۔2مئی کو ضلع شوپیان میں چند دن پہلے ہوئی فورسز کی زیادتیوں کے خلاف ایک بے قابوبھیڑ نے مبینہ طور راہ چلتی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا، جس کی زد میں دوسری بہت ساری گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ایک اسکولی بس بھی آگئی اور بد قسمتی سے بس میں سوار چند معصوم طالب علم زخمی ہوئے۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے کہ جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ جو قوم مسلسل غیروں کے نشانے پرہو، جس پر سرکاری فورسز کی زیادتیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ تین دہائیوں سے جاری ہو، اُسی قوم کے نونہال یا عام شہری اگر اپنوں کی غلطیوں کا بھی شکار ہوجائیں تواس سے بڑی بدقسمتی کی بات اور کیا ہوسکتی ؟اس دلدوزواقعے کی خبر ابھی سوشل میڈیا پر آہی رہی تھی کہ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی صاحبہ نے حسب عادت ایسے مواقع کیلئے ایک مخصوص عبارت والا مذمتی ٹوئیٹ کیا جس میں انہوں نے کہا:’’ انہیں یہ جان کر بہت دُکھ اور تکلیف پہنچی اور غصہ آیا کہ شوپیان میں ایک اسکولی بس پر حملہ کیا گیا۔ اس پاگل پن اور بزدلانہ کام کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔‘‘ سوشل میڈیا بالخصوص Twitter پرسرگرم رہنے والے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھلا کیسے چپ رہنے والے تھے، انہوں نے بھی پے در پے اس واردات پر کئی ٹوئیٹ کرکے خوب خبریں بٹوریں۔ ایک ٹوئیٹ میں انہوں نے لکھا :’’ اسکولی بچوں اور سیاحوں کی بسوں پر پتھراؤ سے خشت بازی کرنے والوں کے ایجنڈے کو آگے لے جانے میں کیسے مدد ملے گی؟ اس قسم کے حملے سخت قابل مذمت ہیں‘‘ ایک اور ٹوئیٹ میں انہوں نے سنگ بازی کے واقعات میں ملوث نوجوانوں کے حق میں پولیس کیس واپس لینے کی وکالت کرنے والوں تک کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ریاست کی دو بڑی ہندنواز جماعتوں کے سربراہوںمحبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کے مذمتی بیانات سامنے آنے کی ہی دیر تھی کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی سوشل میڈیا ٹیم ، ان جماعتوں کے ترجمان اوربا تنخواہ یوتھ لیڈران، دو متضاد سمتیںرکھنے والی کشتیوں میں سوار کئی میڈیا مین حرکت میں آگئے اور حریت لیڈران سے لے کر پاکستان تک ہر آزادی پسند اور اصولوں کی بات کرنے والوں کو بیک جنبش قلم مجرموں کی صف میں لا کھڑا کیا ۔ کشمیریوں کو’’ اُکسائی ہوئی قوم‘‘ قراردیا گیا، سنگ بازوں اور احتجاجیوں کو ’’گمراہ ‘‘کہا گیا، حریت لیڈران کو قتل و غارت گری کا ذمہ دار گردانا گیا، گویا ایک ہی پل میں سوشل میڈیا پر دلی کے پروردہ اور حمایت یافتہ اس ٹولے نے عدالتیں بھی سجائیں اور فیصلے بھی سنائے جن میں حق خودارادیت اوراس جائز اور مبنی بر حق جدوجہد کی بات کرنے والوں کوسچائی کا ساتھ دینے اور اصولوں کی پاسداری کے’’جرم‘‘ میں قصور وار ٹھہرایا گیا۔حالانکہ اسکولی بس میں زخمی ہونے والے بچے اُسی مظلوم قوم و ملت سے تعلق رکھتے ہیں جو سرکاری ظلم و جبر کی شکار ہے، اُن کے لیے ماں کی طرح تڑپنے والے اصل میں وہ عام لوگ ہی ہیں جو جانتے ہیں کہ اپنوں اور معصوموں کا لہو گرجانے سے کتنی تکلیف ہوتی ہے، حریت لیڈران بھی بار بار ایسے واقعات پر اپنے رنج و غم کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود Condemnation بریگیڈ ایسے مواقع پرمرغے کی ایک ٹانگ کے مصداق اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے تیر و تفنگ کا رُخ حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی جانب پھیر دیتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ عمر عبداللہ اینڈ کمپنی اور محبوبہ مفتی اور اُن کے تنظیمی درباریوں اور چیلوں کو ایسے سانحات پر رنج و غم کا اظہار کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، یا آزادیٔ اظہارِ رائے کے ذریعے وہ اپنی بات عوام کے سامنے نہیں رکھ سکتے ۔