اُردو کے تاریخ ساز ادیب منشی پریم چند کا تعلق ہندو مذہب کے ساتھ تھا لیکن وہ دوسرے مذاہب کی عزت اور احترام کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے تھے ۔ ان کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اپنے مذہب کا تقدس محفوظ رکھنے کے لیے دیگر مذاہب کی قدر کرنا بہت ضروری ہے ۔ پریم چند کو دوسرے مذاہب سے جانکاری حاصل کرنے کی ہمیشہ تڑپ رہتی تھی یہی وجہ ہے کہ اُن کو ہندو دھرم کے علاوہ کئی اور مذاہب سے بھی واقفیت تھی ۔ وہ بودھ مذہب کے علاوہ و یدانت فلاسفی سے بھی واقف تھے۔ اسلام کا انہوں نے بخوبی مطالعہ کیا تھا جس کی دو خاص وجہیں ہیں اول یہ کہ ان کی بستی میں مسلمان رہتے تھے ،دوم یہ کہ ان کے مسلمانوں کے ساتھ گہرے مراسم تھے ۔ چنانچہ پریم چند چوٹی کے مُسلّم ادباء کی کتابیں پڑھا کرتے تھے اور ان ادیبوں کی تحریروں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ اسلامی فلسفہ کے ساتھ تعلق ضرور ہوتا تھا ۔ پریم چند کو ابتدائے زمانہ سے ہی پرانے قصے اور کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ علاوہ ازیں وہ تاریخ پڑھنے میں بھی بہت دلچسپی لیتے تھے ۔ تاریخ کے سلسلے میں ان کو مولوی ذکا اللہ صاحب دہلوی کی تاریخ ’’تاریخِ ہند ‘‘ بہت پسند تھی ۔ چنانچہ یہ تاریخ کئی جلدوں پر مشتمل تھی لیکن پریم چند نے ان تمام جلدوں کا مطالعہ فقط چند دنوں میں ہی مکمل کیا ۔
پریم چند جس دیہات میں رہتے تھے وہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد بھی آباد تھی اور دونوں فرقوں کے لوگ آپس میں میل جول رکھتے تھے۔ پریم چند بھی مسلم بچوں کے ساتھ اُردو اور فارسی پڑھنے کے لیے گائوں کے مولوی صاحب کے پاس جایا کرتے تھے ۔
دھنپت رائے لمہیؔ سے لگ بھگ سوا میل کی دوری پر ایک گائوں دال پورہ میں ایک مولوی صاحب کے مدرسے میں داخلہ حاصل کر چکا تھا ۔ یہ مولوی صاحب پیشے کے اعتبار سے درزی تھے ۔ ساتھ میں مدرسہ بھی لگاتے تھے ۔ اسی مدرسے میں دھنپت رائے کے ساتھ تاو مہا ویر لال کا بیٹا بل بھدر بھی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔ ‘‘
اس حقیقت کا ذکر انہوں نے اپنی کہانی ’’ چوری ‘‘ میں بھی کیا ہے ۔
’’دوسرے گائوں میں ایک مولوی صاحب کے یہاں پڑھنے جایا کرتا تھا ۔ میری عمر آٹھ سال کی تھی ۔ علی الصباح جَو کی روٹیاں کھا کر روانہ ہو جاتے تھے ۔ مولوی صاحب کے یہاں حاضری کا رجسٹر تو تھا ہی نہیں ۔ پھر خوف کس بات کا ؟ کبھی تو تھانے کے ساتھ کھڑے سپاہیوں کی قواعد دیکھتے ، کبھی کسی ریچھ یا بندر نچانے والے مداری کے پیچھے پیچھے گھومنے میں دن گزار دیتے ۔ کبھی ریلوے اسٹیشن کی طرف جاتے اور گاڑیوں کی بہار دیکھتے ۔ کبھی ہم ہفتوں غیر حاضر رہتے مگر مولوی صاحب سے ایسا بہانہ کر دیتے کہ ا ن کی چڑھی ہوئی تیوریاں اتر جاتیں ۔‘‘
چنانچہ منشی پریم چند کو مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے سے فارسی زبان و ادب میں کافی مہارت حاصل ہوئی تھی لہٰذا وہ مفکروں کی تخلیقات کا مطالعہ بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کرنا چاہتے تھے ۔ اس زمانے میں انہوں نے حسب روایت شیخ سعدی شیرازی ، حافظ شیرازی ، مولانا رومی اور فردوسی جیسے چوٹی کے ادیبوں کی تخلیقات سے استفادہ کیا۔ ہندوستان کے مسلم مفکروں نے بغیر کسی امتیاز کے پریم چند کو علم و ادب کے میدان میں راہنمائی بھی کی اور حوصلہ بھی بڑھایا ۔ ۱۹۲۴۔۱۹۲۵ ء کے دوران مولانا کمال الدین صاحب پروفیسر عربی و فارسی لکھنو یونیورسٹی نے لکھنو میں انجمن اُردو قائم کی اور ملک کے چند سرکردہ ادیبوں کو انجمن کا ممبر نامزد کیا جن میں سید مسعود حسن رضوی اور مرزا محمد عسکری بھی شامل تھے ۔ ان لوگوں نے پریم چند کی صلاحیت اور لیاقت تسلیم کرتے ہوئے ان کو بھی انجمن کا ممبر بنایا۔
