معصوم مراد آبادی
آج بابری مسجد کیس کے وکیل ظفریاب جیلانی ایڈووکیٹ کی پہلی برسی ہے۔ انھوں نے آج ہی کے دن 17؍مئی 2023کو لکھنؤ میں وفات پائی تھی۔ وہ بظاہر ایک ماہرقانون داںتھے ، لیکن ان کی انگلی ہمیشہ ملت کی نبض پررہتی تھی۔انھوں نے بابری مسجد کامقدمہ جس دل جمعی اور استقامت کے ساتھ لڑا ، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ مقدمہ ہارنے کے بعد وہ اندرسے ٹوٹ گئے تھے ، لیکن کسی پر اپنا کرب ظاہرنہیں ہونے دیتے تھے۔ تحمل اور بردباری ان کے مزاج کا خاصہ تھی اورمشتعل کرنے والی ہر بات کا جواب نرمی اور حکمت سے دیتے تھے۔انھوں نے آزادہندوستان میں مسلمانوں کی تین بڑی تحریکوں میں سرگرم حصہ لیا اور مخالفین کے تیر بھی سہے لیکن وہ کبھی اپنے محور اور موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا معاملہ ہو یا مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کا ، یا پھر بابری مسجد بازیابی کی تحریک۔ وہ ان تینوںتحریکوں کا لازمی جز تھے۔ ان کی معاملہ فہمی بھی سب سے جدا تھی۔لاکھوں صفحات پر محیط بابری مسجد کا مقدمہ انھیں ازبر تھا اور جب وہ اس کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کرتے تو دیکھتے ہی بنتا تھا۔
برسوں پرانی بات ہے ۔میں ایک دن لکھنؤ میں ان کے دولت خانہ پر محوگفتگو تھا ۔ اچانک ایک فون آیا اور وہ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ’’ چلو سدھارتھ شنکر رے کے پاس چلتے ہیں۔‘‘ملک کے مایہ ناز قانون داں سدھارتھ شنکررے اس وقت بابری مسجد کیس کی مفت پیروی کررہے تھے اور اسی سلسلہ میں ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے روبرو بحث کے لیے آئے ہوئے تھے۔جیلانی صاحب نے میرے سامنے بڑے سلیقہ سے کئی گھنٹے انھیں بابری مسجدمقدمہ کے اسرارو رموزسمجھائے ۔ ظفریاب جیلانی پیشے سے وکیل ضرور تھے ، لیکن ان میں وکیلوں جیسی طمع نہیں تھی، نہ ہی انھوں نے کبھی دولت کا تعاقب کیا ۔ ان کا سب سے بڑا سروکار ملّی امور تھے جنھیں حل کرنے کی جدوجہد میں وہ ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔ بابری مسجد بازیابی تحریک کے دوران میں نے کوئی تین دہائیوں تک انھیںبہت قریب سے دیکھا۔ وہ ہمہ وقت اپنے کاموں میں لگے رہتے تھے۔ غیرضروری باتوں سے انھیں کبھی کوئی سروکار نہیں رہا۔ہاںتمباکو والاپان کھانا ان کی واحد کمزوری تھی ۔شوگر کے موذی مرض نے ان کی صحت اور دانتوں کو بھی متاثر کیا تھا۔ دن بھر عدالتی کام نپٹانے کے بعد شام کو لال باغ میں واقع اسلامیہ انٹر کالج کے آفس میں آجاتے تھے اور یہاں دیر تک کام کرتے تھے۔
دوسال قبل مئی 2021میں اسلامیہ انٹر کالج کی ہی سیڑھیوں سے اُترتے وقت ان کے دماغ میں شدید چوٹ لگی تھی اور وہ برین ہیمریج کا شکار ہوگئے تھے۔ اس دوران کورونا نے بھی انھیں اپنی گرفت میں لے لیا تھا ۔لکھنؤ کے میدانتا اسپتال میں دماغ کے آپریشن کے بعد وہ بظاہر صحت یاب نظر آنے لگے تھے ،لیکن ان کی یادداشت کام نہیں کررہی تھی ۔ اچانک ان کی طبیعت بگڑی تو انھیں لکھنؤ کے نشاط اسپتال میں داخل کرایا گیا ، جہاں انھوں نے 17مئی 2023 کی دوپہر آخری سانس لی۔
ظفریاب جیلانی کی سب سےبڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے اپنی محنت اوراخلاص سے ہر ملی تنظیم میں اپنے لیے جگہ بنائی تھی ۔انھیں مختلف الخیال ملی گروپوں میں یکساںقدرومنزلت حاصل تھی ۔وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سیکریٹری اورملی کونسل کے بھی عہدیدار تھے۔ لکھنؤ کے بیشتر تعلیمی اور سماجی اداروں کے وہ سربراہ تھے۔وہ ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو کے بھی معتمد خاص تھے ۔ انھیں سماجوادی دور حکومت میں ریاست کا نائب ایڈووکیٹ جنرل بنایا گیا تھا۔سابق وزیراعظم وی پی سنگھ اور چندر شیکھر سے بھی ان کے گہرے مراسم تھے۔مجھ سے خاص محبت کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ مشہورشاعر ملک زادہ منظوراحمد کے انتقال کے بعد لکھنؤ میں ظفریاب جیلانی کی صدارت میں ایک بڑا تعزیتی اجلاس ہوا تھا ۔ میں بھی اسٹیج پر موجود تھا۔ انھیں کسی ضروری کام سے جانا تھا ، اس لیے قبل ازوقت تقریر کرکے یہ کہتے ہوئے صدارت کا بوجھ میرے کاندھوں پر ڈال گئے کہ ’’معصوم ملت کے آدمی ہیں۔‘‘
