جموں وکشمیر میں منشیات کی وباء تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ہر دن پولیس کی جانب سے منشیات سمگلروں کو پکڑے جانے کی خبریں موصول ہورہی ہیں اور المیہ تو یہ ہے کہ کشمیر سے کٹھوعہ تک پوری ریاست اس وباء کی لپیٹ میں آچکی ہے ۔گو پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ منشیات مخالف مہم میں سرگرم ہے تاہم زمینی صورتحال یہ ہے کہ ریاست منشیات کے خریدو فروخت کی پسندیدہ جگہ بن چکی ہے۔ جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ دوتین عشرہ قبل تک کشمیری معاشرہ اس خجالت سے مکمل طور ناآشنا تھا بلکہ یہاں تمباکو کو چھوڑ کر دیگر انواع کے نشوں کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا بھی گناہ عظیم تصور کیاجاتا تھا تاہم اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔چینیوں کو تودہائیوں قبل اس لت سے نجات مل گئی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر اس دلدل میں پھنستے ہی جارہا ہے اور یہاں ہرگزرنے والے سال کے ساتھ ساتھ نہ صرف منشیات کاکاروبارفروغ پارہا ہے بلکہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق سولہ سےتیس برس کے درمیانی عمروں کے لوگ اس خباثت کی طرف زیادہ آسانی سے راغب ہوتے ہیں۔ چند سال قبل کی ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ کشمیرمیں تقریباً 3.8 فیصد آبادی افیم اور افیم سے وابستہ نشے کی عادی ہے، جو انتہائی بڑی تعداد ہے۔ اس معاملے میں کشمیر نے ایران کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، جہاں کل آبادی کے 2.6 فیصد لوگ افیم اور اس سے وابستہ نشہ آور چیزیں استعمال کرتے ہیں ۔ کشمیر کی کل آبادی کا دو فیصد لوگ بھنگ استعمال کرتے ہیں جبکہ 1.07 فیصد آبادی Benzodiazepines استعمال کرتی ہے اور 0.7 فیصد لوگ شراب نوشی میں ملوث ہیں۔اسی طرح24.5 فیصد لوگ سگریٹ نوشی کے عادی ہیں جبکہ 10.63 فیصد لوگ سگریٹ نوشی کے دوسرے متبادلات استعمال کرتے ہیں۔تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ افیم کی مختلف اشکال کے استعمال میں کئی سو گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ 1980 میں 9.5 فیصد آبادی افیم او ر اس سے وابستہ اشیاء کا نشہ کرتی تھی، لیکن 2002 تک منشیات سے نجات حاصل کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 73.1 فیصد ہوگئی ہے۔1980 کے دوران تک ہیروئن اور دوسری سخت نشہ آو ر چیزیں ممبئی سے آ یا کرتی تھیں، لیکن 1990 کے بعد جموں و کشمیر ہیروئن اور اس سے وابستہ اشیاء کی اسمگلنگ کا بین الاقوامی ٹرانزٹ پوائنٹ بن چکا ہے ۔ایک مقامی رضاکار تنظیم CAUSEکی ایک تحقیق کے مطابق کشمیر میں منشیات کی وباء طوفان کی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور تشویشناک امر یہ ہے کہ چھوٹے بچے اور نوجوان اس کا شکار ہورہے ہیں۔ادارہ کی پائلٹ سٹیڈی میں کہاگیا ہے کہ 22فیصد گریجوٹ ،6فیصد پوسٹ گریجوٹ اور 2فیصد پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ نوجوان منشیات کی لت میںمبتلا ہوچکے ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تشویش ناک اضافہ ہورہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ سرکاری حکام کی ناک کے نیچے کیسے ہوتا ہے؟ بھنگ، پاپی اور ایسی دوسری نشہ آور فصلیں این ڈی پی ایس ایکٹ، 1985 کی دفعہ 18 کے تحت ایک قابل سزا جرم ہے اور اس کیلئے مجرم کو 10 سال قید با مشقت اور ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ایسی منشیات کو خریدنا اور فروخت کرنا بھی اس قانون کی دفعہ 15 کے تحت جرم ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعے پاس کئے گئے اس قانون کو ریاستی حکومتیں اپنی زمینی حقائق کی بنیاد پر نافذ کرتی ہیں۔ اگرچہ اس قانو ن کی دفعہ 10 جموں و کشمیر کی حکومت کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ افیم، پاپی کے پودوں اور دوائوں میں استعمال ہونے والی افیم اور بھنگ کی کھیتی کی بین الریاستی حرکت پر روک لگا سکتے اور اسے ضبط کر سکتے ہیں تاہم عملی طور ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے بلکہ اگر حق گوئی سے کام لیاجائے تو انتظامی سطح پر صرف کاغذے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں جبکہ عملی سطح پر کچھ کام نہیں ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری نوجوان نسل اس دلدل میں پھنستی ہی چلی جارہی ہے اور اگر یہی رجحان جاری رہا تو کشمیری سماج کے مستقبل کے بارے میں کچھ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔اگر افیم زدہ چینی قوم ،جو جاپانی راج کے زیر تسلط اس میں غرق ہوگئی تھی،اس خجالت سے نجات پاسکتی ہے توماضی قریب تک اس لعنت سے نامانوس کشمیری قوم کیوں نشے کے سمندر میں غرق ہوتی جارہی ہے ۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا ارباب حل و عقد اور اہل دانش کو دینا پڑے گاوگرنہ یہی کہاجائے گا کہ ارباب اختیار کشمیریوں کی بربادی کا تماشا دیکھنے پر تلے ہوئے ہیں جو کسی صدمہ عظیم سے کم نہ ہوگا۔