’’ منشی پریم چند صاحب مرحوم سے میری پہلی ملاقات مولانا ظفر الملک صاحب ، ایڈیٹر’’ الناظر ‘‘ کی ہمراہی میں ہوئی ۔ جب یہ دونوں صاحب غریب خانہ پر تشریف لائے تھے یہ واقعہ ۱۹۲۴ ء یا ۱۹۲۵ ء کا ہے جب میں بعد فراغت کلکتہ سے آ گیا تھا ۔ اسی زمانہ میں شمس العلماء مولانا کمال الدین صاحب پروفیسر عربی و فارسی لکھنؤ یونیورسٹی کی جدو جہد سے لکھنو میں انجمن اُردو قائم ہوئی تھی اور میں اور سید مسعود حسن صاحب رضوی بھی اس کے ممبر تھے ۔ خیر مولانا ظفر الملک صاحب نے منشی پریم چند صاحب کا تعارف کراتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ دیکھے یہ بھی آپ کی انجمن کے ایک سرگرم ممبر ہوں گے ۔ مجھ کو اچھی طرح یاد نہیں ہے منشی صاحب ’’ انجمن اُردو ‘‘ کے جلسوں میں شریک ہوئے تھے یا نہیں مگر اتنا ضرور یاد پڑتا ہے کہ وہ ممبر ہو گئے تھے اور ایک ایسے قابل و مشہور اُردو ہندی نگار شخص کی شرکت پر انجمن کو فخر و ناز تھا ۔‘‘
چنانچہ پریم چند کو پڑھنے والوں کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا جا رہا تھا اور اِن محبانِ پریم چند میں مسلمانوں کی ایک خاص تعداد موجود تھی ۔ بعض مسلمان ان کی تخلیقات کو اس قدر پسند کرتے تھے اور گراں قدر تسلیم کرتے تھے کہ اُن کو اِن تخلیقات میں قوم کا شاندار مستقبل دکھائی دیتا تھا ۔ سابق ممبر انڈین سول سروس علامہ عبداللہ یوسف علی لندن میں مقیم ہونے کے باوجود پریم چند کی تخلیقات سے محظوظ ہوتے تھے ۔ وہ اُن کے طرزِ تحریر کے مداح تھے ۔ اس واقعہ کا ذکر مولوی محمد یحییٰ تنہا اپنے ایک مضمون میں یوں کرتے ہیں :
’’ علامہ عبداللہ یوسف علی صاحب سابق ممبر انڈین سول سروس نے لندن سے ایڈیٹر ’’ زمانہ‘‘ کے نام ایک خط مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۱۸ ء میں لکھا تھا کہ آپ نے منشی پریم چند کی جو کتابیں میرے پاس بھیجیں اور ان کے حالاتِ زندگی کی جو تفصیلات لکھیں ان کے لیے میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں ۔ جب آپ کی ان سے ملاقات ہو تو میری طرف سے ان سے کہہ دیجیے گا کہ میں اُردو میں ان کے طرزِ تحریر کا بڑا مداح ہوں اور اگر وہ مجھے مشورہ کی اجازت دیں تو میں کہوں گا کہ انھیں ناول اور قصے لکھنا چاہیے جن سے قومی جذبات کی نشو و نما میں مدد ملے ، مگر جو ذوق العادت واقعات سے پاک ہوں‘‘۔
پریم چند فرقہ پرستی ، مذہب پرستی ، علاقہ پرستی ، ذات پات یا زبان پرستی کے قائل نہیں تھے ۔وہ ان چیزوں کی حمایت کرنے سے نفرت کرتے تھے ۔ وہ فرد کے بجائے افراد کی بہبودی چاہتے تھے ۔ انسانیت اُن کا سب سے بڑا مذہب تھا ۔ وہ انسانیت کا احترام کرتے تھے اور انسانیت کے لیے لکھتے تھے ۔ وہ مادہ پرستی اور سرمایہ داری کے ہر گز قائل نہیں تھے بلکہ خدمت خلق اُن کی زندگی کا بنیاد ی مقصد تھا ۔ آدمیت احترامٔ آدمی کے مصداق وہ انسانیت کے اصولوں کی آبیاری کرتے تھے ۔ ان ہی خصائل اور اوصاف کی بناء پر پریم چند کو صفت الشان کا مقام دیا گیا ۔ افسر میرٹھی ایڈیٹر زمانہ کے نام ایک خط میں اس حقیقت کا یوں اعتراف کرتے ہیں :
’’ میں کہتا ہوں خدا نے کسی فرشتہ کا نام پریم چند رکھ دیا تھا ، اُن کی محبت کی بے ریائی ، اُن کا بھولا پن ، اُن کی صاف گوئی کن کن چیزوں کو یاد کروں ۔ فسانہ نویس ممکن ہے اُن سے لاکھ درجہ اچھے پیدا ہو جائیں ، ہندی میں بھی اور اُردو میں بھی ۔ مگر ایسا انسان ہم کہاں سے لائیں گے ۔ ایسے انسان تو صدیوں کے الٹ پھیر میں بھی پیدا نہیں ہوتے ۔‘‘
