اس کالم کا آغاز اپنے ہی دو 'اشعار سے کررہا ہوں۔
الفاظ کو نچوڑو تو لہو نہیں بہتا
کچھ رنگ ہے باتوں کا کہنے میں نہیں آتا
جانے کا ارادہ ہے رُکنے کی تمنا بھی
میں خود کو ہی خود سے متحد نہیں پاتا
(یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ میں فکشن رائیٹر ضرور ہوں، کہانیاں لکھتا ہوں اور ڈرامے لکھا کرتا تھا، مگر شاعر نہیں ہوں۔ بس کبھی کوئی خیال منظوم صورت میں ذہن سے ابھرتا ہے جسے لکھ دیتا ہوں۔ وزن، بحر، ردیف قافیہ کے "جھمیلوں" میں نہیں پڑتا)۔
عظیم مفکروں کا یہ تجزیہ صحیح ہے کہ جذبہ ہمدردی کے دوہرے جزو ہوتے ہیں۔ ایک جذباتی جز اور دوسرا شعوری جز۔ جذباتی ہمدردی کا تعلق ہمارے طاقت ور احساسات سے ہوتا ہے جن سے ہمیں دوسروں کے جذباتی تجربے محسوس ہوتے ہیں، جب کہ شعوری ہمدردی وہ ہوتی ہے جس میں ہم دوسرے کے احساسات کو سمجھنے کے لئے وجہ کا عنصر بروئے کار لاتے ہیں۔ ہمدردی کے وقت دونوں عنصر کام کرتے ہیںمگر اب پیسہ کمانے کے جنون اور عیاشیوں نے انسانی ضمیر سے زندگی ہی چھین لی ہے۔ چنانچہ نفس امارہ اس پر قابض ہوگیا ہے۔ ضمیر کی زندگی خوف خدا کے محور پر چلتی ہے۔ ضمیر ایک مچھلی کی مانند ہے جس کی زندگی کی غذا خوف خدا کی کیفییات یا جذبہ ہے۔ جب اس کے محل سے ہی پانی خشک ہوگیا تو مچھلی بھی بے جان ہوگئی، نفس کی گرفت اس پر سخت ہوگئی۔ چنانچہ اس کی صفات بھی بدل گئیں او ر عفونت پھیلنے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ اب کسی کے تڑپنے پر انسانی ضمیر تڑپ نہیں جاتا۔ انسانی سوچ جب ضمیر کے پہریدار سے ہی آزاد ہوگئی تو یہ سوچ سادیت پسند بن گئی۔ یہ اب دوسرے کی تڑپ سے لطف لے رہی ہے۔ اسے اب دوسروں کی زندگی چھیننے میں مزا آتا ہے، کیونکہ یہ اب بے خوف ہوچکی ہے۔ اس نے غلط چیزوں پر ٹوکنے والے ضمیر کے پہریدار کا ہی گلا گھونٹ دیا ہے، اسی لئے اب نفس کا غلام بن چکا ہے چنانچہ اب جعلسازیوں، بدکاریوں، بے رحمیوں، غارت گریوں، عصمت دریوں، فریب کاریوں، جھوٹ اور مکاریوں سے کام لینے پر نہ ڈرتا ہے اور نہ پریشان ہوتا ہے بلکہ لطف لے لیتا ہےاور ہم ہیں کہ پھر بھی بے شرمی کا یہ دعوی۔۔۔۔۔۔۔۔ "ییتھی چھی تیتھی توتی چھی چانی!"۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
زندگی آج اپنی قیمت ہی نہیں بلکہ قدر بھی کھوچکی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر ہمدردی کا جذبہ مفقود ہوچکا ہے۔ ہمدردی اصل میں ضمیر کی صفت ہے، اب جب کہ انسان نے اپنا ضمیر ہی طمع دنیا کے خنجر سے لہو لہان کرکے چھوڑا ہو تو ظاہر ہے اس کی صفات نے بھی دم توڑا ہوگا۔ اب اگر کہیں اس کی کچھ رمق باقی بھی ہے تو یہ صفت اپنی اصلی اور حقیقی حالت میں ظاہر نہیں ہے۔ یہ انسانی ضمیر ہی ہے جو کسی کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے اور اس میں بھی دوسرے کی تکلیف کے احساس سے درد کی تاثیر پیدا ہوتی ہے، اور اسی درجے میں اس کی ہمدردی کی صفت حرکت میں آتی ہے اور انسان دوسرے کی مدد پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ ہمدردی کی اس صفت میں دوسروں کے کام آنے کی قوت کا دارومدار ضمیر کے حساس ہونے کی استعداد پر منحصر ہے۔ ضمیر میں جتنی طاقت ور زندگی ہوگی ہمدردی کی صفت بھی اسی معیار کی ہوگی، مگر افسوس یہ ہے کہ دولت جمع کرنے کے جنون اور عیاشیوں کی لت نے انسانی ضمیر کی وہ حالت بدل دی ہے جس حالت میں اس کو قدرت نے عطا کیا تھا۔ چنانچہ اب اس میں ایسی تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں کہ اس میں خوفناک ہی نہیں بلکہ خطرناک خصلت کا مظاہرہ ہورہا ہے، جس کااب واضح طور ہر کس وناکس کو مشاہدہ بھی ہورہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اپنی محمودہ صفات کے بدلے اس میں حصائل ِرذائل پیدا ہوگئی ہیں۔ وجہ یہ کہ نفس امارہ نے اسے پوری طرح دبوچ لیا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہوگی کہ مجھے اب اپنا آپ بھی اپنے آپ کو پسند نہیں آتا! ش م احمد صاحب نے جب ’’کشمیر عظمیٰ ‘‘میں میرے مضامین کے ساتھ فوٹو چھاپنے کے لئے فوٹو بھیجنے پر اصرار کیا تھا تو میں نے یہی کہا تھا کہ بھائی میں دکھانے کے لائق چیز ہوں ہی نہیں۔ اپنا ہی ایک شعر ہے ؎
جو خود کو پسند آوے وہی دوسرے کو بھاوے
میں نے تو سائیں توڑ کے آئینہ رکھ دیا
اب زندگیاں پیسوں اور مال ودلت سے جڑچکی ہیں۔ پیسوں کے بغیر انسان اب اپنی نظروں میں بھی بے وقار ہے اور دوسروں کے نزدیک بھی اس کی قدر کوڑے کے برابر بھی نہیں۔ کوڑا تو خاکروب ہٹا دیتا ہے مگر غریب اور لاچار انسان مر بھی جائے اسے ہٹانے کے لئے بھی کوئی انتظام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تمام اخلاقی اور روحانی قدروں کو فرسودہ اور بے ہودہ خیالات سے زیادہ کوئی وقعت نہیں ہے اور پیسہ ہی انسان کی عزیز ترین چیز بن گئی ہے اور اس کے ساتھ اس کی پوری زندگی کا تعلق بن گیا ہے۔ اب اگر انسان کو کسی چیز سے واقعی محبت ہے تو وہ پیسہ ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اولادیں انسان کی پسند بن گئی ہے اور وہ اس پسند کو محبت اور شفقت کا نام دے رہا ہے۔ ماں باپ بوڑھے ہوں تو انہیں کسی کام کا نہ جان کر بوجھ خیال کیا جاتا ہے۔ سماج میں رسوائی کا خطرہ نہ ہوتا تو انہیں بھی کسی بوری میں ڈال کر دریا میں پھینک دینے کامشغلہ جاری ہوگیا ہوتا۔ اب بوڑھے ماں باپ کا وقار بس چوکیداری کی ضرورت پر پہنچا دیا گیا ہے کہ بیٹا ڈیوٹی پر چلاگیا یا بہو بھی ڈیوٹی پر چلی گئی ،یا اسے بازراروں میں یوں ہی آوارہ سا گھومنے کا خیال آگیا تو یہ کام گھر میں موجود بے وقعت بوڑھوں کے ذمہ ہے کہ گھر کا خیال رکھیں اور بچے جب سکول سے آجائیں تو ان کو سنبھال لیں۔ اب اگر بوڑھا بیمار ہے تو اسے ہسپتال میں پھینکا جاتا ہے، ہسپتال والوں نے بھی اگر حسب ِروایت واپس پھینک دیا تو اسے گھر کے ہی کسی کمرے میں بند کردیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے جان نہ دیدے۔ اب اگر کوئی مال ودولت والا ہے تو وہ گھر میں موجود بوڑھے کے لئے نوکر کو رکھ لیتا ہے اور پھر وہی نوکر اپنے مالک اور بوڑھے کے بیٹے کے درمیان رابطہ رہ جاتا ہے کہ بیٹے کو باپ کی یہ کومینٹری سناتا رہے کہ بوڑھے کی صحت کس ڈگر پر ہے اور زندگی کے امکانات کس رفتار سے بگڑ رہے ہیں۔
