محمد ﷺ کی محبت

اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں پیدا فرمایا ہے اور بے شمار نعمتوں سے نوازا، یقینا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ہر لمحہ خدا تعالی کی نعمتوں سے پُر ہے۔ ان نعمتوں کے کچھ تقاضے بھی ہیں، جن میں اول اللہ کی عبادت ہے، جس کا ذکر خود قرآن مجید نے فرمایا ہے۔ان تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا محبت رسولؐ بھی ہے ،جس کا اظہار متعدد آیات کریمہ اور احادیثِ طیبہ سے ہوتا ہے۔ تمام امت محمدیہ سے ایسی محبت مطلوب ہے جیسی اس پوری کائنات میں کسی سے نہ ہو۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالی نے اس قدر جامعیت رکھی ہے کہ کائنات کی ہر شے کا ذکر فرما دیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا نہ ہو‘‘۔ اس قدر جامعیت کے لئے لازم ہے کہ تمام چیزوں کی طرف اشارہ اور کنایہ ہی ہو،لیکن اگر پھر بھی کسی چیز کا خاص طور پر تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے، تو واضح ہے کہ وہ انتہا درجے کی اہمیت کی حامل ہے۔محبت رسول تو ایک ایسا عنوان ہے جسے متعدد جگہ قرآن پاک نے جگہ دی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عشق رسول ایک ایسا عنوان ہے جس کا ذکر آتے ہی ایک عاشق کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور جذبات میں مچلنے لگتے ہیں۔ بلاشبہ عشق رسول ایمان کی جان ہے کیونکہ اصل ایمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل محبت سے اور کامل ایمان آپ کی کامل محبت سے مشروط ہے۔
قرآن پاک کی وہ آیات جن میں رسول اللہ ﷺکے عشق و ادب کی تعلیم روز روشن کی طرح جھلکتی ہے ان میں سے چند آیتیں ہم یہاں ذکر کریں گے۔
۱۔’’تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا، جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان،یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے آئے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا‘‘۔(التوبۃ۹،۴۲) مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے کتنے اہتمام بھی ساتھ محبت رسول کا بیان فرمایا ہے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے آڑے کوئی بھی چیز آئے خواہ وہ مال ہو،گھر ہویا رشتہ دار ہو تو اللہ کا عذاب آنے والا ہے۔
۲۔’’اے ایمان والو!”راعنا“ نہ کہو اور یوں عرض کروں کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘۔(البقرۃ۲، ۴۰۱
اس آیت کریمہ میں محبت رسول کے دو عظیم پہلو ہیں۔ اول یہ کہ اللہ تبارک و تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ادنیٰ سی توہین کا شائبہ گوارا نہ فرمایا،چونکہ صحابہ کرام رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں ہوتے اور جب کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو’’راعنا‘‘ کہتے تھے،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے پھر سے بتاتے۔لیکن یہودی اس اصطلاح کو توہین والے معنی میں استعمال کرتے اور استہزاء کرتے تو اللہ تبارک و تعالی نے ’’انظرنا‘‘ کی ترغیب دی اور’’راعنا‘‘ کہنے سے منع فرما دیا، جب کہ صحابہ کرام کی خیالوں میں معاذاللہ توہین کا شائبہ بھی نہیں آسکتا تھا۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ آگے فرمان جاری ہوا کہ کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے تو یہ وعید محض ان یہودیوں کے لئے نہیں ہے بلکہ اس میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ادنی سی توہین بھی کفر ہے۔
۳۔’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو‘‘۔(الحجرات۹۴،۲)
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالی نے بارگاہ مصطفی کا مکمل ادب سکھا دیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین تو درکنار بلکہ آواز بھی بلند ہو جائے تو اللہ تبارک و تعالی سخت عذاب کی وعید سناتا ہے بلکہ اس عذاب میں بھی اس قدر شدت ہے کہ اس کے سارے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور اسے خبر بھی نہ ہو گی چہ جائیکہ اس کو توبہ کی توفیق ملے۔ دوسرے گناہوں کی سزا میں اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی شدت بیان نہیں فرماتا جس بنیاد پر یہ سزا سخت ترین ہے۔