منشی پریم چند کو مسلمانوں کے ساتھ گہرے تعلقات تھے ۔ انہوں نے مذہب کی بنیادوں پر کبھی بھی کسی کے دل کو دکھانے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ ہر مذہب کا برابر ا حترام کرتے تھے ۔ اسلام کے نام پر گمراہ کرنے والوں اور ہندو دھرم کے نام پر استحصال کرنے والے پجاریوں کی وہ یکسان نفرت کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کو نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا کے لیے خطر ناک سمجھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے سینکڑوں افسانوں میں اُن نام نہاد مذہبی ٹھیکیدا روں کو بے نقاب کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ چنانچہ پریم چند کو مسلم سماج کا بھر پور مطالعہ تھا، لہٰذا انہوں نے اس سماج میں پائی جانے والی برائیوں ، مظالم ، نا برابریوں ، توہمات اور دیگر مسائل کی اپنی کہانیوں میں عکاسی کی ہے ۔ ہندوستان کے مسلم سماج کا ماضی جاننے کے لیے جہاں ماہرین سماجیات اور مورخوں کی مدد لینے کی ضرورت پڑے گی وہاں منشی پریم چند کی کہانیوں کا مطالعہ کرنا بھی ممد و معاون ثابت ہوگا ۔ پریم چند نے مسلم سماج میں پائی جانے والی خامیوں کے ساتھ ساتھ اس میں پائی جانے والی خوبیوں کا بھی احاطہ کیا ہے ۔
’’ انہوں ( پریم چند ) نے اسلامی تاریخ اور اسلامی معاشرے سے متاثر ہو کر کئی کتابیں لکھیں جن میں بڑے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ ایک عظیم اور بے مثال ادیب کے فرض کو پوری طرح سے نبھایا۔‘‘
پریم چند ہمیشہ اسلام کا احترام اور مسلمانوں کے ساتھ محبت کرتے تھے ۔ ان کی یہ صفات نہ صرف ان کی کہانیوں تک محدود ہیں بلکہ ان کی عملی زندگی میں اس قسم کے کئی ثبوت موجود ہیں ۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ ہندوستان کی سا لمیت اور ترقی کے لیے مسلمانوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا وہ اس سلسلے میں سیاسی شعبدہ بازوں اور مذہبی ٹھیکیداروں کو کبھی معاف نہیں کرتے تھے ۔ وہ اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی ایسی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے جس سے فرقہ واریت کی بُو آتی تھی ۔ چنانچہ شر پسند اور فرقہ پرور عناصر اپنے اغراض و مقاصد پورا کرنے کی خاطر ملک کی سا لمیت کو زک پہنچانے کے لیے ہمیشہ تاک میں بیٹھے رہتے تھے لیکن پریم چند جیسے ادباء بھی ان کے ناپاک ارادوں کو زمین بوس کرنے میں مصروف رہتے تھے ۔ ۱۹۳۳ ء کو پریم چند کے قریب ترین دوست چُتر سین شاستری نے ’’ اسلام کا وش و رکش ‘‘ (اسلام کا زہریلا شجر )کے نام سے ایک کتاب شایع کی ۔ اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی ہندوستان کے مسلمان آگ بگولہ ہو گئے کیونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف من گھڑت باتیں لکھی گئی تھیں ۔ پریم چند کو اپنے دوست کی یہ غیر اخلاقی اور نا زیبا حرکت بہت ناگوار گذری ۔ انہوں نے اپنے دوست سے نہ صرف ناراضگی کا اظہار کیا بلکہ اُس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور اس جنگ میں شریک ہونے کے لیے اپنے کئی دوستوں سے اپیل کی ۔ پریم چند نے بڑی غیر جانبداری کے ساتھ اس جنگ میں تلوار کا کام قلم سے لیا ۔ ۲۴؍ جولائی ۱۹۳۳ ء کے ’’جاگرن ‘‘ میں انہوں نے اپنے اداریہ میں مذکورہ کتاب کی پوری خبر لی ۔ اس ادارایہ نے ایک طرف مسلمانوں کی ناراضگی میں کمی کی اور دوسری طرف چتر سین کی کتاب کی وقعت کو زمین بوس کر دیا ۔
’’ حال ہی میں اس نام کی کتاب ( اسلام کاوش و رکش ) ساہتیہ منڈل دہلی نے شایع کی ہے ۔ اس کے مصنف ہیں شری چتر سین جی شاستری ۔ شاستری جی مشہور مصنف ہیں ۔ ان کے قلم میں زور ہے اور تحریر میں دلکشی لیکن بد قسمتی سے کبھی کبھی وہ اپنی ان خوبیوں کا غلط استعمال کرلیاکرتے ہیں ۔ تھوڑی سی دولت اور تھوڑی سی شہرت کی لالچ میں وہ اس طرح کی تخلیقات کر ڈالتے ہیں جن سے سنسنی کے ساتھ ملک میں فرقہ وارانہ جذبات کو مشتعل کرنے کی ذہنیت جھلکتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی زہریلی کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں ۔ ۔۔