اُنہیں ایسا کرنے کا غیر مشروط حق ہے اور وہ ایسا کریں۔ ہر کسی کو جہاں بھی انسانیت کا خون بہایا جارہا ہو، اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے لیکن عام کشمیریوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ انہیں selective نہیں ہونا چاہیے ،ا نہیںحالات وواقعات کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی روش ترک کرنی چاہیے، اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے یا کھوئی ہوئی کرسی پر قابض ہونے کے لیے اپنے مگرمچھی آنسو بہانے کی ڈرامہ بازی نہیں کرنی چاہیے، سرکاری مراعات کے حصول کے لیے اغیار کے خاکوں میں رنگ بھرنے کا منافقانہ رویہ چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ اصولی طورجن لوگوں کے ہاتھ عام کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہوں، جن کے دور اقتدار میں روز بے گناہوں کا خون بہایا گیا ہو یا بہایا جارہا ہے، جو نونہالانِ کشمیرکو بم اور بارود سے اُڑا دینے کی منصوبہ بندی میں برابر کے شریک وسہیم ہوں، جن کے کہنے پر یا آشر واد سے وردی پوش یہاں روز انسانی حقوق کی دھجیاںاُڑا رہے ہوں ،اُنہیںمظلوم عوام پر انگلی اُٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں، بلکہ اُنہیں سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے اہا لیان کشمیر کس عذاب اور عتاب کا شکار ہیں۔
شوپیان میں اسکولی بس ودیگرگاڑیوں پر مبینہ طور سنگ باری ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد جب اسی ضلع کے ترکہ وانگام علاقے میں فورسز اہلکاروں نے تین درجن کے قریب معصوم نوجوانوں کے جسم گولیاں سے لہو لہاں کردئے،جب انکاؤنٹر والی جگہ سے ایک کلو میٹردور اسکولی وردی میں ہی ملبوس نویںجماعت کے طالب علم محمد عمر کمہار(۱۴؍سال) ساکن پنجورہ کو سرکاری فورسز نے نزدیک سے گولی مار کر ابدی نیند سلا دیاتھا،اُس وقت عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی صاحبہ کی سربراہی میں کام کرنے والا یہ مذمتی ٹولہ سوشل میڈیا سے اس طرح غائب ہوگیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ … انہیںجیسا سانپ سونگھ گیاتھا، یا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ پھر نہ ہی مجبوبہ مفتی کی نظریں اس کم سن طالب کی معصومیت پر گئیں اور نہ ہی عمر عبداللہ اینڈ کمپنی کو محمد عمر کمہار کی والدۂ کی وہ اسکولی یونیفارم نظر آئی جو وہ لہرا لہرا کر دکھا رہی تھی کہ کس طرح اُس کے طالب علم بیٹے کو جرم بے گناہی میں جان بحق کیا گیا۔ کیامذمتی ٹولے کو اس معصوم بچے کا اسکولی وردی میں اُٹھنے والا وہ جنازہ بھی نظر نہیں آیا جو سنگ دل سے سنگ دل افراد تک کے دلوں کو بھی پاش پاش کررہاتھا؟