ان مذکورہ آیات کے علاوہ بھی متعدد بیانات قرآن مجید میں موجود ہیں جو عشق مصطفی اور ادب مصطفی کی تعلیم دیتی نظر آتی ہیں۔ اگر ہم احادیث کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو بیشمار فرامین ملیں گے جو عشق رسول کا درس دے رہے ہیں اور صحابہ کرام کی زندگی میں متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عشق مصطفی کی وہ تعلیم جو قرآن و حدیث میں مذکور ہے ان پر کما حقہ انہوں نے عمل کرکے دکھایا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔’’تم میں سے وہی شخص کامل مومن ہو سکتا ہے جو اپنے والدین،اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت کرے‘‘۔
والدین اولاد اور دیگر قریبی لوگوں سے محبت فطرت میں ودیعت کی گئی ہے اور حدیث پاک کا مضمون ہر گز اس سے منع نہیں کرتا بلکہ یہ حکم اور تعلیم دیتا ہے کہ سب سے زیادہ محبت کی حقدار کوئی ذات ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی زندگی کا اگر ہم مشاہدہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یقیناانہوں نے ان آیات و احادیث پر عمل کرکے دکھایا ہے۔ تفسیر خزائن العرفان میں’’سورہ ئفتح ‘‘کے شان نزول بیان کرتے ہوئے علامہ نعیم الدین مرادآبادی ؒ فرماتے ہیں:’’حضور دست مبارک دھوتے ہیں تو صحابہ تبرک کے لئے غسالہ شریف حاصل کرنے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں، اگر کبھی تھوکتے ہیں تو لوگ اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کووہ حاصل ہو جاتا ہے وہ اپنے چہرے اور بدن پربرکت کے لیے ملتا ہے۔ کوئی بال جسم اقدس سے گرنے نہیں پاتاہے،اگر احیاناجدا ہواتو صحابہ اس کو بہت ادب کے ساتھ لیتے اور جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔جب حضور کلام فرماتے ہیں تو سب ساکت ہوجاتے ہیں، حضور کے ادب و تعظیم سے کوئی شخص نظر اوپر کو نہیں اٹھا سکتا‘‘۔
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے،فرماتے ہیں کہ مدینہ کے باشندوں میں ہنگامی صورت پیدا ہوئی اور افواہ پھیل گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے،ہر طرف چیخ و پکار ہونے لگی تو ایک انصاری صحابیہ حالت احرام میں اپنے گھر سے نکلی اور اپنے باپ، بیٹے،شوہر اور بھائی کی نعشوں کے پاس سے گزری،حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم سب سے پہلے کس کے پاس سے گزری،گزرتے ہوئے اس نے کہا: کون ہے یہ لوگ؟ لوگوں نے بتایا:تیرے باپ، بیٹے،بھائی اور شوہر  ہیں، اس نے پوچھا: حضور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف فرما ہیں، لوگوں نے بتایاکہ تیرے سامنے ہیں، وہ آپ ؐکی طرف بڑھی اور دامن تھام کر عرض کرنے لگی: میرے والدین آپ پر قربان یارسول اللہؐ آپ سلامت ہیں مجھے کوئی پرواہ نہیں۔
مذکورہ روایت میں اس صحابیہ نے جو عمل کی تاریخ دنیا کے سامنے پیش کی ہے،ایسی قربانی شاید آج ہم تصور میں بھی نہ لا سکیں۔ اس واقعے کو پڑھنے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس تحریر میں مذکورہ پہلی آیت کریمہ کی مکمل تصویر ہے۔اس کے علاوہ بھی صحابہ کرام کے متعدد آثار ایسے موجود ہیں جن میں انہوں نے خود کی جان کو قربان کرنا زیادہ بہتر سمجھا لیکن حضور کو کاٹنا چبھنا تک گوارا نہ کیا۔
دور حاضر کا اگر ہم جائزہ لیتے ہیں تو صحابہ کے عشق اور قربانی سے دور تک کا کچھ بھی واسطہ نظر نہیں آتا، محبت رسول ؐکا فقدان بڑھتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے کثیر المیے ہمارے سامنے آرہے ہیں اور آج کی تاریخ میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلم لڑکیاں کافروں کے دام محبت میں آ کر اسلام کو خیرآباد کہہ رہی ہیں۔اس کا سب سے بڑا سبب میں یہ سمجھتا ہوں کہ محبت مصطفی سے دوری ہے۔ انہیں بچپن میں محبت رسول کا جام پلایا ہی نہیں گیا ورنہ کیا وجہ تھی کہ وہ جھوٹی اور فریبی محبت کے دام میں آ کر حقیقی اور دائمی محبت کو الوداع کہہ رہی ہیں۔ یہ تو مسلم ہے وہ دوسرے مذہب سے متاثر ہو کراسلام نہیں چھوڑ رہی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے دلوں میں عشق رسول کا چراغ جلایا ہی نہیں گیا تھا، پھر انھیں اسلام سے محبت کیسے ہوتی،اس کی اہمیت اور اس کے رسول کی اہمیت پتہ کیسے چلتی،اس طرح کے اوربھی دوسر ے المیے ہیں جن کے بارے میں دو ٹوک یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا سبب اور حل دونوں ہی محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
( مرکزی البرکات، علی گڑھ)