لیکن کیا اس طرح دشمنی کی آگ کو ہوا دینا شاستری جی جیسے قلم کار کی شان کے شایان بات ہے ۔ اپنے اپنے وقت میں طاقت پا کر سبھی فرقوں نے مظالم کیے ہیں لیکن اِن گئی بیتی باتوں کو کینے کی طرح پالنا اور ان کی تشہیر کر کے عوام میں دشمنی کے بیج بونا ملک کو تباہی کی طرف لے جائے گا ۔…… یہ کتاب اسلام کی تاریخ ہے ۔ کسی فرقے یا مذہب کی تاریخ لکھنا بُری بات نہیں لیکن مصنف غیر جانبدار ہو اُس کو پوری محنت ، لگن اور تحقیق کے ساتھ سچ اور جھوٹ کو پرکھ کر اُسے پوری غیر جانبداری سے پیش کیا جانا چاہیے ۔ اس کتاب کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس کی تخلیق میں کسی قسم کی ذہنیت کا ہاتھ ہے اور کتاب کے سر ورق پر جو رنگین تصویر دی گئی ہے وہ مصنف کی گندی ذہنیت کی ننگی تصویر ہے ۔ چتر سین جی شاستری ہمارے دوست ہیں ، وہ عالم ، فاضل ہیں ۔ اچھے دل و دماغ کے مالک ہیں ۔ ہماری ان سے استدعا ہے کہ وہ اس طرح کی اشتعال انگیر بے ہودہ تحریروں سے اپنے نام اور ہندی بھات کو داغ دار نہ کریں ، اور عوام میں جو دشمنی اور تعصب کے جذبات پہلے ہی بھڑکے ہوئے ہیں اس بارود کو آگ نہ دکھائیں ۔
چنانچہ منشی پریم چند کو تاریخِ اسلام کا اچھا خاصا مطالعہ تھا ۔ ڈراما ’’کربلا ‘‘ کی تخلیق اس کی ایک زندہ مثال ہے ۔ کربلا کا واقعہ حق اور باطل کے درمیان لڑائی تھی جو حضرت امام حسین ؓ ان کے ساتھیوں اور یزیدی فوج کے درمیان لڑی گئی ، اس لڑائی میں حضرتِ امام حسین ؓ نے فتح یاب ہو کر اسلام کا پرچم بلند کیا ۔ انہوں نے اپنا سر دیا لیکن یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی ؎
سر داد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنای لا الہ اللہ حسینؑ
پریم چند جیسے ایک غیر مسلم مفکر کا واقعۂ کربلا جیسے حساس موضوع پر قلم اٹھانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کیونکہ مسلمان اپنے مذہب سے متعلق کوئی بھی من گھڑت بات برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ لہٰذا ڈراما کربلا تحریر کرتے وقت پریم چند کو دو دھاری تلوار پر چلنا پڑا ہوگا ۔ پریم چند نے جس انداز سے حضرت امام حسینؓ او ر ان کے ساتھیوں کی ذات و صفات اور یزید کے کمینہ پن کا خاکہ کھینچا ہے شاید دوسرے کے بس کی بات نہیں ہے ۔حسینؓ اور ان کے ساتھی راست گو ، ایماندار ، حق پرست ، باہمت ، با کردار ، خوش اخلاق ، زاہد ، پرہیز گار اور نیک سیرت تھے جب کہ یزید ملوکانہ مفاسد کا نمائندہ تھا ، اُردو کے مشہور مرثیہ گو شعراء میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ نے بھی واقعات کربلا کی منظر کشی کی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ان دونوں نے قارئین کو رلانے کے لیے ایک مخصوص انداز اپنایا ہے ۔ جب کہ پریم چند نے کربلا لکھ کر ایک تاریخ مرتب کی ہے ۔ چنانچہ عالمی سطح کے موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر غیر مسلم قوتیں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی کا سر چشمہ قرار دیتی ہیں جس میں کوئی رتی بھر حقیقت نہیں ہے ۔ اسلام پھیلانے والوں کے لیے قرآن یا حدیث میں طاقت کا استعمال کرنے پر کبھی زور نہیں دیا گیا ہے ۔ پریم چند نے یہی بات حضرت عباس ؓکے منہ سے کہلوائی ہے۔ ’’قرآن پاک میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جس کا منشا ء تلوار سے اسلام پھیلانا ہو‘‘۔
ڈراما کربلا میں کچھ غیر مسلم کردار بھی نظر آتے ہیں جن کی موجودگی عام قارئین کو یقینا حیرانگی میں ڈالتی ہے ۔ ڈراما کے ساتویں سین میں ساہس راے ، ہر جس راے ، سنگھ دت ، رام سنگھ ، دھر و دت اور بھیرو دت غیر مسلم ہونے کے باوجود کربلا کے خونین واقعات میں برابر کے شریک ہیں ۔ چنانچہ ہندو دھرم بھی نا انصافی کے خلاف ہے، لہٰذا یزید کے ہاتھوں خلافت غصب کرلینے پر ڈراما کے ہندو کردار بھی یزید کی غاصبانہ کاروائی کے خلاف بیک زبان ہو کر اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ خلافت کا حقدار فقط حضرت امام حسین ؓہیں نہ کہ یزید۔ سنگھ دت اپنے مذہبی اصول کے مطابق حسین ؓ کا ساتھ دے کر یزید کے خلاف جنگ لڑنے پر آماد ہ ہوتا ہے ۔
