سہیل سالمؔ
کشمیری زبان و ادب کی ادیبائوں کے کارنامے نا قابل فراموش ہے۔کشمیری زبان و ادب کے ان کارناموںپر بات کرتے ہوئے یہ انداز ہوتا ہے کہ یہاں کی ادیبائوں نے اپنی ادبی وراثت کو دل گداز اور چمک دار بنانے میں مرکزی رول ادا کیا ہے۔ یہاں کی خواتین ناول ، افسانہ گار ،شاعرات اور تنقید نگاروں نے کشمیری ادب کی ترویح میں ایک اہم کر دار کیا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے سینئرز کے ساتھ ساتھ ٰنوجوان خواتین بھی تخلیقی دنیا میں سر گرم نظر آتی جس میں ایک محترم نام شائستہ خان کا بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ جموں و کشمیرکے معاصر ادبی منظر نامے پر شائستہ خان ؔایک نواجون افسانہ نگار ہیں۔12 جون 1991 میں سرینگر کے مشہور علاقے صورہ میں تولد ہوئی ۔ آپ کے والد کا نام غلام حسن خان ہیں۔آپ نے اسلامہ ہائی اسکول نوشہرہ سے میٹر ک کا امتحان2008 میں پاس کر نے کے بعدگورنمنٹ گرلزہائر سیکنڈری صورہ سے2010 میں بارویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ زنانہ کالج نواکدل سے 2013 میں اپنا بی ، اے مکمل کیا۔ 2016 میں کشمیر یونیور سٹی سے کشمیری میں پی ۔جی کے امتحانات پاس کرنے کے بعددرس و تدریس کا پیشہ کیا ۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا کشمیر یونیورسٹی سے ہی کیا لیکن ان کا پہلا افسانہ’’نوو ے ووباہ‘‘روزنامہ سنگر مال30 جنوری 2019 میں شائع ہو۔ حال ہی میں ان کا پہلا کاشمیری افسانوی مجموعہ ’’براند برس پیٹھ ‘‘2020 میں منصہہ شہود پر آگیا جو کہ13 افسانوں پر مشتمل ہے۔اس مجموعے کوپچھلے سال یعنی 27 دسمبر2022 کوساہتیہ اکادمی نے یووا پرسکار سے بھی نوازا۔
شائستہ خان کا افسانوی کینوس حیات و کائنات کے مختلف اور حسین رنگوں سے لبریز ہیں۔انھوں نے سائنس کا رنگ،اخلاقیات کارنگ،حسن و عشق کا رنگ ،تہذیب کا رنگ اور مہلک امراض کا رنگ استعمال کرکے اپنے افسانوی کینوس کی زینت بڑھا دی ہے۔ اکیسویں صدی نے سائنس کے رنگ روپ دیکھا کر پوری دنیا کو اپنی تحویل میں لے لیا ۔مغرب سے آنے والا ایک دلفریت مگر انتہائی نارک جس نے ہماری نئی نسل سے تمام اچھے صفات چھین لیے وہ موبائل فون اور موبائل فون کی گیمز بھی ہے۔بظاہر یہ گیمزبڑے دلچسپ معلوم ہوتے ہے مگر اس کی جو قباحتیں اور مضر اثرات معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں ۔یہ گیمز آج کل بہت مقبول ہو رہے ہیں او ر اس کی مختلف شکلیں ہیں ۔ہر چھوٹا اور بڑا اس میں اس قدرمگن ہے گویا وہ پیدا ہی اس مشغلہ کی خاطر ہوا ہے۔اور خاص طور پر بچوں کی اس مصنوعی تفریح میں مشغولیت قابل تعجب ہی نہیں بلکہ قابل ماتم بنی ہے۔ انہوں نے مستقل ان کھلیوں کو تجارت کا پیشہ دے کر اپنے ہاتھوں اپنی قوم وملت کو بتاہ و برباد کرنے کا ارادہ کرلیا ہے ۔جس کے سب ایک نئی وبا نے جنم لیا ہے۔بقول شائستہ خان:’’سووژھ تہ درایہ نبر ۔بتہ ووتھس تہ دراس دکانس پیٹھ۔وتہ وتہ چھس بہ یہ سونچان رآخربنہ ہے تہ بنہ کیاہ امس آصف صآبس ۔امی ترووپرن لیکھن کھن چھن۔صرف چھ اتھی فونس ستی۔صرف PUBG ۔آخر چھ کیا یہPUBG۔۔۔یی سونچان سونچان ووتس بہ سڑکہ پیٹھ۔اتہ وچھم نفر جوراہ بامبر یمتی ہوی دوران ہسپتالس کن۔مے پرژھ آکس۔۔‘‘( براند برس پیٹھ۔ص۔19 )
افسانہ’’ خانہ مول‘‘ایک مرغے کی کہانی ہے۔ جس میں بچوں کی نفسیات کو اجاگر کرنے کی ایک کامیاب سعی کی گئی ہے۔جب گھر کا مالک ایک کمزور مرغے کو خرید کر لے آتا ہے تب اس مرغے کی جسمانی حالت بہت ہی خراب ہوتی ہے ۔اس کے جسم کی تمام ہڈیاں نمودار ہوتی ہے۔گھر کا مالک مختلف کھانے خریدکر اس کی صحت کا خاص خیال رکھتا ہے اور آہستہ آہستہ مرغے کی توانائی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔مالک اپنے بچوں کے ساتھ اتنا اپیارنہیں کرتاتھاجتنا وہ اس مرغے کو چاہتا ہے۔ گھر کے کسی بھی فرد کو اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ مرغے کے خلاف اپنی زبان کھول سکے۔افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’سانہ گراوسن پان ویٹھ روومت۔ژامنی ،دود،آئس کریم ،دودس پیٹھ چیز گژھ ہنس صبحن تہ شامن آسنی۔پانہ اوس عاش کران تہ اسہ اوسن بیم تھوومت۔تو اوس سہ مے کھران۔مگر وونی اسی اسی تمی سندی نخر برداشت کران۔تکیاز اسہ اس خبر راگر امس کانہہ روب داب کر ،مول ووتھ امی سندے کنہ سون چلہ نہ کہنی۔سہ اوس میانس مالس یوت خانہ مول بنیومت زتمس خلاف اوس نہ کتھ تہ دوان کرنہ۔‘‘(براند برس پیٹھ۔ص۔33 )