حا لات اورکوائف کوایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی ان کرسی پرست لوگوں کو اسکولی بس پر برسنے والے چند پتھر تو نظر آگئے لیکن انہیںجنوبی کشمیر کے تین اضلاع میں صرف ایک ماہ کے دوران پچاس کے قریب اُٹھنے والے جنازے نظر نہیں آئے، اُنہیں اُن پچاس نوجوانوں کے لواحقین ، عزیز و اقارب اور یار دوستوں کی وہ ذہنی کیفیت نظر نہیں آ ئی جس نے اس پورے خطے کے لوگوں کو جنونی بنادیا ہے۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا والد بزرگوار ۸۰؍سال کی عمر میں بھر پور زندگی جینے کے بعد رحلت کرگئے تھے۔ محبوبہ مفتی صاحبہ کئی ماہ تک اُس صدمے سے باہر نہیں نکل پائیں، صدمے کی شکار وزیر اعلیٰ نے کئی ماہ تک سرکار ہی تشکیل نہیں دی، آج بھی بار بار سرکاری تقریبات کے دوران وہ اپنے والد کو یاد کرکے جذباتی اور آبدیدہ ہوجاتی ہیں ، جب وہ اپنے بزرگ والد کی جدائی کو برداشت نہیں کرپائی اور اُس صدمے سے باہر نہیں نکل پاتی ہیں تو اُن والدین کی کیا حالت ہوگی جن کے معصوم بچوں کی کٹی پھٹی لاشیںاُنہیں روز موصول ہوتی رہتی ہیں،جو اپنے سامنے اپنے بچوں کو سرکاری فورسز کی گولیوں کا شکار ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اُنہیں اُن بستیوں کا درد و کرب نظر کیوں نہیں آرہا ہے جہاں روز صرف جنازے ہی اٹھتے ہیں؟ اُنہوں ہسپتالوں میں اُن والدین کے اذیت اور تکلیف محسوس کیوں نہیں ہوتی جن کے بچے زخمی ہیں اور وہ درد و کرب سے چیختے چلّاتے رہتے ہیں، اُنہیں اُن بوڑھے والدین کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کیوں نہیں ہوتا ہے جو اپنے بڑھاپے کا سہارہ سمجھنے جانے والے بچوں کا ہی سہارا بننے پر مجبور ہیں کیونکہ اُن کی آنکھوں کی بینائی فورسز اہلکاروں نے پیلٹ گنوں سے چھین لی ہے؟… خاتون ہونے کی حیثیت سے اُنہیں اُن ماؤں کے دُکھی دل نظر کیوں نہیں آتے جو اپنے جواں سال بیٹیوں کی لاشوں کو دولہے کی طرح سجاتی سنوارتی ہیں اور اُنہیں دودھ پلاپلا کر اپنی دیوانگی بھری مامتاکا مظاہرہ کرتی ہیں؟
نیشنل کانفرنس صدر کو پتھراؤ کے نتیجے میں زخمی بچوں کی چیخ و پکار صرف اس لیے سنائی دیتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے وہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والی عوام کو ’’گمراہ ‘‘ ثابت کرسکیں اور اُن کے اس طرز عمل سے دلی کے اقتداری ایوانوں میں اُن کا ریکارڈ اچھا رہے۔ کشمیری لوگ ایسا اس لئے کہتے اور سمجھتے ہیں کیونکہ اُنہیں معلوم ہے کہ 2010 میں 128 ؍نہتے لوگوں کا خون اُن فورسز ایجنسیوں سے بہایا ہے جن کی یونیفائڈ کمانڈ کی سربراہی عمر عبداللہ صاحب کررہے تھے، اِن کے دور اقتدار میں ہی بٹہ مالو سری نگر کے چھ سالہ سمیر احمد راہ جس بے دردی کے ساتھ جان بحق کردیا گیا،اُس کی مثال چنگیزی دور میں بھی دکھائی نہیں دیتی ۔ سی آر پی ایف اہلکاروں نے ٹافی لانے کے لیے بازار گئے سمیر کو پیروں تلے روندکر بڑی اذیت ناک طریقے سے جان بحق کردیا، این سی کے دور اقتدار میں لاشوں تک کو بخشا نہ گیا ۔ کشمیریوں کو یہ بھی یاد ہے کہ شوپیان کی آسیہ اور نیلوفر کی عصمت دردی اور قتل کوعمر عبداللہ نے کس بے تکلفی کے ساتھ ٹخنوں سے نیچے گہرے پانی میں’’ ڈوب‘‘ جانے والی واردات قرار دیا اور پھر سی بی آئی کے ذریعے اس بے تکی بات کو ’’ثابت‘‘ بھی کروادیا ۔ اَن گنت معصوم انسانوں کاقتل عمد عمر عبداللہ اور اُن کے والد فاروق عبداللہ کے ادوار ِحکومت میں ہوا تھا اور دونوں باپ بیٹے نے کشمیریوں کی نسل کشی پر کبھی اُف تک نہیں کیا۔ یہی حال پی ڈی پی کا بھی ہے، محبوبہ مفتی کے عہد ِاقتدار میں کشمیر کی سر زمین خون سے لالہ زار ہوگئی۔