ہر باشعور انسان بخوبی واقف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر قوام بنایا ہے، مرد کو عورت پر ہر اعتبار سے برتری عطا کی ہے ۔لیکن آج کے جدید دور میں ہر کوئی اپنے حقوق کی جد وجہد کر رہا ہے۔ ایک مرد جو کردار کے حوالے سےشوہر ،باپ،بھائی اور بیٹا ہے، اُس پر شرعی حوالے سے ان تمام کرداروں کا فریضہ ادا کرنا لازم ہےجو کہ اُس پر عائد کئے گئے ہیں، لہٰذا وہ کس سے فریاد کرے اور کس سے اپنا حق مانگیں؟ صبح گھر سے نکلنا اور حصول معاش کی مصروفیات سے فارغ ہوکر شام ڈھلے تھکا ماندا گھر آنا ،پھر گھر آتے ہی گھر کا سودا سلف لانابھی تو اُسی کے ذمے ہے۔ چند دہائیاں قبل باپ ، شوہر ، بھائی اور بیٹا گھروں میں تمام تر ذمہ داریوں کو نبھانے کا کام کیا کرتے تھے ۔ بیٹی ، بہن ، بیوی گھر کے اندورنی ذمہ داریوں کو پورا کرتی تھیں اور ماں کی حیثیت تو قابلِ صد احترام تھی مگر اب تو اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ یورپ کی جدیدیت اور مرد و زن کی مساوی حیثیت کے نعروں نے عورت کو گھروں سے نکال کر مِل ، فیکٹریوں ، دفاتر اور بازاروں میں لا کر بٹھایا ہےتو مرد کا کردار نہ صرف محدود ہو گیا بلکہ عورت اور مرد کا مقدس رشتۂ نظریہ محض ضرورت کا رشتہ بن کر رہ گیا ہے ، اب تو انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے ان رشتوں کو رشتہ بھی نہیں رہنے دیا ہے ۔ لازمی طور پر جب دنیا سمٹ کر موبائل کے اسکرین پر آ گئی ہے تو مشرقی ملکوں کا معاشرہ بھی تیزی سے متاثر ہوا ہے ۔ چند سالوں میں قبائلی علاقوں کو چھوڑ کر شہروں میں رہنے والے خاندان مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ مردوں کا نوجوان طبقہ بے راہروی اور نشہ خوری میں دیوالیہ ہوا جا رہا ہے اور اس دیوالیہ پن کی بنیادی وجہ نا قابلِ بیان وہ ڈرامے ، فلم اور گندے ویڈیوز ہیں جو نوجوانوں کو دنیا اور مافیا سے بے گانہ کر رہی ہیں ۔ مردوں کا وہ طبقہ جو بوڑھے باپ کی صورت میںزندہ ہیں ،اولاد کے لئے ناکارہ وجود کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں اولڈ ایج ہوم کا با ضابطہ نظام کب کاقائم ہوچکا ہے ، اب یہ وباء مشرقی ممالک میں بھی پھیل رہی ہے اور مسلمانوں کا معاشرہ بھی بُری طرح متاثر ہو رہا ہے ۔ جبکہ اسلام میں والدین کے حقوق ادا نہ کرنے والی اولادیں دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر سزا کی مستحق ہیں ۔ظاہر ہےکہ جب ایک مرد شادی کے بعد شوہر بنتا ہے تو زندگی کا بھاری بوجھ اس کے کاندھوں پر آن پڑتا ہے ۔ بد قستی سےجدید دور کی بیویاں پہلے جیسی نہیں رہیں کہ شوہروں کی تابعداری اور خدمت کو اپنا فرض سمجھتی ہوں اور نہ اُنہیں حقوق زوجین کا علم ہے کہ کس کے کیا فرائض اور حقوق ہیں۔ بس وہ اتنا جانتی ہیں کہ وہ مردوں کے برابر حق رکھتی ہیں ۔ یورپ ، امریکہ اور تمام تر نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں میاں بیوی کا رشتۂ نظریہ پہلے ہی ضرورت کا رشتہ بن چکاہے، یہی وجہ ہے کہ شادی اور طلاق میں زیادہ سے زیادہ دو تین سال کا دورانیہ ہوتا ہے اورشادی شدہ جوڑے دوران زوجیت بھی آزاد زندگی گذارنے کے مالک ہوتے ہیں ۔ مشرقی ملکوں اور مسلم دنیا میں آج بھی خاندانی نظام قائم ہے مگر جدید دور نے اس میں شگاف ڈال دیئے ہیں ۔ عرب دنیا میں دولت کی فراوانی نے طلاق اور خلع کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے ۔ ہندوستان ، پاکستان اور بنگلادیش میں ملکی قوانین میں حقوق نسواں کے قوانین نے عورتوں کو عملاً آزاد کر دیا ہے ۔ میاں بیوی کے تنازعات بڑھتے جا رہے ہیں اور طلاق و خلع کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے ۔ آج عورتوں کی اکثریت فیشن زدہ ہو گئی ہے جس نے شوہروں کو بیویوں کے مطالبات پورا کرنے کے لئے کمر توڑ محنت کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ دوسری طرف ورکنگ women کی تعداد میں سرعت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے بیویاں شوہروں کے طابع رہنا تو در کنار ،ان پر فوقیت حاصل کر چکی ہیں ۔ بیویاں ہی تمام گھریلو خرید وفروخت خود کرتی ہے، بازاروں میں یہ منظر عام نظر آتا ہے کہ سودا سلف کی خریداری میںعورتیں کی ہی پسند چلتی ہے اور مرد پیچھے پیچھے بیویوں کے ساتھ گود میں بچہ پکڑے چلتا ہے ۔ اس صورت حال میںمرد اپنی مظلومیت کا رونا کس کے سامنے روئےاور کس سے اپنا حق مانگے ،مگر پھر بھی اپنی اولاد کی محبت میں تمام تکلیفوں کو برداشت کرتا ہےاوراس طرح کے مشاہدے سے یہ عیاں ہورہا ہے کہ اس جدید دور کا شوہر قوام نہیں قیمہ بن چکا ہے ، اسی لئے زن مریدوں کی تعداد بڑھ گئی ہے ۔