جب مختلف قبیلوں کے لوگ کسی خاص جگہ رہائش پذیر ہوتے ہیں تو وہ سماج کہلاتا ہے۔سماج کی ترقی کا راز انھیں لوگوںکے پاس ہوتا ہے ۔ہر ایک قبیلے کی اپنی تاریخ ہوتی ہے۔ہر ایک قبیلے کی اپنی قدریں ہوتی ہے۔کئی قبیلے ایسے ہوتے ہیں جن کے یہاں عزت و احترام ،اخلاقیات اور تعلیم و تفکر کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی ہے۔افسانہ ’’کنڈن منز گلاب‘‘ میں بھی اوس اپنے قبیلے کی روایت شکنی کے تمام بت توڑ کر اپنے لئے خود راستہ تیار کر لیتا ہے۔اپنے قبیلے کے ماتھے پے لگے ہوئے بدنما داغوں کو اپنی محنت اور لگن سے عمر بھر کے لئے صاف کرتا ہے۔افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’اکہ طرفہ ا وس اویس مالس تہ بڈی بب سن لڑایہ ستی تنگ آمت تہ بییہ طرفہ اوسس ماجہ ہنزشرافت وچھتھ اوش یوان تہ اتھی کشمکش منز اوس اویس پریشان گومت۔امیک اثر اوس اویس نہِ زندگی پیٹھ پیومت۔امی سنز حالت وچھتھ اس وونی موج تہ پریشان روزان۔سو اس دل ملول آسان۔تمس نہ اوس دوہس قرار تہ نہ راتس نندر۔اویس اوس اتھ حالتس منزتہ پنن پرن جاری تھاوتھ تہ برابر امتحان کین دوہن دوہس راتس پران آسان۔۔۔۔از صبحس ییلہ محالک ووسہ امت اوس ،بہ تہ گیس لکہ کتھ کتھ ستی سلی ہشار،ییلہ مے درا کنی نظر داتہ وچھم محلکی واریا لوکھ سڑکہ پیٹھ ڈپھر لاگتھ اکھ اکس ستی کتھ کران۔یم اسی سخ ووسہ آمتی۔۔اکھ اکس مبارک باد دوان۔۔‘‘(براندبرس پیٹھ۔ص۔43)
عورتوں کو عزت و احترام سے نوازنا دراصل انسانیت کے احترام کے مترادف ہے ۔اگر ہم اپنی ماں کو عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں تو دنیا کی ہر خاتون کا احترام کرنا ہمارے لئے لازمی بن جاتا ہے ۔اس کے برعکس آج کل کے دور میں عورت ہی مختلف طریقے اپنا کر عورت کا استحصال کرکے اسے کمزور وحقیر سمجھ کر اس زندگی کو تباہ و برباد کرتی ہے ۔ افسانہ ’’ ساجہ ِمژ ‘‘ میں ساجہ نے اپنی بہو کے ساتھ ساتھ پورے علاقے کی عورتوں کا جینا حرام کر کے رکھ ہے۔ ساجہ کو کوئی بھی اپنے گھر آنے نہیں دیتا ہے کیونکہ انھوں نے کئی عورتوں کے گلستان کو ویران کر کے رکھا تھا۔بقول شائستہ خان’’:اگر ساجہ مژ کانسہ کنہ کتھ پیٹھ رٹہ ہا،پتہ تلہ ہانہ دوہی دوہس تھف۔سواس اگاد گژھان۔امس کس پوشہ ہا،نوشہ ہنز چھنہ کتھے۔اگر نوشہ بچار کانہہ غلطی گڑھ ہا،محلس اسس بدنام کران توے اس سوژھوپہ کران۔نچیوس کیا ونہ ہا،سہ اوسس ڈمبہ زامت ۔تس تہ اوس نہ ماجہ ہندیہ عادت خوش کران‘‘۔(براند برس پیٹھ۔ص۔64 )
انھوں نے اپنے افسانوں میںعورت کی نفسیات ،،پیچیدہ انسانی مسائل کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ صفحہ قرطاس پر اتار کرسماج کے سامنے رکھا لیا ہے۔علاوہ ازیں بلبل پچن،اندرم دگ،دار ہنگس پیٹھ ،عاشن ارمان،احمقس پازار،ماسہ لامل
تنگ آمد بہ جنگ آمد اور خوتنہ ہند کھور یہ تمام افسانے ’’براند برس پیٹھ ‘‘میں شامل ہے۔ان کے بیشتر افسانوں میں عورتوںکی طبقاتی کشمکش،عورتوں کافکری رجحان،عورتوں کا نسائی شعور اور عورتوں کے دکھ سکھ جیسے موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ان کے افسانوں کی زبان سادہ ،اسلوب،کردار اور فنی ٹریمنٹ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد بھی ہے۔شائستہ خان کا افسانوی کینوس اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انھوں نے ’’براند برس پیٹھ‘‘ میں عورتوں کے خوابوں کو ہی نہیں بلکہ داخلی اور خارخی مسائل کو خوبصورت رنگوں میںپیش کر کے فکشن کی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔
رعناواری سرینگر۔9103654553
[email protected]