یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ جموں و کشمیر میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادبے روز گاری کے باعث مایوسی اور نا امیدی کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے،جواس اہمیت کو مقدم بنادیتی ہے کہ یہاں کی حکومتوں کو اپنی وضع کردہ پالیسیوں میں نوجوانوں کو درپیش مسائل کا حل اوراُن کی ضروریات و خواہشات کو مدنظر رکھناانتہائی اہمیت کا حامل ہے۔گذشتہ ایک دہائی سےہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے نوجوانوںکو درپیش مسائل کو دور کرنے کے لئے جن بعض سکیموں کا اعلان کیا گیا یا کوئی قدم اٹھایا گیا۔اُن میں اکثر نوجوانوں کے لئے کھیل سرگرمیوں میں شامل ہونےکی پالیسیاںشامل ر ہیں۔بے شک ان سرگرمیوں سے کچھ نوجوانوں کی خواہشات اور ضروریات پورےہوئے ہوں، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیںکہ اسی پالیسی کے تحت نوجوانوں کے مسائل دور ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے جو بھی کوئی پالیسی مرتب ہوئی، وہ نوجوانوں کے روزگار کے حوالے سے اس قدر موثر یا مثبت ثابت نہیں ہوسکی، جس سےاُنہیںدرپیش مصائب و مشکلات سے نجات حاصل ہوئی ہو۔ اگرچہ نئی تعلیمی پالیسی میں اُبھرتے ہوئے رجحانات کا خیال رکھا گیا تاکہ نوجوان اُن رجحانات سے نمٹنے کے لیے بہترین طریقے سے لیس ہوں۔لیکن حکومت نےآبادی کے ہر حصے، ہر طبقے اور ہر فرقےکے بارے میں فکر مندی کا مظاہرہ نہیں کیا ،خصوصاً معاشرے کے نوجوان نسل کے لئے،جس کے ساتھ اس قوم کا مستقبل وابستہ ہے۔با ایں ہمہ نوجوانوں کی زندگی کے اس مرحلے میںتوانائی کی سطح غیر معمولی ہوتی ہے ، اُس توانائی کو بھی صحیح طریقے سے استعمال نہ کیا گیا ،جس کے نتیجے میںپورے معاشرےمیں مختلف پریشانیوں نے جنم لے لیا ہے۔ اگرنوجوانوںکی اس توانائی کو بہتر اورمثبت طریقےسے استعمال کیا گیا ہوتاتو بے شک بیشترافراد کے لئے روشن مستقبل، خاندانوں کے لئے خوشخبری اور معاشرے کے لئے خاطر خواہ ترقی یقینی بن چکی ہوتی۔حق تو یہی ہےکہ اگر ہمارے نوجوان صحیح راستے ہوں گے تومجموئی طور پر ہمارے لئے مستقبل محفوظ ہوگا۔ اب جبکہ جموں و کشمیر میں انتخابات کا نتائج آج بعد دوپہر تک منظرِ عام پر آئے ہونگے اور اس کے بعد جو بھی حکومت اقتدار سنبھالے گی ،اُس حکومت کے لئے لازم ہےکہ وہ پہلی فرصت میںتعلیم یافتہ نوجوانوں کے درپیش مسائل کی طرف متوجہ ہوجائےاور ایسی ہمہ وقت پالیسیاں بناکر اُن پر عملدرآمد کرائیںجن سے نوجوانوں کو مایوسیوں اور ناامیدیوں سے نجات حاصل ہوسکے۔اسکے لئےجہاں کھیلوں کے لئے ایک اچھا انفراسٹرکچر، تفریح کے لئے جگہیں بنانےکی ضرورت توہوگی ، لیکن خصوصیت کے ساتھ یہاں کے تعلیمی اداروں میں ایک ایسا ماحول قائم کرنا ہوگا،جس سے ہمارے نوجوان ایک نتیجہ خیز اور بامقصد زندگی کویقینی بنا سکیں۔ہمارے یہاںایسے کورسز کی ضرورت ہے جو مختلف دلچسپیوں کو حل کر سکیں۔یہاں ایسے روزگار کے پروگراموں کی ضرورت ہے جو ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کو جذب کر سکیں۔یہاںایسے کاروباری اوراختراعی صنعت کاری پروگراموں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو ہمارے نوجوانوں کو راغب کر سکیں اور انہیں ایسی سرگرمیوں میں شامل کر سکیں جو بہت چھوٹی عمر میں ان کے مالی تحفظ کو یقینی بنائیں۔چنانچہ آج تک جموں و کشمیر میں جتنی بھی حکومتیںآتی اور جاتی رہیں،اُنہوں نے اس سمت میں کوئی ایسا موثرقدم نہیں اُٹھایا ہے ،جس کا ذکر کیا جاتا۔اس وقت یہاں بیروزگاری کی شرح ملکی سطح پر سب سے زیادہ ہے ۔10لاکھ سے زائد نوجوانوں بیروزگاری کی چکی میں پسے جارہے ہیں اور اُن کی توانائی او ر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز حکمت عملی سامنے نہیں آچکی ہے۔ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ جب ہمارا نوجوان بے کاری کی وجہ سے ذہنی تنائو کا شکار ہو تو وہ مایوسی کے عالم میں کچھ بھی کرسکتا ہے ۔آنے والی حکومت کو یہ بات ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں پر ہمہ جہت توجہ سے ہی اجتماعی سطح پرجموں و کشمیر کا روشن مستقبل یقینی بنایا جاسکتا ہے۔جس کے لئے نوجوانوں کو مایوسی کے دلدل سے نکالنا انتہائی ہوگا اور اُن کی توانائیوں کو ہر سطح پربروئے کار لانا ہوگا ،ورنہ آنے والی حکومت کی بھی کوئی پالیسی بہتر اور کارگر ثابت نہیں ہوسکے گی اور نہ ہی اُس کاکوئی اقدام کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