’’سنگھ دت! جب یہ امر مسلم ہے کہ اُس ( یزید ) نے انصاف کا خون کیا ہے تو اُس کے پاس قاصد بھیج کر تا خیر کیوں کی جائے ۔ ہمیں فوراً اُس سے جنگ کرنی چاہیے ۔ ناانصافی کو بھی اپنی حمایت کے لیے دلیلوں کی کمی نہیں ہوتی ۔ ‘‘
:واقعات کربلا کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد پریم چند ان مشکلات اور مصائب سے حد درجہ متاثر ہوئے تھے جن کا مقابلہ حضرتِ امام حسینؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے بڑی بے کسی اور کسمپرسی کے ساتھ کیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان تمام حالات اور واقعات کو ڈرامائی صورت دے کر ہمیشہ زندہ جاوید رکھنے کے لیے ڈراما’’ کربلا‘‘ کی تخلیق عمل میں لائی ۔
’’پریم چند نے دیا نرائن نگم کو لکھا کہ جب انہوں نے حضرت حسینؓ کے حالات پڑھے تو ان کی شہادت نے انھیں مفتون کر لیا اور اس نتیجے میں کربلا کی تخلیق ہوئی ۔ انھیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ خواجہ حسن نظامی نے ایک کتاب کرشن بیتی لکھی تھی اور نقاد نے اس کی اس لیے تعریف کی تھی کہ اس میں خواجہ صاحب نے کرشن کے لیے اپنی عقیدت کا اظہار کیا تھا اور پریم چند کا منشا بھی ایسا ہی تھا کہ عام لوگوں کو حضرت حسین ؓ کے لیے عقیدت ہو ۔ ادھر دیا نرائن نگم نے کربلا کی ایک قسط پر اپنے مسلم دانش مندوں سے صلاح مشورہ کیا تو انہوں نے کچھ اعتراضات اٹھائے تو نگم نے پریم چند کو لکھا اور پریم چند نے جو اب میں لکھا :’’ اگر مسلمانوں کو یہ بھی منظور نہیں کہ کسی ہندو کی زبان و قلم سے ان کے مذہبی پیشوا یا امام کی مدح سرائی ہو تو میں اس کے لیے مُصر نہیں ہو ں ۔ اگر مجھے وہ آزادی حاصل نہیں ہے جو خواجہ حسن نظامی کو ہے ، تو مجھے افسوس نہیں ہے ، براہِ کرم مسودہ واپس کر دیجیے۔‘‘ اسی خط میں اعتراضات کے بارے میں لکھا کہ تاریخ اور تاریخی ڈرامے میں فرق ہے ۔ ڈرامہ تاریخ نہیں ہے ۔ دیا نرائن نگم نے دوستوں سے مشورہ کیا اور’’ کربلا ‘‘کو زمانہ میں شایع کیا گیا ۔ بعد میں اِسے کتاب کی شکل میں شایع کیا۔ ‘‘
ڈراما’’ کربلا ‘‘ کے دیباچہ میں پریم چند ہندو دھرم کے پرستاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ روحانی تعلق قائم کر نے کے لیے ان کے دینی بزرگوں کا قریب سے مشاہدہ کریں تاکہ باہمی رقابت کو دور کرنے کے لیے راستہ ہموار ہو سکے ۔ یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم آپسی دشمنی کو گہری دوستی میں بدل سکتے ہیں ۔
’’کتنے دکھ اور شرم کی بات ہے کہ کئی صدیوں سے مسلمانوں کے ساتھ رہنے پر بھی ابھی تک ہم لوگ ان کی تورایخ سے نا بلد ِمحض ہیں ۔ ہندو مسلمان دشمنی / چپقلش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ہندوئوں کو مسلم مہا پرشوں کی سیرت کا علم نہیں ۔ اچھے اور برے کردار سبھی معاشروں میں ہوئے آتے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔ مسلمانوں میں بھی بڑے بڑے مخیر ، بڑے بڑے دھرماتما اور بڑے بڑے انصاف پسند بادشاہ ہوئے ہیں ۔ کسی فرقے کے مہا پرشوں کی سیرت کا مطالعہ اس فرقے کے ساتھ روحانی تعلق قائم کرنا ہے ۔ ‘‘
منشی پریم چند اس بات کے معترف تھے کہ اسلام ایک عظیم مذہب ہے اور اس کی تعلیمات بھی بہت عظیم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قرآنِ مجید کا بھی مطالعہ کرتے تھے ۔ قرآنِ شریف کی بعض سورتیں تو ان کو زبانی یاد تھیں۔آگرہ کالج میں انہوں نے ایک بار کچھ سورتیں زبانی پڑھ کر سنائی تھیں ۔ چنانچہ قرآنِ مجید اتحاد اور اتفاق کی تعلیمات سے بھرا پڑا ہے یہی وجہ ہے کہ پریم چند نے ’’ قرآن میں فرقہ وارانہ اتحاد کے عناصر ‘‘ عنوان کے تحت ایک اداریہ بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مذہبی اتحاد کی تعلیم قرآن ِ مجید کا ایک اہم ترین عنصر ہے ۔
