سادیہ ثناء ۔پونچھ
معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت کی حصہ داری اور صنفِ نازک ہونے کے باوجود اس کی ذمہ داریوں اور احسانات سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کیونکہ یک وقت میں وہ کئی سارے کام انجام دیتی ہے۔ متعدد رشتے نبھانے والی یہ عورت کائنات کی وہ ہستی ہے جو جہاں ماں ہوتے ہوئے اپنے بچوں کیلئے جنت کی بشارت دیتی ہے وہیں ایک بیوی ہونے کے ناطے اپنے خاوند کیلئے راحت و سکون کا سبب بنتی ہے۔اس لئے یہ ضروری نہیں بلکہ انسانی معاشرے کے ہر فرد پر یہ لازم ہے کہ وہ عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھے تاکہ معلوم ہو کہ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیا ہے؟اتنا ہی نہیں بلکہ عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو بلند انسانوں کی پرورش کرکے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیسی ہونی چاہئے۔ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔ عورت کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تب معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح کمال کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں۔واضح رہے کہ عورت اور معاشرے میں اس کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کا موضوع قدیم ایام سے ہی مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔
دنیا میں انسانی زندگی کا دار و مدار جتنا مردوں پر ہے اتنا ہی عورتوں پر بھی ہے جبکہ فطری طور پر عورتیں خلقت کے انتہائی اہم امور سنبھال رہی ہیں۔ خلقت کے بنیادی امور جیسے عمل پیدائش اور تربیت اولاد عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔ معلوم ہوا کہ عورتوں کا مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور قدیم زمانے سے ہی معاشروں میں مفکرین کی سطح پر اسی طرح مختلف قوموں کی رسوم و روایات اور عادات و اطوار میں اس پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔ اسی سلسلہ میں آئی پی ایس آفیسر محمد ارشاد جو کہ ایس ایس پی کے عہدے پر فائز ہیں، کا کہنا ہے کہ ’’میں نے ہر جگہ کام کیا، بہت سے علاقوں میں گیا۔لیکن پوری تاریخ میں مختلف معاشروں میں عورتوں کے طبقے پر ظلم ہوتاہی دیکھا ہے۔ یہ انسان کی جہالت کا نتیجہ ہے۔ جاہل انسان کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ اگر اس کے سر پر کوئی سوار نہیں ہے اور کوئی طاقت اس کی نگرانی نہیں کر رہی ہے یا اگر قانون کی تلوار سر پر لٹکتی نہ رہے تو اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ طاقتور، کمزور کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری تاریخ میں ہمیشہ عورت ظلم کی چکی میں پسی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ عورت کی قدر و منزلت اور مقام و اہمیت کو نہیں سمجھا گیا،َجو اس کی شان و شوکت حاصل ہونی چاہئے اورعورت ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔‘‘وہیں ایک اور ریٹا ئرڈ آفسیراور ماہر تعلیم ڈاکٹر ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ’’کوئی بھی سماجی کام اسی وقت صحیح سمت میں آگے بڑھ سکتا اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے، جب غور و فکر، عقل و خرد، تشخیص و توجہ، مصلحت اندیشی اور صحیح و منطقی بنیادوں پر استوار ہو۔ عورت کے مزاج و فطرت سے آشنائی، مرد کے رجحان و رغبت سے آگاہی، عورتوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے واقفیت، مردوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے روشناسی اور دونوں کی مشترکہ باتوں اور خصوصیات کی معلومات کے ساتھ انجام دی جائے،جبکہ غیروں سے مرعوب ہوکر اور اندھی تقلید کی بنیاد پر انجام نہیں دی جانی چاہئے۔ اگر یہ حرکت غیروں سے مرعوب ہوکر، اندھے فیصلے اور اندھی تقلید کی بنیاد پر آنکھیں بند کرکے انجام دی گئی تو یقینا ًضرررساں ثابت ہوگی۔“
وہیں محترمہ اکسیر گلشن جو کہ خود ایک ٹیچر ہیں، کا کہنا ہے کہ’’عورتیں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ لڑکیوں کو پڑھنا لکھنا نہیں چاہئے یہ بالکل غلط سوچ ہے۔ لڑکیوں کو چاہئے کہ اپنے لئے مفید ثابت ہونے والے موضوعات میں ،جن سے انہیں دلچسپی اور لگاؤ ہے تعلیمی سرگرمیاں انجام دیں۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں کہ معاشرے کو لڑکیوں کی تعلیمی قابلیت کی ضرورت بھی بالکل اسی طرح ہے جیسے تعلیم یافتہ لڑکوں کی ضرورت ہے۔ البتہ تعلیمی ماحول صحتمند ہونا چاہئے۔ وہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔اس کے لئے ایک ایسی جدت عمل کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر عورتیں گھروں کے اندر کتابوں کے مطالعہ کرنے کی عادی ہو جائیں۔انسان کو جن چیزوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے وہ ان میں سکون و چین ہے۔اورانسان کی خوش بختی اسی میں مضمر ہے کہ ذہنی تلاطم اور اضطراب سے محفوظ و مطمئن رہے۔ جبکہ انسان کو یہ نعمت صرف کنبے اور خاندان سے ہی مل سکتی ہے،جبکہ عورت ہی ایک کامیاب کنبے اور خاندان کا قیام وجود میں لا سکتی ہے۔ تاہم مرد وں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے ان کا تقدس بھی بحال رکھیں۔ (چرخہ فیچرس)