ظفریاب جیلانی 1950میں لکھنؤ کے مشہورقصبے ملیح آباد میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کیا۔ طالب علمی کے دوران70کی دہائی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی تحریک میں حصہ لیا ۔یہاں ان کے سرگرم ساتھیوں میں پروفیسر اخترالواسع، جاوید حبیب،بصیراحمدخاں، اعظم خاںاور زیڈ کے فیضان وغیرہ شامل تھے۔بعدازاں انھوں نے اپنے دیرینہ رفیق جاوید حبیب کے ساتھ مل کر 1982میںمسلم یوتھ کنونشن کی بنیاد ڈالی اور اس کے بانی صدربنے۔ شاہ بانو معاملے میں مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی تحریک میں بھی شریک رہے۔انھوں نے مرحوم سلیم پیرزادہ کے ساتھ مسلم ریزرویشن کی تحریک میں بھی حصہ لیا، مگر ان کی اصل شہرت بابری مسجد کیس کے وکیل اور ایکشن کمیٹی کے کنوینر کے طورپر ہوئی۔
1986میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد لکھنؤ میں جو ایکشن کمیٹی بنی تھی ، ظفریاب جیلانی اس کے بانی کنوینر تھے۔ان سے میری بیشتر ملاقاتیں اسی تحریک کے مختلف پروگراموں کے دوران ہوئیں۔ دہلی میںہونے والی مرکزی ایکشن کمیٹی کی میٹنگوں میں ان کا کردار کلیدی نوعیت کا تھا۔وہ میٹنگ کے دن تمام ضروری کاغذات کے ساتھ ایڈووکیٹ مشتاق احمدصدیقی اور عبدالمنان کے ساتھ لکھنؤ میل سے علیٰ الصباح دہلی کے اشوکا روڈ پرواقع سلطان صلاح الدین اویسی کی کوٹھی پرپہنچ جاتے تھے۔یہی کل ہند بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا صدر دفتر بھی تھا۔میٹنگ کے خاتمہ پر وہی انگریزی میں ایک پرانے ٹائپ رائٹر پر اس کا پریس نوٹ تیار کرتے تھے۔ مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ اس پریس نوٹ کو انگریزی اخبار ات کے دفاتر تک پہنچاؤں ۔اس زمانے میں ای میل اور فیکس کی سہولت نہیں تھی اور ایکشن کمیٹی کے پاس کوئی عملہ اور وسائل بھی نہیں تھے، اس لیے پریس ریلیز کو دستی طورپر اخباروں کے دفتروں تک پہنچانا میرے ذمہ تھا ۔ان میٹنگوں میں مولانا مظفرحسین کچھوچھوی،سلطان صلاح الدین اویسی، اعظم خاں، سید احمدبخاری ،جاوید حبیب، ڈاکٹر شفیق الرحمن برق اور مولانا ادریس بستوی وغیرہ شریک ہوتے تھے۔
بابری مسجدرابطہ کمیٹی اور ایکشن کمیٹی کی مشترکہ میٹنگیں بھی اکثر اویسی صاحب کی اسی کوٹھی میں ہوتی تھیں۔ ان میں سیدشہاب الدین کے علاوہ مولانا سیداحمدہاشمی، مولانا افضل حسین اور مولانا شفیع مونس بھی شامل ہوتے تھے۔ جب کوئی وفد حکومت سے مذاکرات کے لیے جاتا تھا تو اس میں مسلم لیگ کے صدر ابراہیم سلیمان سیٹھ اور جنرل سیکریٹری غلام محمود بنات والا بھی شریک ہوجاتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ ایک موقع پر ایکشن کمیٹی اور بابری مسجد رابطہ کمیٹی کے ممبران کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ یہ سلسلہ کافی دنوں تک جاری رہا۔ اسی درمیان ایک موقع پر سیدشہاب الدین نے مجھ سے کہا تھا کہ’’ یادرکھناظفریاب جیلانی کی شناخت ایک دن اہم مسلم لیڈر کے طورپر ہوگی۔‘‘سید شہاب الدین کی یہ پیشین گوئی درست ثابت ہوئی ۔وہ جیلانی صاحب کے ہوم ورک اور معاملہ فہمی سے بہت متاثر تھے۔ظفریاب جیلانی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کا ہوم ورک بہت مضبوط ہوتا تھا۔ وہ ریکارڈ اور فائلوں کو بھی بہت حفاظت سے رکھتے تھے۔ ایک ایک کاغذ ان کی یادداشت میں محفوظ رہتا تھا۔ان کے انتقال سے ملت اپنے ایک مخلص رہنما سے محروم ہوگئی ہے۔ان کی ملی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
[email protected]