میری قوم کو بتا دو کہ ان کی گلیوں میں ہماری بہو بیٹیاں اب محفوظ نہیں ہیں۔ میری قوم کے لوگوں کو بتا دو کہ ان کی گلیوں میں اب بھیڑیے رہتے ہیں۔ میری قوم کو بتا دو کہ وہ بے ضمیر ہو چکی ہیں۔ اس کا ضمیر مر چکا ہے۔ میری قوم کو بتا دو کہ وہ انسانیت کے بلند و بالا رتبے سے گر چکی ہیں۔ انسان جس کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا گیا تھا وہ بھیڑیے سے بھی بدتر بن چکا ہے، انسانیت ختم ہوچکی ہیں، اُس کا اب کہیں نام و نشان نہیں، انسانیت شرمسار ہو گئی ہے۔ انسانیت تار تار ہوگئی ہے۔ انسانیت داغ دار ہو چکی ہیں۔ انسانیت کا جنازہ نکالا گیا۔
انسان صرف نام کا انسان رہ گیا ہے، اُس میں انسانی صفات موجود نہیں ہیں۔ ایک بے ضمیر بدمعاش درندے نے تشدد کرکے ایک معصوم لڑکی کی زندگی تباہ و برباد کر دی۔ تشدد جی ہاں تشدد کیونکہ تشدد صرف ایک قسم کا نہیں ہوتا، اُس کی ہزاروں قسمیں ہوتی ہے اور کسی معصوم پر تیزاب پھینک دینا تشدد کی سب سے گھٹیا اور گھناؤنی حرکت ہے۔ آپ یقین کریں ،دل خون کے آنسو روتا ہے اور وہ لمحہ نہایت ہی کرب ناک ہوتا ہے، جب یہ خبر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں جگہ کسی شخص نے ہماری بہن یا بیٹی پر تیزاب یا اس جیسی کوئی بھیانک شٔے چھڑک کے اس کی زندگی کو تا دمِ مرگ عذاب بنا دیا۔ گزشتہ دنوں وادئ کشمیر میں بھی ایک ایسا ہی دلدوز حادثہ پیش آیا، جس نے تمام وادی کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک معصوم لڑکی جو کہ دنیا کے فتنوں سے بے خبر، اپنے بابا کی لاڈلی، ماں کی دُلاری ہے، اُس پر دن دھاڑے سرِ بازار میں تیزاب پھینکا جاتا ہے! کیوں؟ کیونکہ وہ لڑکے کی محبت سے انکار کرتی ہے اور لڑکا بھی کیسا گھٹیا ،جو اَنا میں آکر اُس کی پوری زندگی برباد کر دیتا ہے۔ کیا ایسے ہوتے ہیں محبت کے دعوے دار؟ کیا یہ ہوتی ہیں محبت؟ اس لڑکی کی جو زندگی تباہ ہوگئی کیا اُس کا ذمہ دار صرف ایک لڑکا ہے یا پھر یہ پوری قوم؟ کیونکہ جب وہ لڑکا اُس لڑکی کا پیچھا کر رہا تھا، تو کسی بھی صاحبِ بشر کا اس طرف دھیان نہیں گیا کہ لڑکی کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ ہم لوگ دوسروں کی بیٹیوں کو ہمیشہ پرائی نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں؟ یہ کیوں نہیں سوچتے، آج کسی اور کی بیٹی کے ساتھ ظلم ہورہا ہے تو کل ہماری بیٹی بھی ہو سکتی ہیں۔ ہم لوگ اس وقت کچھ دھیان کیوں نہیں دیتے جب ظلم پنپنے لگتا ہے؟ ہم ہمیشہ کوئی حادثہ پیش آنے کے بعد ہی کیوں واویلا مچا دیتے ہیں؟ پہلے کیوں بے حس رہتے ہیں؟ کیا ہماری حکومت ہمارا قانون اس کا ذمہ دار نہیں۔ کیونکہ یہ پہلا حملہ تو نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کئی بار کشمیر کی بچیوں پر تیزاب کے حملے ہوچکے ہیں۔
وادئ کشمیر میں پہلی بار 2 جنوری 2013 میں سرینگر کے چھانہ پورہ سے تعلق رکھنے والی ایک اسکول ٹیچر پر تیزاب کا حملہ ہوا، اُس کے بعد 11 ستمبر 2014 میں نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ پر تیزاب پھینکا گیا تھا، پھر 5 اکتوبر 2021 میں ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والی ایک اور طالبہ پر تیزابی حملہ کیا گیااور آج 1 فروری 2022 میں ایک اور طالبہ کواسی حملے کا شکار بنایاگیا۔
اب سوال یہ ہے کہ گزشتہ تیزاب متاثرین کے ملزم کہاں ہیں؟ کیا انہیں پکڑا بھی گیا تھا؟ سزا تو بہت دور کی بات ہیں۔خدا گواہ اگر پہلا تیزاب حملہ کرنے والے ملزم کو عبرت ناک سزا دی گئی ہوتی تو کبھی کوئی دوسرا ملزم پیدا نہیں ہوا ہوتا۔ایک کو سزا مل گئی ہوتی تو دوسرا جرم کرنے سے پہلے اپنے بارے میں ضرور سوچتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2014 سے لے کر 2018 تک ہندوستان میں 1483 تیزاب کے حملے ریکارڈ کئے گئے ہیں۔