’’ یہ عظیم عنصر (مذہبی اتحاد ) قرآن کی تعلیم کی سب سے پہلی بنیاد ہے ۔ قرآن جو کچھ بتلانا اور سکھلانا چاہتا ہے ، سبھی اسی پر منحصر ہے ۔ مگر اس عنصر سے نظر پھیر لی جائے تو قرآن کی تعلیمات کا سارا ڈھانچہ ہی چُر مُرا جاتا ہے ۔ لیکن دُنیا کی تاریخ کی حیرت انگیز ترقی میں یہ بھی ایک عجیب حادثہ ہے کہ قرآن نے اخلاص پر جتنا زور دیا ہے اتنی ہی دنیا کی نظر اس سے پھری رہی ۔ یہاں تک کہ آج قرآن کی کوئی بھی بات دنیا کی نظر سے اس درجہ پوشیدہ نہیں ہے جتنا یہ عظیم عنصر ۔ اگر کوئی شخص ہر قسم کے بیرونی اثرات سے الگ ہو کر قرآن کا مطالعہ کر لے اور اس کے صفحات میں جگہ جگہ پر اس عظیم عنصر کے ناقابل تردید اور واضح اعلانات دیکھے اور پھر دُنیا کی طرف نگاہ ڈالے جس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ قرآن بھی دیگر مذہبی فرقہ جات کی طرح ایک فرقۂ محض ہے وہ تو ضرور متحیر ہو کر پکار اٹھے گا کہ یا تو میری نگاہ مجھ کو دھوکا دے رہی ہے یا دُنیا ہمیشہ بغیر آنکھیں کھولے ہی اپنے فیصلے دے دیا کرتی ہے ۔ ‘‘
پریم چند کی رگ رگ اور نس نس میں حُب الوطنی کا جذبہ بھرا ہوا تھا ۔ اُن کا ایمان تھا کہ ملک کی آزادی اور عزت کے لیے قوموں کا اتحاد اور اتفاق بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نے ہمیشہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی یکجہتی پر بہت زور دیا ۔ ان کو اس بات کا بشدّت احساس تھا کہ اگر مسلّم قوم کے ساتھ کسی بھی طرح کا امتیاز برتا گیا تو وہ ملک کی سا لمیت اور یکجہتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اسلام یا مسلمانوں کے خلاف اُٹھنے والی ہر تحریک کی ڈٹ کر مخالفت کی ۔ اس سلسلے میں ’’ ملکانہ راجپوت مسلمانوں کی شدھی ‘‘ کے خلاف ان کی تحریری جنگ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ مغل حکمران اورنگ زیب کے دورِ حکومت میں ملکانہ کے جن ہندوئوں نے اسلام قبول ُکیا تھا اُن کو از سرِ نو ہندو مذہب اختیار کرنے کی تحریک چلائی گئی ۔ یہ تحریک مسلمانوں کو بہت نا گوار گذری کیونکہ اُن کے مطابق یہ تحریک فقط مسلمانوں کا اعداد و شمار کم کرنے کے لیے چلائی گئی ۔ پریم چند نے اس تحریک کے دُور رس نتائج کا اندازہ لگا کر اسے نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے خطر ناک قرار دیا ۔ نتیجتاً انہوں نے ’’ شدھی ‘‘ عنوان کے تحت ایک کہانی تخلیق کی ۔ کہانی کا مرکزی کردار پریم ناتھ ایک مسلمان طوائف حُسنہ کے دام الفت میں شکار ہونے کے بعد اس پر اپنا سب کچھ نثار کرنے پر تیار ہو گیا یہاں تک کہ وہ اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو گیا لیکن حُسنہ نے پریم ناتھ ( الفت حُسین ) کے مال و دولت کو اپنی عیاشی پر اڑانے کے بعد نئے نئے عاشق ڈھونڈ نکالے اور میاں الفت حسین بے یار و مدد گار ، بے رفیق و غم گسار ایک پرانی مسجد میں پناہ گزیں ہوا ، وہ شدھی کا حامی نہیں ہے کیونکہ وہ ان ہندوئوں کے ساتھ چلنے کے لیے شدھی کرانے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے جن کے ہاتھ سے وہ پانی پینا گوارہ نہیں کرتا ہے ، وہ فقط اپنی بیوی کی خاطر شدھی کرانے کے لیے آمادہ ہوتا ہے ۔ اس کہانی کے علاوہ پریم چند نے شدھی تحریک کے خلاف ’’ ملکانہ راجپوت مسلمانوں کی شدھی ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا ہے ۔ اس مضمون نے انہوں نے شدھی تحریک کے حامیوں کی بھر پور مخالفت اور مسلمانوں کی وکالت کی ہے ۔