۲۰۱۶ء سے تاحال ہر ہفتے کسی نہ کسی عام سوئیلین کو جرم بے گناہی کی پاداش میں ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے اور وزیر اعلیٰ صاحبہ انالمیوں کی’’ جوازیت‘‘ بھی تراشتی ہیں اور آگے بڑھ کر سرکاری فورسز کو’’اچھی کارکردگی ‘‘ پر شاباشی بھی دیتی ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کی یک طرفہ مذمت کوئی معانی نہیں رکھتی ہے اور یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ان کا یہ رونا دھونا سیاسی سوانگ کا حصہ ہے اور ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کے قتل عام اور نسل کشی میں یہ سب صاحبانِ کرسی فورسز کے شانہ بشانہ ہیں۔
جنوبی کشمیر ۸؍جولائی ۲۰۱۶ء سے جن گھمبیر حالات کا شکار ہے، اُن میں عام لوگوں کی ذہنی حالت اور کیفیت کیا ہوگی اس کا اندازہ اقتدار کا مزہ لینے والوں اور اُن کے چیلوں چمچوں کو بھلا کیسے ہوگا؟ اس خطہ میں آئے روز بھری جوانیاں لُٹ رہی ہیں، والدین اپنے بچوں کے جنازوں کو کندھا دے رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں نوجوان زخمی ہوچکے ہیں، جن میں سینکڑوں جسمانی طور ناکارہ بن چکے ہیں۔ یہاں کے عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہ سنگ بازی کررہے ہیں اور یہ انکاؤنٹر والی جگہوں پر جاکر فوجی آپریشن میں بے خوف ہوکر رخنہ ڈالتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ ان نوجوانوں کے کتنے ساتھی اور بھائی بند قبرستانوں میں پہنچا دئے گئے ہیں، جن معصوم نوجوانوں کے ساتھ یہ کھیلا کرتے تھے، اُنہیں جب وردی پوشوں نے ابدی نیند سلا نے کے بعد اپنی’’ کامیابیوں‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹیں تو متاثرین میں غم وغصہ دوآتشہ ہونا طے ہے۔ آئے روز ہمارے یہاں جنازوں میں شریک ہونے والوںاورانسانی لاشوں کو کندھا دینے والے سوگواروں کے جذبات کس طرح کھلے عام مجروح کئے جاتے ہیں اس کا اندازہ مذمتی ٹولے کو نہ بھی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب احساس بیگانگی اور انتقام کی آگ کو اور بھی بھڑکانے پر منتج ہوتا ہے ۔۔اگر اربابِ اقتدار امن پسنداور بناض ہوتے تو یہ سنگ بازی کرنے والوں اور انکاونٹر والی جگہوں پر سینہ ٹھونک کے جانے والے مردوزن کے خلاف زبان درازی نہیں کرتے بلکہ اُن کی نفسیاتی الجھنوں اور ذہنی اضطراب و پریشانی کو سمجھتے اور اُن کے دُکھ درد کا مداوا کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اور سنجیدہ کوششیں کرتے۔
دوہری پالیسی پر پر مبنی دوغلی سیاست سے زیادہ دیر تک عوام الناس کو ورغلایا اور بہکایا نہیں جاسکتا ہے، عام لوگ باتوں سے نہیں بلکہ اعمال دیکھ کر سیاست دانوں کے حوالے سے کوئی رائے قائم کرلیتے ہیں۔ جو لوگ کشمیریوں کے سروں پر سوار کئے گئے ہیں ،اُن کا ضمیر اس قدر میٹھی نیندمیں خراٹے مار رہا ہے کہ وہ اپنے باسز کو اُن ہی لوگوں کی کردار کشی اور بدنامی سے خوش کر نے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے جن لوگوں کے ووٹ سے یہ اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ ہندنواز جماعتیں زمینی حقائق کو تسلیم کرکے عوامی جذصبات کے ساتھ جڑ جائیں، اُن کے اصل مفادات کی بات کریں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف عام کشمیریوں کی آواز میں آواز ملائیں، بصورت دیگران کا کبھی کسی خون آشام ایونٹ پر خاموشی اختیار کر نا اور کبھی کسی افسوس ناک واقعہ پر مین ڈکوں کی مانند ٹرانا بے معنی ہے۔ البتہ زخمی جذبات میں غرق عوام الناس کو چاہیے کہ کشمیر کاز کو کسی بھی حال میں بدنظمی اور انتشار ِ فکر کی نذر نہ ہونے دیں بلکہ جوش کے ساتھ ہوش بھی قائم رکھیں ۔