپ اُٹھتا ہے۔ بچاری اپنی ساری زندگی کیڑے مکوڑوں کے ساتھ گُزارنے کی عادی تھی۔ گھر کی حالت ایسی ہے کہ جس سے دیکھ کرجھونپڑی کا گُماں ہوتا ہے۔ گھر میں کوئی دوسرا کمانے والا نہ تھا جو خستہ اور بوسیدہ حال گھر کی مرمت کراتا۔ شام ہوتے ہی دروازوں پہ تالے لگاتی تھی اورسونے کی تیاریوں میں لگ جاتی تھی۔ بچاری نے اپنی ساری زندگی غربت اور افلاس کے سائے میں گُزاری۔ ساری زندگی ایک دلیر خاتون کی طرح اپنی زندگی سے اور اپنی غرُبت سے نبردآزما ہوتی رہی۔ زندگی کے اس کٹھن سفر میں اُس کا کوئی ہمسفر نہ تھا، جس کے ساتھ وہ اپنا دُکھ سُکھ بانٹ لیتی۔ سوا ئے اللہ کے کوئی سہارا نہ تھا ۔
میلے کچلے کپڑوں میں ملبُوس، ایسا لگ رہا تھا جیسے دُنیائے جہاں کے سارے مسائل اپنے دامن میں سمیٹے لیے پھررہی تھی۔ جسمانی طورلاغر ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ پھُرتیلے پن کا مظاہرہ کیا کرتی تھی۔ حالانکہ محض ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ تھا۔ دن میں کئی مرتبہ باہر آنا جانا لگا رہتا تھا، جو اُس کا روزکا معمول تھا۔ ایسی عمر میں تو عورتیں آرام دہ زندگی گُزارتی ہیں۔ اُس بچاری کو کہاں آرام نصیب تھا۔ کبھی پیٹ کے چونچلوں سے فرصت ملتی تو آرام کر لیتی۔ ہر ایک کے ساتھ ہنسی مذاق کرنی کی عادی تھی۔ جب کسی جاننے والے کو دیکھتی تھی ڈھیروں ساری باتیں کرتی تھی۔ جب کسی بات پہ ہنسی آتی تھی تو اُچھلتی تھی ، کُودتی تھی۔ عمر رسیدہ ہوتے ہوئے بھی کبھی تھکن کا احساس نہ ہوتا تھا۔ روز گلی کے کتّوں کیلئے کھانے کا انتظام کرنا باعثِ ثواب سمجھتی تھی۔ بڑی ہی نیک اور خودار خاتون تھی ۔ کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے تھے۔ لوگ خود سے ہی کچھ دے دیتے تو لے لیتی تھی۔ دین و دُنیا کی کچھ سمجھ نہ تھی۔ کوئی دن کو رات کہتا تھا تو آنکھیں بند کرکے یقین کر لیتی تھی۔ نیک کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتی تھی۔ نماز کا کچھ پتہ تو نہ تھا پھر بھی ربّ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتی تھی۔
کون کیا کررہا تھا۔ کیا پہن رہا تھا اور کیا کھا رہا تھا سب کی خبر رکھتی تھی۔ میری دانستہ رائے میں شاید ہی گائوں کی کوئی بات اُس سے پوشیدہ رہتی تھی ۔ جس کسی چیز کے بارے میں جانکاری ہوتی تھی جھٹ سے آس پڑوس کے لوگوں تک پہنچا دیتی تھی۔
ہر وقت لوگوں کی فکر لاحق رہتی تھی۔ خُلوت ہو یا جلوت ہر وقت کچھ نہ کچھ بڑبڑاتی رہتی تھی۔ زبان کی اتنی تیز کہ ہر وقت چر چر کرتی رہتی تھی۔ بینائی کم ہوتے ہوئے بھی دُور سے ہی اندازہ لگا لیتی تھی کہ کون آرہا اور کون جا رہا تھا ! حافظہ اتنا اچھا تھا کہ جب کسی سے کوئی بات سُن لیتی تھی تو وہ بات ہمیشہ کیلئے ازبر ہو جاتی تھی ۔ تاریخ کی اتنی پکّی تھی کہ آئیندہ آنے والے دنوں کی گنتی بھی جھٹ سے کر لیتی تھی۔ عمر رسیدہ ہوتے ہوئے بھی پچھلے کئی مہینوں تو کیا سالوں کی خبر فورا سُنا دیتی تھی۔ پتہ نہیں یہ اتنا سب کچھ کیسے کرلیتی تھی ۔۔۔۔ !!!
اللہ نے اُس کی فطرت بھی عجیب وغریب بنائی تھی ۔ جب آس پاس کوئی نہیں ہوتا تھا تو دل کی بھڑا س نکالنے کیلئے خود سے باتیں کر لیتی تھی۔ درودیوار کو دیکھ کر کسی جیتے جاگتے انسان کا گُماں ہوتا تھا اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتی رہتی تھی۔
باہر برآمدے میں بیٹھی دونوں ہاتھ ماتھے پہ لگائے سرگُوشی کے انداز میں ایسے کہہ رہی تھی جیسے سامنے سے کوئی سُن رہا تھا۔۔۔۔۔۔
“ہائے ! میری کم بختی ۔
میرا کیا بنے گا۔
میں اکیلی عورت کہاں کہاں پہنچو”۔۔۔!!!