’’ ہم شدھی کے حامیوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہندوئوں کو مستحکم بنانے کا یہی ایک وسیلہ ہے ؟ ان کو کیوں نہیں اپناتے جن کے اپنانے سے ہندئو قوم کو اصلی قوت حاصل ہوتی ۔ کروڑوں اچھوت عیسائیوں کے دامن میں پناہ لینے چلے جاتے ہیں ۔ انھیں کیوں نہیں گلے لگاتے ؟ اگر آپ قوم کے سچے بہی خواہ ہیں تو ان اچھوتوں کو اٹھائیں۔ ان پامالوں کے زخم پر مرہم رکھیں ۔ ان میں تعلیم اور تہذیب کی روشنی پہنچائیں ۔ اعلیٰ اور ادنیٰ کی قیدوں کو مٹائیں ۔ چھوٗت چھات کے بے معنی اور مہمل قیدوں سے قوم کو پاک کیجیے ۔ کیا ہماری راسخ الاعتقاد مذہبی جماعتیں ڈمروں اور چماروں سے برادرانہ مساوات کرنے کے لیے تیار ہیں ؟ اگر نہیں ہیں تو اُن کی شیرازہ بندی کا دعویٰ باطل ہے ۔ آپ کو واضح ہو کہ مسلمانوں سے دشمنی کر کے اپنے پہلو میں کانٹے بوئو گے ، آپ اپنی قوم کو مضبوط نہیں کر رہے ہیں ، آپ مسلمانوں کو جبراً قہراً حکمران قوم کی مدد لینے کے لیے مجبور کر رہے ہیں ۔ آپ اپنی تلوار مقابل کے ہاتھ میں دے رہے ہیں ۔ آپ کا خدا ہی حافظ ہے ۔ پھر بھی کیا خبر ہے کہ جن مسلمانوں یا برائے نام مسلمانوں کو پاک کرنے کے لیے آپ ساری قوم کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں وہ ہمیشہ ہندو دامن سے وابستہ رہیں گے ۔ کم از کم سابقہ تجربات تو اس استقلال کی شہادت نہیں دیتے اور سماج نے جتنے معرکے کی شدھیاں کیں ، ہر موقعہ پر دھوکا کھایا ۔ دھرم پال ، دھرم بیر وغیرہ ہم سب کے سب آج پھر مسلمان ہیں تو کون ، یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ ملکانہ راجپوت اس نئی مہمانی کا لطف اٹھانے کے بعد اپنے گھر کی طرف رُخ نہ کریں گے۔ ہم کو شک ہے کہ اس جوش و خروش کے بعد جب ان ہندوئوں کو ہندو سو سائٹی سے کما حقہ واقفیت ہوگی وہ دیکھیں گے کہ ہم کو شدھی سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوا ۔ ہمارے ساتھ اب بھی وہی چھوت چھات جاری ہے ۔ ہماری اولاد کی شادیوں میں اب اور بھی زیادہ رکاوٹیں پیدا ہو گئیں تو متنفر ہو کر پھر اسلام کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ۔
منشی پریم چند نے ہمیشہ ملکانہ راجپوت مسلمانوں کی شدھی تحریک میں شامل ہندو راہنمائوں کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور ان کو ہدفِ تنقید بنایا ، کیونکہ وہ اس تحریک کو ملک اور قوم کے لیے سم قاتل سمجھتے تھے ۔ اس کے مقابلے میں انہوں نے مسلم راہنمائوں کی سنجیدگی ، صبر و تحمل اور دُور اندیشی کو بہت سراہا ہے ۔
’’ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہندوئوں میں ایک بھی سیف الدین کچلو ، محمد علی یا شوکت علی ہوتا تو ہندو سنگٹھن اور شدھی کی اتنی گرم بازاری نہ ہوتی اور ان ہنگاموں میں کافی کمی ہو جاتی جو اس نفرت ، دشمنی عداوت کے سبب دکھائی پڑتے ہیں ۔‘‘
ہندوستان میں گائو کشی کا مسئلہ ہمیشہ باعثِ نزاع رہا ہے ۔ اس مسئلے نے جب بھی سراُٹھایا تو کئی جانیں تلف ہوئیں اور ہندو مسلمانوں میں کدورت بڑھتی گئی ۔ پریم چند نے اس مسئلے میں بھی ہمیشہ غیر جانبداری کے ساتھ اپنا نظریہ پیش کیا ۔ انہوں نے مذہبی معاملات میں ہمیشہ کشادہ ذہنی اور وسیع القلبی کے ساتھ دخل دیا ۔ گائو کشی کے مسئلے میں انہوں نے جس انداز سے مسلمانوں کی وکالت کی ہے وہ ان کے منصفانہ رویے کی ایک بہترین مثال ہے ۔ پریم چند نے گائو کشی کو ملکی سطح پر سمجھنے کے بجائے عالمی سطح پر سمجھنے کی تلقین کی ہے تاکہ ہندو ئوں کے نظریے میں وسعت پیدا ہو سکے ۔
