وطن عزیز میں سڑکیں ، پل، ہسپتال ، کالج ، سکول، یونیورسٹیاں ، کارخانے، کھیل کے میدان اور سرکاری دفاتر عوامی خزانے یعنی لوگوں کے خون پسینے کی کمائی سے بنتے ہیں۔ اس کے لئے ٹینڈر طلب کئے جاتے ہیں اور’’ مناسب ومعقول ‘‘تخمینہ دینے والے ٹھیکیدار کوان کا تعمیراتی کام سونپا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں سرکاری تعمیرات میں کام آنے والے خشت و سنگ، لکٹری، سیمنٹ، ریت ، بجری ،لوہا ، بجلی فٹنگ اور سینٹری سامان، رنگ روغن ، ٹائیل ، ٹین، تارکول ، سولنگ وغیرہ کا معیار طے کرنے کیلئے ایک سرکاری محکمہ’’ ا سٹورز اینڈ پراکیورمنٹ ڈپارٹمنٹ ،، کے نام سے موجود تھا۔ اس محکمہ کے ماہر انجینئروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ سرکاری تعمیرات میں کام آنے والے سازوسامان کی باریک بینی سے جانچ پرکھ کرکے ان کے معیار کا تعین کریں ۔ اگر بالفرض کبھی کسی تعمیراتی سامان کوغیرمعیاری پایا جاتا تو سپلائر یا ٹھیکیدار کو طلب کرکے ا س کا ٹینڈر منسوخ کیا جاتا تھا۔ سابق وزیراعظم بخشی غلام محمد کے دورِ اقتدار میں یہ محکمہ ’’سنٹرل اسٹورز‘‘ کے نام سے قائم ہوا تھا،شام لعل واٹھ، سید تجمل، سیف الدین درابو وغیرہ جیسے دیانت دار اور قابل افسروں کے کے علاوہ سابق وزیراعلی جی ایم شاہ نے اپنے وقت اس محکمہ کی قیادت کی ۔ اس نے کئی دہائیوں تک سرکاری تعمیرات کے لئے کوالٹی کنٹرول کا ایک باقاعدہ کلچر قائم کیا تھا۔ محکمے کا رابطہ ملک کی بڑی بڑی لیبارٹریوں کے ساتھ تھا جہاں لوہا ہو یا ٹین، سمینٹ ہو یا تارکول، لکڑی ہو یابجلی تاریں ،ہر طرح کے سامان کی جانچ پڑتال تکنیکی باریک بینی سے کی جاتی تھی۔جب تک متعلقہ لیبارٹری سے اوکے رپورٹ موصول نہ ہوتی، تعمیر کا کام شروع نہ ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ساٹھ سال قبل جو پل یا سرکاری عمارتیں وغیرہ تعمیر ہوئیں، اُن کی مضبوطی اور رکھ رکھاؤ آج بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اگر معیار سے سمجھوتہ نہ کیاجائے تو عوامی خزانہ سے خرچ کی جانے والی ایک ایک پائی عوامی خدمت میں پوری طرح صرف ہوسکتی ہے۔ یہ محکمہ ان ایام میں گویا سرکاری تعمیرات کے لئے ایک کسوٹی یا پل صراط تھا اور جو بھی مال یا تعمیراتی سامان اس کسوٹی پرکھرا اُترتا تھا، وہی تعمیر میں زیر استعمال ہوتا تھا۔
محکمہ اسٹورز پانپور میں ایک سو پچیس کنال اراضی پر پھیلا ہوا وسیع سرکاری ادارہ ہے ۔ آج بھی محکمہ کے پاس چار ایسے گودام ہیں جن میں سے ہر ایک میں بیک وقت اَڑھائی لاکھ سیمنٹ بوریاں ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے ۔ بدقسمتی سے تعمیرات کیلئے خام مال کا معیار جانچنے پر کھنے کا یہ اہم سلسلہ چند سال پہلے ہی موقوف کیا گیا۔ چونکہ محکمہ ا سٹورز میں اب اُلو بول رہے ہیں ،اس لئے سرکاری تعمیرات کا معیار روز بروز نیچے ہی گر تا جارہا ہے۔ ظاہر ہے سرکاری کام کر نے والا تقریباً ہر ٹھیکیدار کے من میں جو آئے وہ کر گزر تا ہے اور بلا روک ٹوک غیر معیاری تعمیراتی مال استعمال کر نے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔ نہ لوہے کی جانچ ہوتی ہے، نہ ٹین پرکھا جاتا ہے، نہ لکڑی کا معائنہ ہوتا ہے اور نہ سیمنٹ کا معیار دیکھا جاتا ہے۔