گراں بازاری نے لوگوں کی کمر توڑ کررکھ دی ہے ۔اس صورتحال میں یہاںایک سیدھا سا سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ ہمارے پاس مارکیٹ کے معائنہ کا ایک موثر نظام موجودکیوں نہیں ہے جو اس بات کو یقینی بناتاکہ صارفین کا کوئی استحصال نہیں ہو۔وہ کون سی نظامی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے زیادہ قیمتیں وصولنا اور دیگر بددیانتیوں کا یہ مسئلہ ہمارے بازاروں سے ختم ہونے کانام نہیں لیتا۔اس بات سے بھی قطعی انکار نہیں کہ سارے تجارت پیشہ مخصوص مواقع کا فائد ہ اٹھاکر صارفین کو لوٹنے کا کام نہیں کرتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بڑا طبقہ تاجر برادری میں موجود ہے جو لین دین کرنے ک دوران اس طرح کے غلط طریقوں کا سہارا لیتاہے۔جہاں تک سرکاری نظام کا تعلق ہے تو بلا شبہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس ایک سے زیادہ محکمے موجود ہیں جن کا کام ہی مارکیٹ میں قیمتوں کو اعتدال پر رکھنا اور اشیاء کا معیار برقرار رکھنا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ محکمے اور ان کے کارندے مفت کی روٹیاں توڑنے میں ماہر بن چکے ہیں اور وہ حقائق سے چشم پوشی اختیار کرکے غریب کو لٹتا ہوا دیکھنے میں شاید لطف اٹھاتے ہیں۔بازاروںکا معائنہ کرنے اور اس طرح کے طریقوں کو روکنے کے لئے انفورسمنٹ اہلکاروںکو تیار رہنا چاہئے تھااور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے تھا کہ اشیاء کی قیمتیں من مانی طور پر مقرر نہ ہوں لیکن چار روز گزر جانے کے باوجود بھی نہ محکمہ ناپ تول کے لوگ کہیںہیں اور نہ ہی امور صارفین و عوامی تقسیم کاری محکمہ کے اہلکار نظر آرہے ہیں۔شہر اور قصبہ جات میں میونسپل حکام بھی غائب ہیں جبکہ گائوں دیہات میں محکمہ مال کے حکام و اہلکار بھی گہری نیند سوئے ہوئے ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ کالابازاری عروج پر ہے ۔اگر متعلقہ محکموں کی ٹیمیں حرکت میں آجاتیں تو یقینی طور پر قیمتیں اعتدال میں آجاتیں جس کا فائدہ عام صارفین کو ملتا لیکن ہمارے یہ سرکاری کارندے یہ کھلی لوٹ شاید دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔متعلقہ محکمہ کی ٹیموں کے ذریعہ کئے گئے بازار کے معائنے سے صارفین میں ایک حد تک اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مارکیٹ کے معائنہ باقاعدگی سے اور موثر ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس طرح کے معائنے بہت کم ہوتے ہیں۔جب مارکیٹ چیکنگ کو معمول نہ بنایا جائے تویہ مارکیٹ میں غلطی کرنے والے عناصر کو کچھ حد تک استثنیٰ کے ساتھ قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت عطا کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ از خود قیمتوں میں اضافہ کرنے کے گناہ کی کوئی سزا نہیں ملتی او ر یوں اس طرح کا گناہ کرنا معمول ٹھہرتا ہے اور پھر کالابازاری یا ایسی لوٹ کھسو ٹ کوئی جرم ہی تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر متعلقہ حکام متحرک ہوتے اور مارکیٹ کی مسلسل بنیادوں پر چیکنگ کرتے تو کوئی بھی صارف کا استحصال کرنے کی جرأت نہ کرتا۔خاص مواقع پرمارکیٹ کا ہونے والا ایک اچانک دورہ متعلقہ حکام کو خبروں میں لاسکتا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں نکلتا کیونکہ صارفین کو ایسے نمائشی دوروں سے کوئی راحت نہیں ملتی۔ یہ بازاروںمیںصرف ایک ہمہ وقت اور موثر نگرانی ہی ہے جو اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ دکاندار مناسب نرخوں پر قائم رہیں۔جو چیز متعلقہ حکام کی اس کام میں مدد کر سکتی ہے وہ ہے تاجر انجمنوں کو ایسے معاملات پر حساس بنانا۔ ایسے تاجر اور انجمنیں ہیں جن کی مدد اس طرح کی بددیانتی سے لڑنے میں حاصل کی جا سکتی ہے۔اس عمل میںمیڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچنابھی لازمی ہے اور عوام کو اپنے حقوق سے آگاہ کرنا ہے ۔جب صارف جاگ جائے تو وہ اپنے حقوق کیلئے بھی لڑے گا اور جب نرخناموں کی وسیع تشہیر یقینی بنائی جائے تو صارفین کو بھی پتہ ہوگا کہ اصل قیمتیں کیا ہیںا ور بازار میں دکانداروں نے ان میں کتنا اضافہ کررکھا ہے ۔اس سے لوگ اصل قیمت پر خریداری کا تقاضا کریں گے اور نتیجہ کے طور پر اس تجارتی بددیانتی پر قابو پایا جاسکے گاجس سے صارفین کو یقینی طور پر راحت ملے گی اور تجارت بھی ایمانداری سے ہوگی۔