ایک ہنستی کھیلتی بچی جو کل تک بڑی خوش باش زندگی گزار رہی تھی، آج وہ ایک تیزاب متاثر بن چکی ہیں، چہرہ بگڑنے کے ساتھ ساتھ اپنی بینائی تک کھو چکی ہیں۔ اُس پر کیا گزر رہی ہوگی۔ اس کے والدین پر کیا گزر رہی ہوگی، یہ تو خدا ہی جانتا ہے اور ہم لوگ کیا کر رہے ہیں افسوس۔۔۔! کیا ہم ساری زندگی افسوس ہی کرتے رہیں گے۔ کیا ہمارے افسوس کرنے سے کچھ ہوگا ؟ ہم لوگ آج تک کرتے بھی کیا آئے ہیں سوائے افسوس کے؟ آج تک ہماری بیٹیوں پر جتنا بھی تشدد ہوا ہے ہم لوگوں نے سوائے افسوس کے کیا ہی کیاہے۔ ہمیں لگتا ہے افسوس کرکے ہم نے انسانیت کا فرض ادا کر دیا۔ آئے روز ہماری بیٹیاں جگہ جگہ تشدد کی شکار ہورہی ہیں ،ہماری بیٹیوںکو کہیں زندہ جلایا جا رہا ہے، کہیں زہر دیا جاتا ہے، کہیں عصمت تار تار کی جاتی ہیں، کہیں مارا پیٹااور زدکوب کیا جا رہا ہے، کہیں اُن پر تیزاب پھینکا جاتا ہے اور ہم کیا کرتے ہیں، افسوس۔۔۔! کسی کے درد پر افسوس کر کے، شوشل میڈیا پر ہمدردی بھرے دو چار الفاظ لکھ کے، لڑکی کو انصاف دو جیسے نعرے لگا کے ،ہمیں لگتا ہے ہمارے اندر انسانیت کا درد موجود ہیں، ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ ارے غافلو! درد بھرے دو چار الفاظ لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ناسور کو جڑ سے ختم کرنے سے انسانیت کا فرض ادا ہوتا ہے۔ متاثرین کو امداد دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ جرائم کو جڑ سے اُکھاڑ دینے پر قوم کا بھلا ہوتا ہے۔ کتنوں کو امداد دو گے؟ کتنے نعرے لگائو گے۔ کتنے کینڈل مارچ کرو گے ؟کیونکہ آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ تو ہوتا رہتا ہے۔ سچ میں انسانیت کا بھلا چاہتے ہو ، تو ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ دو۔ ایک ملزم کو عبرت ناک سزا دو تو دوسرا جرم کرنے سے پہلے لاکھ بار سوچے گا۔سوشل میڈیا پر واویلا کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ سچ میں اپنی بہن بیٹیوں کی حفاظت چاہتے ہو تو عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ بہت دئے ہم نے نعرے، بہت واویلا مچا دیا، بہت افسوس کر دیا لیکن اب، اب عمل پیرا ہونالازمی ہے۔عمل ہی ایک ایسی واحد شے ہے، جس سے انسان اپنی زندگی کو کامیاب ، خوشگوار اور پرآشوب بناسکتا ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ اسی لئے اس ذاتِ پاک نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ عقل دی تاکہ اپنے لئے صحیح راستہ کا انتخاب کرے ، سعی و کوشش کی خوبی سے نوازا، تاکہ اس کے منتخب کردہ راستے کے حصول کے لئے جدوجہدِ عمل سے کام لے۔ ہمت و استقلال، بردباری اور عرفان دیا تاکہ مقاصد کے حصول میں پیش آنے والی پریشانیوں کا مقابلہ بہادری سے کریں۔ بُردبار ہونے کے باوجود بھی ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، اپنی بیٹیوں کے جنازے اُٹھتے دیکھ رہے ہیں، اپنی بیٹیوں کو بردبار ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ آخر کب تک ہماری بہو بیٹیاں تشدد کا شکار ہوتی رہے گی؟ کب تک وہ اس ظالم سماج کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی؟ جموں و کشمیر کے معروف نوجوان شاعر اورکشمیر یونیورسٹی کے اُردو جرنلزم کے طالب علم عقیل فاروق نے اس سارے دل دوز منظر نامے کو کیا خوب اپنے شعر میں پیش کیا ہے؎
وہ نازک دل کی دوشیزہ، ہر حالت میں چپ رہتی ہے
تم ظالم ہو تم قاتل ہو، تیزاب کا حملہ کرتے ہو