ایک تو فلاں شخص ہے جس کے تین چار بیٹے ہیں وہ بھی ہٹے کٹے اور تندرُست۔ چاروں بیٹے اچھا خاصا کما لیتے ہیں۔ خود کی بھی اچھی خاصی تنخواہ ہے۔ کسی چیز کی کمی بھی نہیں ہے۔ پچھلے ہی سال بہت بڑا مکان بھی تعمیر کیا ہے۔ پرسوں ہی دو بیٹوں کی شادی تھی۔ مجال ہے کسی سے کھانے تک کا پوچھا ہو۔ غیر تو غیر مجال ہے اپنی سگی بہن کو بھی کھانے کیلئے پوچھا ہو۔ ایسے ہی کوئی بڑا آدمی نہیں بنتا۔ لوگوں کے پاس دولت کی اتنی ریل پیل ہوتی ہے پھربھی کسی مفلس کا بھلا نہیں چاہتے۔ پچھلے سال اپنی بیگم کے ساتھ حج کرنے کیلئے گیا تھا برعکس اُس کے اگر کسی غریب کی مروت کرتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
نہیں ! ان لوگوں کو تو لفظ ”غربت “سے ہی چڑ ہے۔غریب کی کیا خاک مروت کرینگے۔ سُنا ہے لڑکی والوں کی طرف سے اچھا خاصا جہیز بھی ملا ہے۔ ورنہ ! اُنہیں کس چیز کی کمی تھی جو اب لڑکی والوں کو بھی لُوٹ لیا ہے۔ اُن سے تو آج تک کسی غریب کا بھلا نہ ہو سکا میری کیا مدد کرئینگے۔ یہاں سب لوگ ایسے ہی ہیں کوئی کسی غریب کا بھلا نہیں چاہتا۔
” میں کیا کروں؟
کہاں جاؤں ؟
میرا اللہ کے سوا کون ہے ؟ جو میرا خیال رکھے گا۔”
مجھے تو پچھلے کئی مہینوں سے راشن بھی نہیں مل رہا ہے۔ میں منشی کے پاس گئی تو تھی لیکن وہ کچھ ” فنگر پرنٹ ” کا کہہ رہا تھا۔ پتہ نہیں یہ ” فنگر پرنٹ “کون سے نئی بلا ہے جس کے بِنا راشن ملنا بھی دُشوار ہو گیا۔ بیڑہ غرق ہو ایسی حکومت کا جو غریب کی مجبوری کو نہیں سمجھ سکتی۔ ابھی پتہ نہیں کون کون سے بلائیں دیکھنی باقی ہیں۔؟؟؟ غریب بچارہ کرے بھی تو کیا کرے۔ جائے بھی تو کہاں جائے۔ خُدا ! بھلا کرے میرے پڑوسیوں کا، رشتہ داروں سے زیادہ اُنہوں نے ہر وقت میرا خیال رکھا ہے۔ ہر وقت میری پرواہ کی۔ آج بھی راشن ایک پڑوسی سے مانگ کر لائی تھی۔ اُس میں بھی آدھا کسی فقیر کو دینا پڑا۔
بار بار کسی سے تو نہیں مانگا جاتا۔ یہاں امیر کبیر لوگوں کے پاس چار چار “راشن کارڈ”پڑے ہیں۔ حالانکہ اُنہیں “راشن کارڈ ” کی اُتنی ضرورت تو نہیں ہے۔ جتنی کسی مجبور اور لاچار کو ہوتی ہے۔ یہی صاحبِ ثروت لوگ راشن اسٹور پر لمبی لمبی قطاروں میں ایسے پڑے ہوتے ہیں جیسے صدیوں سے بھوکے پیاسے ہوں۔
کاش! میرا اپنا راشن کارڈ ہوتا ۔ تو شاید مجھے کسی کے سامنے یوں ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے ۔ یوں دَر دَر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں۔ اور نہ ہی لوگوں کے احسان تلے یوں دبی رہتی۔
” یہاں تو لوگ بظاہر نیک اور سخی معلوم ہوتے ہیں لیکن اندر سے یہ لوگ اُتنے ہی خود سر ہوتے ہیں کہ اپنے سوا کسی کا بھلا نہیں چاہتے۔ یہاں انسانیت کا جنازہ کب کا اُٹھ چکا ہے ۔ ابنِ آدم اپنی نام نہادی کی خاطر دکھاوَے کی ہمدردیاں بانٹتے پھر رہا ہے۔ یہ سب تماشہ دیکھ کر آسمان بھی گریہ کُناں ہے کہ کس قدر ابنِ آدم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموشی سے غریب کا تماشائی بن بیٹھا ہے۔ “
خیر ! زندگی نشیب وفراز کا ہی تو نام ہے۔ بیچاری کی زندگی اتنی آسان تو نہیں تھی جتنی بظاہر نظر آرہی تھی۔ اُس نے اپنی زندگی میں بہت سارے پیچ وخم اور نشیب و فراز دیکھے تھے۔ یہ زندگی اُس کیلئے ہمدرد سے زیادہ بہت ہی سفاک اور بے رحم ثابت ہوئی۔ بیچاری اپنی غُربت و افلاس سے لڑتے جھگڑتے تقریباًٍ ایک مہینے تک بسترِ مرگ پہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مُبتلا رہی۔ بالآخر بہت سارے راز اور ارمان اپنے سینے میں چھپائے ہماری آنکھوں سے ایسے اُوجھل ہو گئی جیسے اُس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ اور ہمیشہ کیلئے منَوں مٹی کے نیچے دب گئی۔
”انا للہ وانا الیہ راجعون“
”آسمان اُن کی لحَد پر شبَنم اِفشانی کرے۔“ آمین۔۔۔!!!
���
ایسو، اننت ناگ،کشمیر،[email protected]