اویل دمحال ہانجی پورہ کولگام سرینگر سے لگ بھگ نوے کلومیٹر دور ایک گاؤں جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے کافی مشہور ہے ،وہیں ایک بہترین نوجوان قلمکار سبزار احمد بٹ بھی اسی گاؤں میں رہتے ہیں آپ نے اپنے بہترین مضامین سےنہ صرف اپنا نام روشن کیا ہے بلکہ اپنے پورے علاقےکا نام بھی آپ نے روشن کیا ہے اور عصر حاضر کے معروف نوجوان قلمکاروں میں سے سبزار احمد بٹ کا نام سرفہرست ہے، جنہوں نے قلیل مدت میں ہی ادبی دنیا میں اپنا نام کمایا ہے۔ آپ اپنےمضامین کے ذریعے سے قارئین کے دلوں کو موہ لینے میں کامیاب نظر آرہے ہیں ۔پچھلے سال ان کے مضامین پر مشتمل کتاب "عکسِ حیات" منظر عام پر آئی ہے، جس کتاب نے نہ صرف اردو زبان وادب میں اضافہ کیا بلکہ ان کی شخصیت بھی نکھر کر سامنے آئی ہے۔ اس کتاب میں ان کے وہ پُرمغز کالم درج ہیں جن کو انہوں مختلف اخبارات میں شائع کیا تھا اور وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مضامین کو کتابی صورت میں شائع کرنااہم ہوگیا تھا کیونکہ "عکسِ حیات" میں شامل مضامین میں معاشرتی زندگی کے بارے میں مدلل طریقے سے بات کی گئ ہے۔عصر حاضر میں یہ ایک مشکل ترین عمل ہے کہ ایک طرف نوجوان قلمکار خود برائیوں سے دور رہےاور پھر دوسروں کو بھی ان برائیوں کی طرف توجہ دلانے کی تلقین کرے،ایسا کرناوقت حاضر میں دشمن فوج کے خلاف صف آراء ہونے کے برابر ہے یا یوں کہا جائے کہ ایسا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہےمگر سبزار بٹ نے اپنی محنت اور لگن سے ایسا کرکے دکھایا ہے "عکسِ حیات" کا مطالعہ کرنے سے قارئین کےذہن کی بہت ساری گِرہیں کُھل جاتی ہیں اور ان کی فہم وفراست میں اضافہ ہورہا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سماجی بدعات پر لکھنا کوئی معمولی اور آسان کام نہیں ہے بلکہ اس کےلئے لکھنے والے کا باحس وباحوش ہونا ضروری ہے، انہی باحس اور باحوش نوجوانوں میں سبزار احمد بٹ کا نام بھی شامل ہیں جنہوں نے سماجی بدعات کو زبان بخشی ہے انہوں نے اپنی آنکھوں سے سماجی بدعات کا مشاہدہ کرکے ان بدعات کے خلاف قلم اٹھایا ہے جو قاری اور علم کے متلاشی حضرات اچھے اور کارآمد مضامین پڑھنے کی تلاش میں ہے تو ان کےلئے میرا مشورہ ہے کہ وہ سبزار احمد بٹ کی کتاب عکسِ حیات کا مطالعہ کریں اس سے اچھی اور بہترین کتاب ملنے کے توقعات اس وقت بہت کم ہیں کیونکہ اس کتاب میں ان کو رنگارنگ مضامین مل جائیں گے ۔سبزار احمد بٹ کے مضامین کا سلیس سیدھا سادہ اور عام فہم زبان میں ہے یعنی انہوں نے سخت الفاظ استعمال کرنے سےپرہیز کیا ہے تاکہ کم سے کم تر تعلیم یافتہ بھی ان مضامین کو پڑھیں اور سمجھیں اس کتاب میں لگ بھگ اٹھائیس مضامین درج ہیں جن میں زیادہ تر مضامین میں معاشرتی مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور یہ مضامین نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی راہنمائی بھی کرسکتے ہیں۔ سبزار بٹ پیشے سے استاد ہیں اور آپ نے ہرکسی موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور عکسِ حیات میں بھی انہوں نے قارئین کی دلچسپی کو مدنظر رکھ کر انہیں معاشرتی برائیوں کاعکس دکھایا ہے کہ کون سی برائیاں اس دور میں پنپ رہی ہیں اور ان برائیوں کے ساتھ کیسے نپٹا جائے گا۔آج کے پُرآشوب معاشرے میں ایسے قلمکاروں اورایسی ہی کتابوں کی ضرورت ہےجوکھرے اور کھوٹے میں فرق کرکے لوگوں کے سامنے پیش کریں تاکہ لوگ ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ رواں سال کے یوم جمہوریہ پر سبزار احمد بٹ کو اسی کتاب کے شائع کرنے پر اعزازی سند سے نوازا گیا اور ادبی وعوامی حلقوں میں بھی اس کتاب کی پزیرائی کی گئی۔ سبزار بٹ کا نام معاصر اردو ادب کے شیدائیوں میں شامل ہے، جس کی کارکردگی کو جتنی بھی تعریفیں کی جائیں کم ہیں ۔راقم کو بھی اس کتاب کا استفادہ حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا اور اس میں چھپے مضامین کو پڑھ کرانسان کی عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ اس کتاب کا نام اس میں شامل مضامین کے ساتھ کافی مماثلت رکھتا ہے کیونکہ عکسِ حیات کا معنی زندگی کی تصویر یا فوٹو ہے ایک بات یہ بھی ہے کہ انسان کو جسمانی وروحانی طور تربیت یافتہ ہونا چاہیے ،وہ تربیت تب ملے گی جب ایسی ہی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے گاعکس حیات پر دو تبصرے اسی کتاب میں شامل ہیں جن میں پہلا دلکش اور دلفریب تبصرہ وادی کے مشہور شاعر، افسانہ نگار،ناول نویس اور قلمکار پرویز مانوس کا ہے، جنہوں نے بہت ہی خوبصورت پیرائے میں اپنی بات قارئین کے پاس رکھی ہے ایک اور تبصرہ بھی شامل کتاب ہے جو تخلیقی قوت کے سبزان چمن سے عرفان عارف نے پیش کیا۔ انہوں نے بھی نرالے انداز میں مصنف کی ڈھارس بندھائی ایک اور مختصر مگر معنی خیز تبصرہ کتاب کے پچھلی جلد پر لکھا گیا ہے جس میں کم الفاظ میں بڑا پیغام پہنچایا گیا۔ اس کتاب پر ایک اور تبصرہ ہفتہ روزہ اخبار ندائے کشمیر کے ایڈیٹر معراج الدین فراز نے لکھا ہے ۔انہوں نے بھی مصنف کو ایک تخلیقی صلاحیتوں کی سند پیش کی ۔تبصرہ نگاری کا بھی اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ مصنف کے علاوہ اس کی کتاب کے بارے میں لوگوں کے ساتھ بات کرےاور اپنی رائے بھی پیش کرےتاکہ لوگ اس کتاب کی طرف مائل ہوجائیں۔دراصل سبزا احمد بٹ خود بھی نہایت ہی ذہین اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، اسی لیے لوگ ان کی تحریریں پسند بھی کرتے ہیں اور ان کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔اس باصلاحیت نوجوان نے لگ بھگ ہر موضوع پر طبع آزمائی کی ہے۔آپ شاعری بھی کرتے ہیں اور ان کی اکثر غزلیں بھی ان کے مضامین کی طرح وادی کے مشہور اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اگر آپ اسی محنت اور لگن کے ساتھ لکھتے رہیں گے تو وہ وقت دور نہیں جب آپ ادبی دنیا پر چھائے رہیں گے اوراپنی تخلیقات سے قارئین کو روشناس کرتے رہیں گے، میں اپنےاسی بھائی کےلئے ایک شعر پیش کرتا ہوں کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
عکس حیات کو ادبی دنیا کے شیدائیوں نے کافی سراہنا کی ہے اور اس کتاب کو انہوں نے نوجوان نسل کےلئے بہترین کتاب کی سند پیش کی ہے کیونکہ اس کتاب میں شامل مضامین کا اگر گہرا مطالعہ کیا جائے تو معاشرہ بہت ہی خوبصورت بن جائے گا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نوجوان نسل آج کل کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ فضولیات اور سوشل میڈیا میں لگے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ برے کاموں کی طرف جاتے ہیں مگر اس مرض کی دوا بھی سبزار بٹ کی اسی کتاب میں موجود ہے جو موبائل فون اور گھروں کا بگڑتا ماحول، عصر حاضر کی نوجوان نسل منشیات کے دلدل میں، اخبار بینی کا کم ہوتا رجحان اور ہماری نئی نسل جیسے مضامین کی صورت میں اس کتاب کی زینت بنے ہوئے ہیں۔غرض قوم کو ایسے نوجوانوں کی کافی ضرورت ہے جو لوگوں کو معاشرے میں پھیلی برائیوں کی طرف توجہ مبذول کراکے ان کے سدباب کی راہیں بھی دکھائیں، مجھے سبزار جیسے نوجوان نسل سے بہت ہی پیار ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو علم کی دولت عطا فرمائے۔ آمین
(رابطہ۔7006259067 )