ہیرا نگر کٹھوعہ کے رسانہ گائوں میں8سالہ کمسن بکروال بچی کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کی واردات کے خلاف برہمی کی لہر تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے جہاں ملکی اور عالمی سطح پر اس انسانیت سوز واقعہ کے خلاف مسلسل صدائیں بلند ہو رہی ہیں وہیں کشمیر میں بھی سماج کے سبھی طبقوں کی جانب سے بالعموم اور طلبہ کمیو نٹی کی جانب سے بالخصوص اس سانحہ کے خلاف احتجاج کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے ۔کٹھوعہ سانحہ واقعی دلدوز ہے اور اس کے خلاف جتنی شدت کے ساتھ آواز بلند کی جائے ،کم ہے تاہم کشمیر میں گزشتہ چند روز سے اس سانحہ پر احتجاج کرنے والے طلبہ و طالبات کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے ،وہ ایسے نظام کیلئے کسی بڑی شرمندگی سے کم نہیںہے جو اپنے آپ کو جمہوری کہلاتا ہے ۔جمہوری نظام میں اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے اور کٹھوعہ جیسے رونگٹے کھڑا کردینے والے اور انسانیت کو شرمسار کرنے والے واقعہ کے خلاف اگر طلباء احتجاج کرکے اپنے مجروح جذبات کا اظہار کررہے ہیں تو یہ کوئی گناہ نہیں ہے لیکن چونکہ کشمیر میںالٹی گنگا بہتی ہے ،یہاں ہر معاملہ کو نازک انتظامی زایوں سے دیکھا جاتاہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایک جائز احتجاج کو بھی طاقت کے بل پر کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔گزشتہ چند روز کے دوران جس طرح پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز طلباء احتجاج کو کچلنے کیلئے مسلسل طاقت کا مسلسل اور بے تحاشا استعمال کررہے ہیں ،وہ کسی بھی طور مہذب سماج میں استحسان کی نظروں سے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔اب تو اسکی حد یں ہی پار کر دی گئی ہیں اور تعلیمی اداروں پر بھی فورسز کی یلغار ہورہی ہے ۔کھنہ بل سے کھادنیار تک جس طرح ایسے احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس اور فورسز نے تعلیمی اداروں کو جنگ کے میدان میں تبدیل کردیا ،وہ نہ صرف جمہوری قدروں کو پامال کررہا ہے بلکہ اس بات کی بھی نشاندہی کررہا ہے کہ کشمیر میں تعلیمی اداروں کے تقدس کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کا روز یہ عذر ہوتا ہے کہ ایسے مظاہرے پر تشدد شکل اختیار کرتے ہیں اور پتھرائو پر منتج ہوجاتے ہیں تاہم اگر ان واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے تو یہ بات منکشف ہوجاتی ہے کہ اشتعال انگیزی میں فورسز اہلکار بھی کسی سے پیچھے نہیں ہوتے۔ماضی قریب میں وزیر تعلیم نے ایسے ہی ایک معاملہ میں سخت نوٹس لیکر یقین دہانی کرائی تھی کہ پولیس یا فورسز کو تعلیمی ادارو ں کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن اب جس تواتر کے ساتھ وردی پو ش اہلکارو ں کے ہاتھوں علم و آگہی کے ان مراکز کا تقدس پامال کیا جارہا ہے ،وہ پریشان کن ہی نہیں بلکہ باعث افسوس بھی ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت کو اب بار بار تعلیمی ادارے بند کرنا پڑ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس طلباء کے جائز غصے کو ایڈرس کرنے کا کوئی نسخہ نہیں ہے ۔سکول ،کالج او ر یونیورسٹیاں فکر و دانش کے وہ مراکز ہیں جہاں ہم اپنی نئی پود کو تیار کرکے ایک نئے سماج کی بنیاد ڈال رہے ہیں تاہم وادی میں جس طرح ان مراکز میں گھٹن کا ماحول قائم کیا گیا ہے تو اس کا ردعمل نکلنا فطری امر ہے ۔سیاست دان ہوا سے نہیں آتے ہیں بلکہ انہی تعلیمی اداروں میں سیاستدان تیار ہوتے ہیں جو آگے چل کر ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کشمیر میں طلباء سیاست کی اجازت نہیں ہے اور ان کےلئے ایسا ماحول تیار کیا جا رہا ہے، جہاں پڑھائی تو جائز ہے لیکن ایک طالب علم اپنے سماج میں رونما ہورہے واقعات پر بات نہیں کرسکتا ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ سٹوڈنٹ سیاست پر پابند ی لگا کر ہم طلباء کو کیا پیغام دے رہے ہیں ؟۔کہیں ہم ایسی حرکتوں سے طلباء میں خود یہ سوچ پیدا تو نہیں کررہے ہیں کہ وہ کچھ مختلف ہیں اور ان کے حالات ملک کے دیگر حصوں سے عین مختلف ہیں۔آج کا طالب علم انتہائی حساس ہے اور و ہ اپنے گرد و پیش کے حالات سے غافل نہیں بلکہ پوری طرح واقف ہے اور وہ ان حالات پر اپنی رائے دینا چاہتا ہے لیکن جب آپ اس کی آواز دبانے کی کوشش کرینگے تو پھر چیخیں نکلنا قانون فطرت ہے ۔یہی کچھ کشمیر میں فی الوقت ہورہا ہے ۔اس وقت کشمیر میں کٹھوعہ کیس کو لیکر طلبہ کی جو احتجاجی لہر چل رہی ہے ،اس کو ٹھنڈے دماغ سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے ۔تعلیمی اداروں کی بار بار چھٹی کرکے یا تدریسی سرگرمیاں معطل کرنے کے علاوہ احتجاجی طلباء پر لاٹھیاں اور ٹیر گیس کے گولے برسا کر اُس غصے کو دبایا نہیں جاسکتا ہے جو اب اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے بلکہ دانشمندی اسی میں ہے کہ ایسا ماحول قائم کیا جائے جہاں طالب علم ایک پر امن ماحول میں اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں۔علاوہ ازیں طالب علموں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھ لیں ۔احتجاج کرنا انکا حق ہے اور اس حق کو ان سے کوئی نہیں چھین سکتا لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ تدریسی سرگرمیوں کو ترک کرکے سڑکوں کا رخ کریں اور پھر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے بھی گریز نہ کریں ۔زیر بحث معاملہ میں فی الوقت بہت احتجاج ہوگیا اور معاملہ اب عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے ۔اس لئے حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ طلباء واپس کلاسوں کا رخ کریں اور تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کریں او ر اس بیچ اُن کا رویہ ایسا شایان شان ہو جس سے حکام کا ضمیر بھی بیدار ہوجائے اور ان کا کیر یئر بھی مخدوش نہ ہو۔