اس تجاہل عارفانہ کے بُرے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔سرکاری عمارتوں میں آگ کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں، ہسپتال ہو یا سکولی عمارات، چند ہی سال میں ان کی دیواروں سے سیمنٹ اُکھڑ جاتا ہے، لکڑی بوسیدہ ہوجاتی ہے ،کھڑکیا ں اوردروازے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں، نلکے کام کر نا چھوڑتے ہیں ، ٹین زنگ آلودہ ہوجاتاہے اور کہیں کہیں یہ عمارتیں دھڑام سے نیچے گر جاتی ہیں۔
اب حکام سے یہ پوچھنے کا وقت آگیا ہے کہ اگر تعمیر و ترقی کے نام اَربوں روپے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں تو کیا غریب عوام کے فلاح وبہود کے لئے مختص یہ فنڈز تعمیر اتی مواد کا معیار پہلے متعین نہ کر نے کے باعث ضائع نہیںہوجاتے؟ کیاتعمیر و ترقی ایک سیاسی نعرہ ہے یا ایک دیانت دارانہ عمل کانام ہے ؟ آخر تعمیرات کے لئے درکار خام مال کودیکھ پرکھ کے مرحلے سے کیوں نہیں گزارا جاتا؟ کیا یوں مال ِمفت دل ِبے رحم کے مصداق عوامی بہبود کے نام پر سارا پیسہ افسروں اورٹھیکیداروں کی تجوریاں بھر نے کے سوا اور کوئی مقصد پورا کرتا ہے ؟
کوالٹی کنٹرول ہر کام کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہوتا ہے، لیکن یہاں حکام نے اس کے لئے مخصوص ادارے کو ہی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ اب سرکاری محکمے تعمیروترقی یا سازو سامان کی خریداری کو آؤٹ سورس کررہے ہیں ، نتیجہ یہ کہ ہماری اکثر سڑکیں، پل ، کھیل کے میدان، ہسپتال ، تعلیمی ادارے، دفاتر وغیرہم غیرمعیاری انفراسٹرکچر اور بدعنوانی کے داغ دھبے بن کے رہ گئے ہیں۔ جب حکومتی سطح پر ہونے والی تعمیرات کا معیار اتنا بے اعتبار اور گھٹیاہو تو وہ عام خام جو معیار کی باریکیوں کو نہیں جانتے ہیںکہ اپنا گھر بناتے وقت وہ اینٹ، سیمنٹ، لوہا اور بجلی سامان، سینٹری وغیرہ خریدتے ہوئے اس کی کیسی جانچ پرکھ کریں۔متوسط طبقہ کے لوگ بنکوں سے قرض لے لے کر گھر تعمیر کرتے ہیں، لیکن کیا انہیں معیاری تعمیراتی مٹیرئل بازار میں کہیں میسر آتا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ جہاں حکومت خود اپنے تعمیراتی کاموں میں معیار چیک کرنے میں مضحکہ خیز روش اختیار کر ے، وہاں عام لوگوں سے کیا توقع کریں؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ گورنر انتظامیہ اس بابت بھی سوچے کہ اسٹورز محکمہ کو کیوں مفلوج کیا گیا؟ اگر محکمہ ختم ہی کرنا ٹھیک ہے تو اس کام کا متبادل کہیں ہے؟ سچ مچ جب کوئی معاشرہ مجموعی طور پر دیانت وامانت سے محروم ہوتا ہے،و ہاں پھر حکومت ہی بدعنوانیوں کی جنم داتابنتی ہے ۔ ورنہ کیا حکومت نے فرض کرلیا ہے کہ ٹھیکیدار بھی دیانت دار ہے اور سیمنٹ اور لوہا وغیرہ کا تاجر بھی اَمانت دار ہے کہ اسے ا سٹورز محکمہ کو کولڈ سٹور میں ڈالنا پڑا؟ اگر حکومت سرکاری اور غیر سرکاری تعمیرات کے معیارسے متعلق امور میں حساس نہیں ہے تو لوگوں کی بھلائی اور معاشرے کی بہبود کے لئے ا س کے وعدے جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
رابطہ: 9469679449