مصنوعی ذہانت کے بڑھتے قدم | لاعلاج بیماریوںکی مدافعت میں فعالیت ٹیکنالوجی

ڈاکٹر مشتاق حسین

سائنس سے شغف رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا ،جس نے مصنوعی ذہانت کا نام نہ سنا ہو۔بنیادی طو پر مصنوعی ذہانت میں کمپیوٹر کو پہلے سے موجودہ معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ فراہم کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کی بنیاد پہ اس سے کسی بھی مسئلے کے کے محدود معلوما ت فراہم کر کے اس مسئلے کے بارے میں پیش گوئی کروائی جاتی ہے۔مثال کہ طور پر طب شعبے سے وابستہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ چھاتی کے ایکس رےسے تپ دق کی تشخیص کی جاسکتی ہے ۔ لیکن یہ تشخیص ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے اور مرض کی نوعیت میں تبدیلیوں کے باعث بعض اوقات ڈاکٹر غلطی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
اب اگر کمپیو ٹر کو ہزاروں کی تعداد میں صحت مند اور تپ دق کے شکار مریضوں کے ایکسرے کی تصاویر دے دیں جائیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیاجائے کہ کونسے ایکس رےصحت مند انسانوں کے ہیں اور کون سے ایکس رے اور تپ دق کے مریضوں کے ہیں تو کمپیوٹر یہ معلومات اپنے اندر جمع کرلیتا ہے۔
اس عمل کو Machine learning کہتے ہیں، پھر کمپیو ٹر کو اگر ایک نئے شخص کے ایکس رے کی تصویر فراہم کی جائے تو وہ مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس بات کی پیش گوئی کر سکتا ہے کہ یہ ایکس رے صحت مند انسان کا ہے یا کسی تپ دق کے مریض کا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ابتدا تو 1950ء میں برطانوی سائنسدان Alan Turing نے کی لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں اس مضمون نے خاصی ترقی کی ہے اور اس کے اطلاقات میں دن بہ دن ہوش ربا اضافہ دیکھا گیا ہے۔2023ءمیں بھی اس سلسلے میں نئی تحقیقات اور اطلاقات سامنے آئے ہیں۔جن میں سے چند پیش نظر ہیں۔
فروری 2023ءمیں frontiers in science نامی سائنسی جریدے میں شائع ایک تحقیق سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ سائنسدانوں نے انسانوں کے دماغ کی طرح کام کرنے والے خلیات کے مجموعے ، جنہیں brain organoid بھی کہا جاتا ہے کمپیوٹر کو مصنوعی ذہانت کے ساتھ کامیابی سے جوڑ دیا ہے،جس کے باعث ان کے کام کر نے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اب اس طرح کے خلایات کئی لاعلاج ، دماغی بیماریوں کے مریضوں میں منتقل کر کے مفید نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
اسی طرح اپریل 2023 ءمیں سائنسدانوں نے مصنوعی ذہانت اور نینو ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایسے تار بنائے ہیں جو نہ صرف تصویری معلومات کو جمع کر سکتے ہیں لیکن وقت آنے پہ یاداشت کی طرح پیش بھی کر سکتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ انہی اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ روبوٹ کو مختلف کام سر انجام دینے کا پیغام بھی دے سکتے ہیں۔
اپریل 2023 ءمیںJournal of American Medical Association میںشائع ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی ذہانت کے ایک مشہور پروگرامChat GPT ، نے کئی طبی سوالات کے ڈاکٹروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر جواب دیے، جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مستقبل قریب میں Chat GPT یا اسی طرح کے مصنوعی ذہانت پہ بنے ہوئے پروگرام بیماریوں کی تشخیص میں استعمال ہونے لگیں گے۔
اسی طرح مصوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے SARS-CoV-2کے خلاف بننے والی mRNA ویکسین کی ساخت میں سائنسدانوں نے ایسی ترامیم پیش کی ہیں جن سے ویکسین سے پیدا ہونے والی مدافعت میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔ چین کے سائنسدانوں کی یہ تحقیق مئی 2023ءمیں نیچر نامی سائنسی جریدے میں شائع ہوئی۔
