! منشیات انسان کوبے وقعت بنادیتی ہے

انسانی زندگی اللہ تعالیٰ کا عطیہ اوراس کی گراں قدر نعمت ہے جس کی قیمت ہر فردبشر پر عیاں ہے اوراس کی حفاظت ہرہوش مند آدمی پرواجب ہے،اگر وہ اس کی ناقدری کرتے ہوئے اسے ضائع کرتاہے یااس کی حفاظت سے رو گردانی کرتاہے تو یہ اس نعمت کے ساتھ ناانصافی اورقدرت سے بغاوت کےمترادف ہے۔مگر افسوس ! آج ہماری نوجوان نسل جہد و عمل سے کوسوں دور انٹرنیٹ اور منشیات کے خوف ناک حصار میں جکڑے ہوئے ہیںاوروہ اپنی متاع حیات سے بے پرواہ ہوکر تیزگامی کے ساتھ نشہ جیسے زہر ہلاہل کو قند سمجھ رہے ہیں اور ہلاکت و بربادی کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔اس وقت دنیا بھر میں کروڑوں لوگ مختلف اقسام کے نشے کی لت میںمبتلا ہیںاور سالانہ لاکھوں لوگ منشیات کے استعمال سے اپنی متاع عزیز زندگی کا چراغ گُل کردیتے ہیں۔جموں و کشمیر میں ایسی ہی صورت حال ہے۔اپنی اس وادیٔ کشمیر میں بھی تو سگریٹ وشراب نوشی اور دوسرے منشیات کی وجہ مجبوری یا ڈپریشن نہیں ہےبلکہ ہم عصروں اور دوستوں کو دیکھ کر دل میں انگڑائی لینے والا جذبہ ٔ شوق ہے،جو نوجوانوں کو تباہ وبرباد،ان کے زندگی کو تاریک واندھیر او ر ان کی جوانی کوبہ تدریج کھوکھلا کرتاجارہاہے۔بوڑھےاور عمررسیدہ افراد تو منشیات کے استعمال نےکسی کام کے نہیں رکھے ہیں۔مگرہمارے اکثر بچے اور نو جوان والدین کی غفلت اور ان کے سرد رویے کی وجہ سے نشے کی لت کا شکار ہورہے ہیں جو ہم سب لئے لمحہ فکر ہے۔ظاہر ہے کہ منشیات کا نشہ پہلے پہل ایک شوق ہوتا ہے ، پھر آہستہ آہستہ ضرورت بن جاتا ہے۔ نشے کا عادی شخص دردناک کرب میں لمحہ لمحہ مرتا ہے، اس کی موت صرف اس کی نہیں ہوتی بلکہ اس کی خوشیوں کی ، خواہشات کی اور تمنائوں کی بھی موت ہوتی ہے۔ منشیات کی عادت ایک خطرناک مرض ہے ، یہ خود انسان کو اور اس کے گھر بار کو معاشرے اور پورے ملک وقوم کو تباہ کردیتا ہے۔ اگر ایک بار کوئی نشہ کرنے کا عادی ہوجائے تو وہ پھنستا ہی جاتا ہے اور پھنسنے کے بعد اس کے مضر اثرات کا انہیں ادراک ہوتا ہے۔ہمارے معاشرے میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان اور نفسیاتی مسائل کسی سنگین خطرے سے خالی نہیںجو کہ اب نہ صرف ہائر تعلیمی اداروں اور ہائر سوسائٹی میں ہی نہیں بلکہ جگہ جگہ ایک فیشن کے طور پر سامنے آرہی ہے۔ گائوں کے بچے بھی اس سے محفوظ نہیں ہے، جس کے انتہائی مضر اثرات نمایاں نظر آرہے ہیں، راہ چلتے چھوٹے بچے بھی سگریٹ کا دھواں اُڑاتے دکھائی دیتے ہیں، اکثر بچے اور نوجوان اور والدین کی غفلت اور اُن کے رویہ کی وجہ سے نشے کی عادت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بعض نوجوان غلط صحبت ملنے سے نشے کے عادی ہوجاتے ہیں، کئی اپنے مسائل سے ڈر کر اور کئی حقیقت سے فرار حاصل کرنے کیلئے بھی نشہ کا سہارا لیتے ہیںاور زیادہ تر نوجوان فیشن کے طور پر سگریٹ یا دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتے ہیں، پھر یہ فیشن، یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت بن جاتا ہے اور اس طرح وہ مکمل طور پر نشے کا عادی بن جاتے ہیں، پھر منشیات ان کے دل ودماغ کو مکمل تباہ وبرباد کردیتے ہیںاور وہ ہر وقت نشے میں مدمست رہتے ہیں اور اس کو پورا کرنے کیلئے وہ ہر وہ غلط کام کرنے لگتے ہیں، جہاں سے پیسے حاصل کرسکیں۔ اس طرح اچھے بھلے تندرست و صحت مند نوجوان نسل اپنی زندگی کو تباہی کی دہلیز پر لاکر کھڑا کرتے ہیں۔معاشرے کا حساس ، تعلیم یافتہ اور باشعور حصہ ہونے کے ناطے شہر کے مختلف علاقوں بالخصوص اندرون علاقوں میں نشے کے عادی ، بدبخت افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر دل خون کے آنسوروتا ہے۔ بھارت میں سالانہ پانچ لاکھ سے زائد لوگ نشے کی عادت کی وجہ سے مرجاتے ہیںلیکن کوئی سیاست دان یا کوئی حکمران اس بات کا کوئی سنجیدہ نوٹس لیتا ہی نہیں ہے۔ملک کے مختلف شہروں کی سڑکوں ، گلی کوچوں اور بازاروںمیں نشوں میں دھت لوگوں کے ہاتھوں اشرف المخلوقات کی اس قدر ذلت ، بے توقیری اور بے حرمتی ملک و قوم کے لئے شرمندگی کا باعث بن رہی ہے۔یہی صورت حال اپنی اس وادیٔ کشمیر بھی ہورہی ہے۔ اگرچہ منشیات کے خلاف کام کرنے والے ادارے کاروائیاں بھی کرتے رہتے ہیں تاہم دکھائی تو یہی دے رہا ہے کہ نوجوانو ں میں نشے کا زہر گھولنے والے اور معاشرے کو مفلوج کرنے والوں پر نظر رکھنے اور گرفت کرنے والے ارباب اختیارپوری طرح اپنی خواب ِغفلت سے بیدار نہیں ہورہے ہیں،جس کے نتیجے میں منشیات کی خریدو فروخت اور اس کا استعمال کا سلسلہ کم ہونے کے بجائےبڑھتا چلا جارہا ہے۔