یہ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ رمضان المبارک ختم ہونے کے ساتھ ہی کئی لوگوں کی حرارتِ ایمانی سرد پڑجاتی ہے کہ نمازوں کی پابندی سے منہ موڑکر حسب سابق رسمی طور پر صرف جمعہ نمازی بن کر رہ جاتے ہیں، جب کہ رمضان قرآن کی مناسبت سے ایک تاریخی و انقلاب آفرین مہینہ ہے کیونکہ نزول قرآن کا آغاز پہلی بار اسی مہینہ میں ہوا تھا (البقرۃ: ۱۸۵)۔ اس مہینہ میں سب سے زیادہ بلکہ اولین ضرورت یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عظمت قرآن اور اس کے نزول کے حوالے سے تربیتی محفلوں کا اس ماہ میں متواترانعقاد ہو تاکہ لوگ شرعی احکام سے روشناس ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر عملی طور پر بھی پابندی کرنے کی کوشش کریں۔ ائمہ حضرات کو اس بات کی خاص کر فکر کرنی چاہیے کہ مسجدوں میں رمضان کے مہینہ میں لوگوں کی جو بھیڑ امڈ آ تی ہے، اس میں اکثر یت نماز کی بنیادی تعلیمات اور طریق اادئیگی تک سے نابلد ہوتی ہے۔ اس لیے اس طرح کے مسائل کے بارے میں لوگوں کو جانکاری فراہم کرنا ائمہ حضرات کا اہم دعوتی فریضہ ہے ۔ چونکہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ مساجد کا رُخ کرتے ہیں اور نماز پنج گانہ کے علاوہ باجماعت تروایج ادا کرتے ہیں، اس لیے اس مہینہ میں اصلاحی و تربیتی اجتماعات منعقد کرنے کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے تاکہ تمام لو گ نماز پنج گانہ کی مستقل ادائیگی آئندہ بھی ذوق وشوق سے جاری رکھیں۔ اس ضمن میںایک مثال ہمیںاس حدیث نبویؐ سے ملتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ اس شخص نے نماز پڑھی اور پھر آپؐ کے پاس آیا اور سلام کیا، آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: واپس جائو، پھر نماز پڑھوکیونکہ تم نے ٹھیک طرح سے نماز نہیں پڑھی۔ وہ شخص واپس گیا اور پھر نماز پڑھی۔ اس کے بعد پھر آپؐ کے پاس آیا اور سلام کیاتو آپؐ نے بھی سلام کا جواب دیا اور فرمایا، واپس جائو، پھر نماز پڑھو کیونکہ تم نے ٹھیک طرح سے نماز نہیں پڑھی۔ تو اس شخص نے تیسری مرتبہ یا اس کے بعد (چوتھی مرتبہ میں) عرض کیا: اے اللہ کے رسول! (میں اس سے زیادہ اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، اب آپؐ ہی نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ) مجھ کو سکھلا دیجیے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا، جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رخ کھڑے ہوجائو، پھر تکبیر کہو، پھر قرآن میں سے جو کچھ تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو، پڑھو، پھر رکوع میں جائو، اور اطمینان سے رکوع پورا کرو، پھر (رکوع سے) سر اٹھائو، یہاں تک کہ سیدھا کھڑے ہوجائو، پھر سجدہ میں جائو اور اطمینان سے سجدہ پورا کرو، پھر (سجدہ سے) سر اٹھائو، اور اطمینان سے بیٹھو، پھر (دوسرے) سجدہ میں جائو اور اطمینان سے سجدہ پورا کرو، پھر (سجدہ سے) سر اٹھائو، اور اطمینان سے بیٹھو، اور پھر اپنی پوری نماز اسی طرح پڑھو۔ (البخاری حدیث نمبر ۷۵۷/ مسلم حدیث نمبر ۳۹۷/ مشکوٰۃ حدیث نمبر ۷۹۰)
اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے مسجد ہی مسلمانوں کے لیے بہترین تربیت گاہ ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے مسجدوں کا صحیح استعمال کرنے کے بجائے ان کو ہم نے فرقہ بندی کی آماج گاہ بنادیا ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں مسلم علاقوں میں مسجدیں کثرت سے بننے کے باوجود ان میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد برائے نام ہوتی ہے، ایک حدیث کے میںیہ پیش گوئی آئی ہے:’’حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریب ہے کہ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ اسلام سے کچھ باقی نہیں ہوگا، مگر اس کا نام اور قرآن سے بھی کچھ باقی نہیں رہے گا، مگر اس کی رسم، ان کی مسجدیں آباد ہوں گی مگر وہ ہدایت یافتہ لوگوں کے اعتبار سے ویران ہوں گی، ان کے علماء اس وقت آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سب سے بدترین ہوں گے، ان کے پاس سے ہی فتنہ نکلے گا اور انہیں میں لوٹے گا‘‘۔ (البیہقی، حدیث نمبر ۱۹۰۸/ مشکوٰۃ، حدیث نمبر ۲۷۶)
عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ رمضان کے مہینہ میں عبادت کرنے سے سال بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور باقی گیارہ مہینوں میں مستقل طور پر نمازوں کی پابندی کرنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے، اس لیے وہ جونہی شوال کا چاند دیکھتے ہیں تو وہ مسجدوں کو خیر باد کہہ دیتے ہیں ۔ یہ ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے، کیونکہ جب تک شریعت اسلامی کے ہر عمل پر استقامت اور مداومت نہ ہو، وہ عمل عند اللہ مقبول نہ ہوگا اور جو عمل محض وقتی جوش و جذبہ کے تحت کیا جاتا ہے، اس کا اثر بھی وقتی ہوتا ہے، اس لیے ان لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے جو رمضان میں عبادت تو خوب اور پابندی سے کرتے ہیں مگر رمضان کے ختم ہوتے ہی وہ عبادت کو چھوڑ کر اپنی پہلی والی حالت پر آجاتے ہیں اس طرح سے ان کا یہ عمل محض دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ صرف رمضان میں نماز پنج گانہ پڑھنے والوں کے روزوں کے بارے میں علمائے عرب کا یہ فتویٰ انتہائی چشم کشا ہے: ’’نماز ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے اور یہ شہادتین کے بعد سب سے اہم رکن ہے اور فرض عین ہے، جس نے اس کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے اسے چھوڑا یا سستی و کوتا ہی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا، یقینا اس نے کفر کیا، اور جو لوگ رمضان میں روزے رکھتے ہیں اور صرف رمضان میں ہی نماز ادا کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ انتہائی بدترین وہ قوم ہے جو اللہ تعالیٰ کو صرف رمضان میں ہی پہچانتی ہے۔ ایسے لوگوں کے روزے درست نہیں ہیں جو رمضان کے علاوہ نماز چھوڑے رکھتے ہیں بلکہ یہ لوگ اس کے ساتھ کفر اکبر کرنے والے ہیں، اگرچہ وہ نماز کے وجوب کا انکار نہیں کرتے، علماء کے اقوال میں سے زیادہ صحیح یہی ہے‘‘۔ (روزوں کی کتاب، ص: ۴۰)
مطلب یہ کہ جو لوگ رمضان میں نماز پنجگانہ کی پابندی کرتے ہیں، دعائیں بھی کثرت سے مانگتے ہیں، توبہ واستغفار بھی خوب کرتے ہیں اور آئندہ شرعی احکام کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد و پیمان بھی کرتے ہیں مگر جونہی رمضان ختم ہوجاتا ہے تو وہ توبہ واستغفار اور عہد و پیمان کو بھی بھول جاتے ہیں اور وہ پھر انہی برائیوں اور غفلتوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں جو وہ رمضان سے پہلے کرتے رہے ہوتے ہیں۔ اس سے یہی تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کے روزے او رنماز عند اللہ قبولیت کے درجہ کو نہیں پہنچی ہیں کیونکہ اگر وہ قبول ہوئے ہوتے تو ان کے اثرات بھی ان پر تادیر قائم رہتے۔ اس طرح کے لوگوں کی روزوں اور نمازوں کی عند اللہ کوئی وقعت وقبولیت حاصل نہیں ہوتی۔ احادیث نبوی ؐمیں ایسے لوگوں کے بارے میں سخت وعید آئی ہے بلکہ ان کے قیام و صیام سب ضائع ہونے والا بتلایا گیا ہے۔ مشکوٰۃ میں سنن ابن ماجہ اور سنن دارمی کے حوالے سے صحیح سند کے ساتھ ایک حدیث اس طرح آئی ہے:حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزے سے پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا اور کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے ہیں جنہیں اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
یہ حدیث شریف بہت ہی جامع اور اپنے مفہوم میں بھی بالکل واضح ہے۔ مطلب یہ کہ جو لوگ رمضان کے بعد نمازوں اور مساجد کو خیر باد کہہ دیتے ہیں تو ان لوگوں کو رمضان میں سخت محنت کے باوجود بھوک پیاس اور راتوں کو جاگنے کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں کیونکہ رمضان کے بعد نمازوں کو چھوڑنا ہی اس تلخ حقیقت کا ثبوت ہے کہ ان سے مقاصد صیام سمجھنے میں بھول ہوئی ہے، اس لیے ظاہر ہے ان کی مہینہ بھر کی محنت رائیگاں ہوگئی۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر رمضان کے صیام و قیام کو بچانا ہے تو ضروری ہے کہ نمازوں کی پابندی کی جائے اور عمل و کردار کی اصلاح کے اعتبار سے روزوں کی وساطت سے جو عہد و پیمان اللہ سے کیا ہے، اس کے مطابق زندگی گزارنے پر استقامت کی جائے ۔ اس سلسلہ میں یہ دعائے ابراہیمی ؑ کا بھی خصوصیت سے ورد کیاجائے:اے ہمارے رب !مجھے نماز قائم کرنے والا بنا، اورمیری اولاد کو بھی، اے ہمارے رب، میری دُعا قبول فرما، اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین اور مومنوں کو اس دن بخش دے جس دن حساب قائم ہوگا ؎
بے نمازو، کیا غضب کرتے ہو تم
حق تعالیٰ سے نہیں ڈرتے ہو تم
کچھ نہ اپنے رب کی تم نے یاد کی
عمر اپنی مفت میں برباد کی
سر جھکا، کاہل نہ ہو، اٹھ تو سہی
بندہ ہونے کی علامت ہے یہی
رابطہ :آنچار (صورہ) سرینگر کشمیر ۱۹۰۰۱۱
فون نمبر 9419734878