آج شوہر اپنی بیوی کا ایسا غلام بن چکا ہے کہ لگتا ہے اس غلام کے مقابلے میں اگلے زمانے کا غلام تو لاکھ درجے کا بہتر رہا ہوگا۔ آج کے شوہر نے بیوی کے سامنے ’’ تم اگر شام کو صبح کہو گی تو صبح کہیں گے، تم اگر صبح کو شام کہو گی تو شام کہیں گے‘‘ کی گردان ہی اپنے جینے کا وظیفہ بنالیا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ سب اور سارے شوہر ایسے ہی ہیں بلکہ کچھ بیٹے اور بہوئیں تو مثالی بھی ہیں اور ان کو دیکھ کے تمنا ہوتی ہے کہ کاش سارے ایسے ہی ہوتے تو یہ دنیا بڑی خوبصورت لگتی، مگر عام طور جو مشاہدہ ہورہا ہے میں نے اسی حوالے سے بات کی ہے۔بہرحال اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یہ جو 2019 عیسوی سال آیا ہے، یہ سب کے لئے خوشیوں اور مسرتوں کا سامان لے کر آئے، اب نہ کسی کا گھر اُجڑے اور نہ زندگیاں چھیننے کے کھیل ہی جاری ہوں۔ ہماری دعا ہے کہ سب لوگ اپنی زندگی کو دوسروں کی زندگیوں کی تاک میں لگانے کے بجائے اپنی زندگی کا سرمایہ دوسروں کی زندگیوں کے سنوارنے پر لگانے کا سلیقہ سیکھ جائیں اور ہر جگہ سے بربریت کے مشغلے بند ہوں۔آخر میں محسن نقویؔ کی نظم سے پہلے اپنے دو اور اشعار قارئین کی نذرکررہا ہوں ؎
میں نے سونگھے جو پتھر تو خوشبو پائی
میرے گل دانوں میں جھانکو تو کنکر ہوں گے
تیری تاریخ ہے فرسخ کی مسافت سائیں
ناپو گے سفر میرا تو سمندر ہونگے
محسن نقوی کی نظم پیش خدمت ہے ؎
نئے سال کی صبحِ اول کے سورج!
میرے آنسوؤں کے شکستہ نگینے
میرے زخم در زخم بٹتے ہوئے دل کے
یاقوت ریزے
تری نذر کرنے کے قابل نہیں ہیں
مگر میں
(ادھورے سفر کا مسافر)
اُجڑتی ہوئی آنکھ کی سب شعائیں
فِگار انگلیاں
اپنی بے مائیگی
اپنے ہونٹوں کے نیلے اُفق پہ سجائے
دُعا کر رہا ہوں
کہ تُو مسکرائے!
جہاں تک بھی تیری جواں روشنی کا
اُبلتا ہوا شوخ سیماب جائے
وہاں تک کوئی دل چٹخنے نہ پائے
کوئی آنکھ میلی نہ ہو، نہ کسی ہاتھ میں
حرفِ خیرات کا کوئی کشکول ہو!۔
کوئی چہرہ کٹے ضربِ افلاس سے
نہ مسافر کوئی
بے جہت جگنوؤں کا طلبگار ہو
کوئی اہلِ قلم
مدحِ طَبل و عَلم میں نہ اہلِ حَکم کا گنہگار ہو
کوئی دریُوزہ گر
کیوں پِھرے در بہ در؟
صبحِ اول کے سورج!
دُعا ہے کہ تری حرارت کا خَالق
مرے گُنگ لفظوں
مرے سرد جذبوں کی یخ بستگی کو
کڑکتی ہوئی بجلیوں کا کوئی
ذائقہ بخش دے!
راہ گزاروں میں دم توڑتے ہوئے رہروؤں کو
سفر کا نیا حوصلہ بخش دے!۔
میری تاریک گلیوں کو جلتے چراغوں کا
پھر سے کوئی سِلسلہ بخش دے
شہر والوں کو میری اَنا بخش دے
دخترِ دشت کو دُودھیا کہر کی اک رِدا بخش دے!۔
(محسن نقوی 15 جنوری 1996 کو 50 سال کی عمر میں لاہور پاکستان میں انتقال کرگئے)۔