ہلال بخاری
آج ہم اپنے اردگرد ایک نہایت افسوسناک اور کربناک حقیقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں — وہ قوم جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے عظیم امت قرار دیتی ہے، یعنی اُمتِ مسلمہ، آج ہر طرف سے مصیبتوں اور آزمائشوں میں گھری ہوئی ہے۔ چاہے ہم فلسطین کی تباہی و بربادی دیکھیں، جہاں معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے، یا دیگر مسلم ممالک پر نظر ڈالیں جو جنگ، غربت اور انتشار کا شکار ہیں — ہر منظر دل کو دکھ دیتا ہے۔
یہ حالت صرف آج کی نہیں ہے بلکہ صدیوں سے مسلمان مظالم، پسماندگی اور زوال کا شکار رہے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہماری مسلسل شکست، تذلیل اور تنزلی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ میری نظر میں دو بڑے اسباب ہمارے موجودہ زوال کے ذمہ دارہیں۔اول، اتحاد کا فقدان اور داخلی اختلافات، دوم، سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہماری غفلت۔
سب سے پہلے ہمیں اپنے انتشار کو تسلیم کرنا ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے باہمی اختلافات نہ صرف گہرے ہوئے بلکہ نقصان دہ بھی ثابت ہوئے۔ ہم نے فرقہ واریت، قوم پرستی اور مسلکی تعصبات کو اتنی اہمیت دی کہ اُمت کا تصور ہی مٹ گیا۔ قرآن مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیتا ہے، مگر افسوس، آج ہم ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں۔ جب تک ہم ان جھوٹی نفرتوں کو ختم کر کے اخوت اور اتحاد کو اختیار نہیں کریں گے، ہم دنیا میں کبھی باوقار مقام حاصل نہیں کر پائیں گے۔
دوسری بڑی کمزوری ہماری سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیم اور تحقیق سے غفلت ہے۔ جب دنیا نئی ایجادات، تحقیق اور علم کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے، ہم ذہنی طور پر جمود کا شکار ہیں۔ ایک وقت تھا جب مسلمان سائنس، ریاضی، طب، فلکیات اور فلسفے میں دنیا کی رہنمائی کرتے تھے، مگر آج ہم دوسروں کے محتاج بن چکے ہیں۔یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جب تک ہم جدید علوم میں مہارت حاصل نہیں کرتے، اس دنیا میں نہ ہمیں کامیابی ملے گی، نہ ہی احترام۔ صرف نعرے، جذباتی تقریریں یا ماضی کی عظمت کو یاد کر کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں وہی کچھ ملے گا جس کے ہم اہل ہوں گے — اور اس کے لیے محنت، تحقیق اور اتحاد لازمی ہے۔اگر ہم واقعی ایک امت ہیں تو ہمیں اس کا عملی ثبوت دینا ہوگا۔ محض دعوے کافی نہیں۔ ہمیں ایک دوسرے سے محبت، تعاون اور ترقی میں اشتراک دکھانا ہوگا اور سب سے بڑھ کر ہمیں سائنس، ریاضی اور ٹیکنالوجی کو اپنا اوزار بنانا ہوگا۔
عظیم مفکرین اور مصلحین نے بارہا ہمیں جگانے کی کوشش کی، لیکن ہم نے ان کی باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم خواب دیکھنا بند کریں اور عمل کی راہ پر چلیں، ورنہ ہماری زبوں حالی کبھی ختم نہ ہوگی۔اب وقت ہے کہ ہم جاگیں، سوچیں اور ایک ساتھ آگے بڑھیں۔