رِکازیات اور ارتقاء :۔
یہ بات فطری ہے کہ ابتداء سے ہی انسان کو اپنے آغاز کے بارے میں جاننے میں تجسس رہا ہے۔اس سوال کا جواب تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف تہذیبوں میں مختلف طریقوں سے دیا گیا لیکن جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی رہی اس بنیادی سوال کا جواب نظر آنے والے شواہد کی بنیاد پر ملتا گیا۔ یہ جواب وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط، واضح اور جامع ہوتا چلا گیا کہ نہ صرف انسان بلکہ تمام جانداروں کی ابتداء کی عکاسی کرتا چلا گیا۔ سائنسی لحاظ سے تمام جاندار مستقل طور پہ ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔
کچھ جانداروں میں یہ جینیاتی تبدیلیاں ایسی تبدیلیا ں پیدا کرتی ہیں جن کے باعث ان کی اپنی ماحول سے مطابقت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب کہ کچھ جانداروں میں ان تبدیلیوں کے باعث برعکس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اس عمل کو natural selectionکہا جاتا ہے سائنسی نقطہ نظر کے مطابق کروڑوں سال سے چلنے والےnatural selection کے اسی عمل کے ذریعے ایک سادہ سے جاندار میں بتدیج ایسی تبدیلیاں جمع ہونے لگی کہ وہ بالا آخر پیچیدہ جانداروں میں تبدیل ہو گئے۔ سائنسی نقطہ نظر سے جانداروں کی تمام اقسام اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ جسے مجموعی طور پہ ارتقاء کہا جاتا ہے۔
اگرچہ ارتقاء کاواضح ثبوت جانداروں کے درمیان پائی جانے والی جینیاتی مماثلت ہے لیکن اس کے باوجود ناپید ہونے والے جانداروں کے با قیات جنہیں رکاز یا fossilsکہا جاتا ہے ۔اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 2023میں بھی ارتقاء اور رکازیا ت میں خاصی تحقیقات منظر عام پر آئیں۔ مثال کے طو ر پہ سائنسی جریدے cell genomicsمیں جنوری میں شائع ایک تحقیق کے مطابق پرانے اور حالیہ انسانوں کے جینیاتی مادّے کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ پرانے انسانوں میں جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موجودہ انسانوں میں جراثیموں کے خلاف زیادہ مدافعت پائی جاتی ہے۔ لیکن انہی تبدیلیو ں نے موجودہ انسان کو سوزش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے خلاف زیادہ حساس بنادیا ہے ۔ 2023میں سائنسی جریدے communication biology میں ایک ڈائنا سورز Pinacosaurus grangeriکے رکاز پر تحقیق شائع ہوئی ، جس کے مطابق یہ ڈائنا سورز پرندوں کی طرح آوا زیں بھی نکال سکتے تھے۔ ارتقائی نظریے کے مطابق کرۂ ارض پر پہلی زندگی ایک خلیہunicellular پہ مشتمل تھی پھر کروڑو ں سال میں ہو نے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں وہ بتد ریج کثیر خلوی multicellular جانداروں میں تبدیل ہوگئی۔
البتہ تبدیلی کا یہ نظریہ قارئین کو مد نظر رکھ کر ترتیب دیا گیا تھا ۔ سائنسی جریدے نیچرمیں مئی 2023میں شائع تحقیق میں پہلی دفعہ تجربات کے ذریعے ثابت کیاگیا کہ زمین میں نظر آنے والے کثیر خلوی جانداروں کی ابتدا کس طرح وقو ع پزیر ہوئی۔ ایک اور تحقیق کے مطابق برا عظم افریقا کے کئی حصوں میں انسانوں کی ابتدا تقریباًایک ساتھ ہی ہوئی ۔ اس سے پہلے یہ خیا ل کیا جاتا تھا کہ انسان براعظم افریقا کے ایک خاص حصے میں ہی وجود میں آئے تھے اور وہیں سے ہی پوری دنیا میں پھیلے ۔ اکتوبر 2023 میں سائنسی جریدے proceedings of National Academy of Sciences میں شائع ایک مقالے میں نظریہ ارتقاءکی ایک نئی جہت کی طرف نشان دہی کی گئی ہے، جس کے مطابق ڈارون کے پیش کردہ اس نظریہ کا اطلاق ایٹم، مالیکیول حتیٰ کہ اجرامِ فلکی کی ابتدا اور ارتقاء پر بھی کیا جاسکتا ہے۔