میر امتیاز آفریں
دور حاضر میں تعلیم کی اہمیت و افادیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس کے بغیر ایک جدید معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔آج جو عظمت و رفعت انسان نے سائنسی، سماجی، اقتصادی، سیاسی اور اخلاقی شعبوں میں حاصل کر رکھی ہے، یہ سب تعلیم کی برکت سے ہے۔کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی کے لئے یہ ایسی شاہ کلید ہے جس سے سارے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ تعلیم ہی انسان کو پستی سے اُٹھا کر اوج کمال تک پہنچا سکتی ہے۔تعلیم کے ذریعے ہی انسان سازی کا کام انجام دیا جاتا ہے، آنے والی نسلوں کو تیار کیا جاتا ہے، سماج میں ان کے کردار کو متعین کیا جاتا ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے عمل کو مرتبہ کمال تک پہنچایا جاتا ہے۔ہر دور میں انسانی سماج کی مختلف ضروریات ہوتی ہیں اور ان ضروریات کو ہی ترجیحات کے تعین میں نظر میں رکھا جاتا ہے۔ان ضروریات اور ترجیحات کو نظام تعلیم کے مرتب کرنے میں کلیدی حیثیت دی جاتی ہے۔ قران و حدیث میں علم اور تعلیم و تعلم کو بے حد اہمیت دی گئی ہے، بلکہ ہر شخص کے لئے لازمی تعلیم کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ اسلام نے ہر طبقہ کے لئے تعلیم کی حوصلہ افزائی کی ہے، خواہ مرد ہوں یا عورت، بالغ ہوں یا نا بالغ، نیز وہ ہر علم نافع کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے، خواہ مذہبی و اخلاقی تعلیم ہو یا فنی اور سائنسی تعلیم یا کسی زبان کی تعلیم علم کے سلسلے میں اسلام کی حوصلہ افزائی کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں نے بالکل ابتدائی دور میں مدارس کا باضابطہ نظام اور مستقل درسگاہیں قائم کیں، کتب خانے وجود میں آئے اور مسلمانوں نے تحقیق اور سائینس کے میدان میں ایسی سرگرمی دکھائی کہ علم و تحقیق کے مختلف شعبوں میں زبردست کارنامے انجام دئے اور بہت سی ایجادات کو وجود بخشا۔
جب تک مسلمان تعلیم کے ساتھ جڑے رہے وہ دنیا کے فکری اور عملی منظرنامے پر چھائے رہے مگر جونہی انہوں نے تعلیم کے حوالے سے غفلت برتی وہ ہر لحاظ سے پستی اور تنزلی کے شکار ہو گئے۔ اسی لئے موجودہ پستی سے نکلنے کے لئے ہماری سب سے بڑی ترجیح تعلیم ہونی چاہئے۔گویا ہمارا نظام تعلیم ایسا ہو جہاں سے باہنر ،متقی اور باکردار طلبہ تیار کئے جاسکیں جو آگے چل کر ملت و معاشرے نفع بخش ثابت ہوں۔
عصر حاضر سائنسی تحقیقات اور مادی ترقی کا دور ہے اور انسان نےعلم کے تقریباً ہر میدان میں حیرت انگیز بلندیاں سر کی ہیں۔ آج اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سائنس، ادب،سماجیات، سیاسیات، معاشیات وغیرہ جیسے مضامین پڑھائے جاتے ہیںاور ان پر تحقیق بھی کی جاتی ہےتاہم اس قسم کے نظام تعلیم میں اخلاقی اور مذہبی علوم کو عام طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور یوں انسان کو مادی ترقی کے سازو سامان سے لیس تو کیا جاتا ہے مگر اسے انسانی اقدار سے مزین نہیں کیا جاتا۔علمی و سائنسی ترقی کے باوجود آج ہمیں جو سماجی بےراہروی، خود غرضی ، فحاشی و عریانی دیکھنے کو ملتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اخلاقی اقدار کو نظام تعلیم سے بے دخل کر دیا ہے۔
دوسری طرف ہمارے یہاں مدارس کا بھی ایک نظام تعلیم موجود ہے جہاں مذہبی اور اخلاقی علوم تو سکھائے جاتے ہیں مگر جدید سائنسی علوم و فنون سے چشم پوشی کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ایسے لوگ منبر و محراب پر مسلط ہوجاتے ہیں جو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر جدید ذہن کو ایڈریس نہیں کرپاتے۔ان مدارس کے سلسلے میں ہمیشہ جدید طبقہ یہ کہہ کر مطعون کرتا رہا ہے کہ اِن میں ایسے افراد تیار کئے جاتے ہیںجن کا جدید دور میں کوئی مستقبل نہیں بلکہ وہ سماج کے لئے ایک بوجھ ہیں۔دراصل تعلیمی نظام میں دینی و عصری توازن پیدا کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
علوم اپنے انواع و اقسا م کی کثرت کے باعث اس قدر ہیں کہ عام آدمی جس کی زندگی قلیل ہے ،وہ تمام علوم حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مفید علوم کی طرف متوجہ ہو۔ اسلام کے نزدیک نصاب میں وہ علوم شامل کیے جائیں جو دین و دنیا دونوں میں مفید ہوں، جو علم نافع نہ ہو، اس کی تحصیل سے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پناہ مانگی تھی۔ تعلیمی نظام میں عصری تقاضوں کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔دین اور سماج کی ضروریات کے مطابق ہی نصاب مرتب کیا جاتا ہے۔ آج بدقسمتی سے ہم ایسے افراد تیار کرنے سے قاصر ہیں جو ملک میں سرکاری اور پرائیوٹ اداروں اور شعبہ جات میں اعلیٰ پوزیشنوں پر متمکن ہوکر قوم کی فکری اور مالی مدد کرسکیں۔ ملکی دھارے سے ہم آہنگ ہوکر اپنا کردار ادا کرسکیں۔بے روزگاری کا مسئلہ ہمیں گھیرے ہوئے ہے۔ 2018 سے 2024 تک کئے گئے ایک سروے کے مطابق آج ملک میں شرح بے روزگاری اوسطاً سوا آٹھ فی صدی تک پہنچ چکی ہے۔ مسلمان عام طور پر معمولی کام دھندا کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور مشکل سے گزارہ کر رہے ہیں، ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں معاشی طور پر ایمپاور کیا جائے اور اس کے لئے ہمیں اپنے نظام تعلیم میں کچھ تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے اور ایک مربوط نظام تعلیم کو متعارف کرنے کی ضرورت ہے جو دین و دنیا کی ضرورت کو پورا کرنے کا متحمل ہو۔
ملک بھر میں قومی پالیسی برائے تعلیم ۲۰۲۰ کو لاگو کیا گیا ہے جس میں دور حاضر کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر نیا نصاب اور تدریسی ڈھانچہ مرتب کیا گیا ، فنون اور سائنسز کے درمیان، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے درمیان ایک خوبصورت توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تاریخی دستاویز سے مدارس بھی مستفید ہو سکتے ہیں اور جدید تقاضوں کے مطابق ایک مربوط نظام تعلیم مرتب کرسکتے ہیں۔
اسلام علوم کو دینی اور دنیاوی دو حصوں میں تقسیم نہیں کرتا،بلکہ علم نافع اور علم غیر نافع کی تقسیم کرتا ہے ۔جس علم سے اللہ کی معرفت حاصل ہو اور خلقِ خدا کو فائدہ پہنچے ،وہ محمود و مطلوب ہے اور جو علم انسان کو گمراہی اور فسق و فجور میں مبتلا کردے اور خلقِ خدا کے لیے ضرر رساں ہو وہ مذموم اور غیر مطلوب ہے۔لیکن اسلام میں اخلاقی تعلیم کو اولیت حاصل ہے جو ایک فرد کے لئے لازمی ہے اور یہی علم علمِ نافع ہے جو دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی کام آئے گا۔
وہ علم بھی دور ِحاضر میں زبردست اہمیت رکھتا ہے جو انسان کو خود کفیل بناتا ہے اور اسے لینے والے کے بجائے دینے والا بناتا ہے۔ اس حوالے سے پیشہ ورانہ تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔قومی پالیسی برائے تعلیم ۲۰۲۰ بھی پیشہ ورانہ تعلیم کو زبردست اہمیت دیتا ہے۔ اس حوالے سے اے آئی کے اس دور میں کمپیوٹر سائنسز، لینگویج اسکلز اور انٹرپرنیورشپ کی زبردست ضرورت ہے۔ فارغینِ مدارس کی امامت صرف مساجد تک محدود نہ ہو بلکہ وہ ہر محاذ پر قوم و ملت کی لیڈر شپ کے اہل ہوں۔باہنر و باصلاحیت افراد تیار کئے جائیں اور اِسکِل ایجوکیشن کا ایک خاکہ مرتب کرکے اسے لاگو کرنے کی سعی کی جائے۔یہ ایک ایسا قدم ہے جو قوم کی تقدیر کو بدل سکتا ہے۔مدارسِ اسلامیہ کے دائرہ عمل کو وسیع تر بنانے کی ضرورت ہے جو صرف اپنے طلباء پر ہی توجہ مرکوز نہ کرے بلکہ ساتھ ہی تعلیم بالغان ، خواتین کی تعلیم، ووکیشنل تعلیم، گشتی تعلیم وغیرہ کے حوالے سے بھی مثالی کردار ادا کریں۔اسلامی نظام تعلیم خدمت خلق کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔اس حوالے سے ترجیحی بنیاد پرمعاشرے میں معاشی استحکام کے لئے اہل ثروت کو انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین فرمانا، سماج کے بااثر افراد کے ذریعے رفاہ عامہ کی انجمنیں قائم کرنے میں علماء کرام اور مدارس اسلام خصوصی رول ادا کرسکتی ہیں۔ منظم طریقے سے فنڈ ریزنگ کرکے غریبوں اور محتاجوں کی امداد کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، قرضِ حسنہ کے ذریعے محتاجوں کو چھوٹے چھوٹے ہنر سکھائے جاسکتے ہیں، انہیں ایمپاور کیا جاسکتا ہے،فلاحی بنیادوں پر ایسے اسپتال اور میڈیکل کیمپ بنائے جاسکتے ہیں جن میں غریبوں کو مفت علاج اور دوائیاں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ زکوٰۃ اور صدقات کے حوالے سے بیداری کی مہم چلائی جاسکتی ہے جس سے معاشی مسائل کو اجتماعی بنیادوں پر حل کیا جاسکتا ہے۔ہم دنیا کو اپنے عمل سے اسلام سکھائیں، لوگ اسلام کو کتابوں کے بجائے ہمارے اخلاق و کردار سے ہی سمجھنےلگ جائیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے کچھ ادارے بہتر کام کررہے ہیں، لیکن مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے، نجی اسکولوں اور مدارس کے نصابوں میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دینے کے ساتھ عملی مشق کرانے کی بھی ضرورت ہے، تاکہ نوجوان نسل میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے۔ان اہداف کو صرف اس صورت میں حاصل کیا جاسکتا ہے کہ ہم منظم ہوں اور ایک باشعور قیادت کے تحت کام کریںاور اس سمت میں ہمارے اکابرین کو پہل کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ ہم سب کو خدمتِ دین کی توفیق عطا فرمائے۔
[email protected]