’’ اگر مذہب کی عزت کرنا اچھا ہے ، تو ہر حالت میں اچھا ہے ۔ اس کے لیے کسی شرط کی ضرورت نہیں۔ اچھا کام کرنے والوں کو سب اچھا کہتے ہیں ۔ دُنیوی معاملوں میں دبنے سے آبرو میں بٹا لگتا ہے ، دین دھرم کے معاملوں میں دبنے سے نہیں ۔ گائو کشی کے معاملے میں ہندوئوں نے شروع سے اب تک ایک غیرمنصفانہ ڈھنگ اختیار کیا ہے ۔ ہمیں حق ہے کہ جس جانور کو چاہیں مقدس سمجھیں لیکن یہ امید رکھنا کہ دوسرے مذہب کو ماننے والے بھی اُسے ایسا ہی مقدس سمجھیں خواہ مخواہ دوسروں سے سر ٹکرانا ہے ۔ گائے ساری دنیا میں کھائی جاتی ہے ۔ اس کے لیے کیا آپ ساری دنیا کو گردن زدنی سمجھیں گے ؟ اگر ہندوئوں کو ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ انسان کسی حیوان سے کہیں زیادہ مقدس جان دار ہے ۔ چاہے وہ گوپال کی گائے ہو یا عیسیٰ کا گدھا ، تو انہو ںنے ابھی تہذیب کی ابجد بھی نہیںسمجھی ۔ ہندوستان جیسے زراعتی ملک کے لیے گائے کا ہونا ایک رحمت ہے مگر معاشی نقطہ نظر کے علاوہ اُس کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
پریم چند ایک دُور اندیش ادیب تھے ۔ وہ تاریخ ِماضی کا بغور جائزہ لے کر مستقبل کے بارے میں سوچا کرتے تھے ۔ وہ ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے مسلمانوں کی موجودگی اور خوشحالی کو بہت اہم سمجھتے تھے ۔ اقلیت میں ہونے کے باوجود وہ مسلمانوں کو اکثریت کے برابر اہمیت دیتے تھے کیونکہ ان کو یقین تھا کہ چمن کی رونق گلہای رنگ رنگ سے ہی ممکن ہے جس کی طرف اُردو کے مشہور شاعر ذوقؔ نے بھی اشارہ کیا ہے :
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
پریم چند کے فرزند امرت رائے پریم چند کی سوانح عمری ’’ پریم چند قلم کا سپاہی ‘‘(مترجم حکم چند نیر) میں رقمطراز ہیں کہ ہندو مسلم اتحاد کی بات ان کے اندر کافی گہری جڑ پکڑ چکی تھی ۔ جس طرح ان کا کوئی اصول زبانی نہ رہ کر ان کے عمل میں دکھلائی دیتا تھا ویسے ہی اس معاملے میں بھی انہوں نے بورڈنگ ہاوس کی اپنی تین سال کی سپرا نٹیڈنٹی میں اپنی اس چھوٹی سی دنیا میں دونوں فرقوں کے درمیان بھائی چارے کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی جیسا کہ ان کے اس زمانے کے ایک طالب عالم محمد حنیف خان نے ایک بیان میں کہا ہے !
’’ وہ مسلم اتحاد کے بڑے حامی تھے ۔ نارمل اسکول گورکھپور میں کم و بیش ڈیڑھ سو طلباء تعلیم حاصل کر رہے تھے جن میں تقریباً تیس ٹیچر مسلم تھے ۔ جولائی ۱۹۱۶ء سے اپریل ۱۹۱۷ء تک پورے ایک سال میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں آیا جس میں ہندو مسلم فیلنگ قائم ہو … کبھی کسی نے ایسا موقع پیدا کرنا چاہا جس سے فرقہ وارانہ جذبات مشتعل ہوں ، تو اُسے نہ صرف آپ دبا دیتے تھے بلکہ مسلموں کے دلوں سے اس خیال کو نکال دینے کی کوشش کرتے تھے ۔ ‘‘ پریم چند اسلامی تعلیمات سے بڑی حد تک متاثر تھے ۔ وہ اس بات کے معترف تھے کہ انسان کے بُرے اعمال کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا ہے کہ اُس کا مذہب بُرا ہے بلکہ مذہب چاہے کوئی بھی ہو بذاتِ خود عظیم ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنے مضمون ’’کچھ اسلامی تہذیب کے بارے میں‘‘ میں اسلام کی عظمت اور تقدس سے متعلق اپنی رائے قائم کرتے ہوئے اسے ایک عظیم مذہب تسلیم کیا ہے ۔ پریم چند نے اسلام کے تصورِ انصاف ، سودخواری کی ممانعت ، تعلیم کی اہمیت اور افادیت ، مساوات ، بھائی چارہ ، تہذیب و آداب اور فن ِتعمیر کو بہت سراہا ہے ۔ بقول ان کے عمارت سازی میں شاید دنیا کی کوئی بھی قوم مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ چنانچہ سودی کارو بار نے پوری دنیا میں افرا تفری پھیلا دی ہے لیکن اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے سود کے منفی اثرات کو مد نظر رکھ کر اسے حرام قرار دیا ہے ۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کے بندوں کے ساتھ محبت کریں ۔
صدر شعبہ اُردوگورنمنٹ ڈگری کالج بیروہ کشمیر
موبائیل: 09419022648، ای میل: [email protected]
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)