بلاشبہ اختلاف ہمارے دین کا حسن ہے لیکن ہمارے معاشرے نے اس حسن کو مسخ کرکرکے رکھ دیا ہے اور اسے تفرقے کا روپ دے دیا ہے۔آج ہمارے معاشرے کے زیادہ تر افراداس قدر تنگ نظر ہو چکے ہیں کہ کسی مجلس میں گفتگو کے دوران اگر کوئی فرد اُن سے اختلاف کرتا ہے تو وہ اُسے اپنا دشمن تصور کرنے لگتے ہیں۔عموماً جب کسی کے پاس اپنے مخاطب کے اختلاف کے جواب میں کوئی مدلل جواب نہیں ہوتا تو وہ اس کی دلیل ماننے کی بجائے اُس کی ذات پر بات شروع کر دیتا ہے،جس کی بنیادی وجہ اُس تربیت کی کمی ہوتی ہے جو اُسے مدلل اختلاف کو بخوشی قبول کرنے کے حوالے سے نہیں ہوتی ہے۔اسی طرح اگر ہم اپنے معاشرے کی مجموعی تصویر پر نظر ڈالتے ہیں تو صورت حال یکسان دکھائی دیتی ہے ۔چونکہ بدقسمتی سے عالم کُل اور عقل کُل ہونے کے خناس نے ہمارے معاشرے کے زیادہ تر افرادکو سوچنے،سمجھنے اور برداشت کرنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ہے ،اس لئے وہ سبھی بحیثیت معاشرہ صم بکم عمی کی جیتی جاگتی مثال بن چکے ہیں۔پچھلے کچھ برسوںسے توسوشل میڈیا کے توسط سے ایک دوسرے کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کرنا بھی معمول سا بن گیا ہے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف باہمی مخالفت اورر لعن طعن کرنے کے لئے ایک نیٹ ورک قائم کر دیا ہے،جس کے تحت عام آدمی ہو یا کسی بڑے رتبے والا، کسی کی عزت نفس محفوظ نہیںرہتی ہے۔حالانکہ کہا تو یہی جاتا ہے کہ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے مگر زبان سے لگایا زخم کبھی نہیں بھرتا ، سب سے بڑی آفت آفاتِ الاسان ہے ۔ بغور جائزہ لینے پر یہی دکھائی دیتا ہے کہ اس بد کلامی اور بد زبانی میں سب سے بڑا کردار فلموں ، ڈراموں اور سوشل میڈیا کے مختلف ورژن میں بولے جانے مکالمے اور کلمات ہیں، جس نے نہ صرف ادب و احترام کے پرخچے اڑا دیئے ہیں بلکہ حیا سوزی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ۔ والدین ، اساتذہ اور بزرگ حضرات سب کے سب اس بدکلامی اور بد زبانی کی جارحیت کا شکار ہیں ۔ لیڈروں کی جلسے اور جلوسوں میں مخالفین کے حوالے سے نازیبا گفتگو کو رواج عام حاصل ہو گیا ہے۔اس زبان کی اباہیت نے انسانی تکریم کو مکمل طور پر پا مال کردیا ہے ۔بد زبانی اور بد کلامی اب ہمارے معاشرے کا ایسا انتشار اور فتنہ ہے کہ اگر اس کے سامنے بندھ نہ باندھا گیا تو رشتوں کے تقدس کے ساتھ ساتھ خاندان اور پورےمعاشرے کے بکھرجانے کا احتمال ہے۔ ظاہر ہے کہ برداشت اور رواداری دین اسلام کا خاصہ ہےاورہم اس کے پیروکار ہوتے ہوئے بھی اپنے سبھی معاملات شدید عدم برداشت کا شکار ہیں۔اختلاف رائے تو ہمارے اسلاف کے زمانے میں بھی موجود تھی لیکن اُنہوں نےاس اختلاف کے حسن کو ہمیشہ برقرار رکھا ،کبھی بھی برداشت اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور نہ کبھی دائرہ اخلاق سے باہر ہونے دیا۔ لیکن آج ہمارے معاشرے میں کہیں پر بھی رواداری اور برداشت جیسی اسلامی قدریں نظر نہیں آتیں۔ آج ہر اختلاف پر ایک فرقہ موجود ہے،جس کے لئے صرف اور صرف اپنا نظریہ اور اپنی رائے اہم ہے۔ اس تفرقے اور عدم برداشت کا زہر ہمارے اندر اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے سلام کا جواب تک دینا گوارہ نہیں کرتےاوراپنے نظریات کے پرچار کے لئےہر طرح کی زبان اور الفاظ استعمال کررہے ہیں۔معاشرے کاکوئی بھی شخص اگر کسی کے نظریےیا رائے سے اختلاف کرتا ہے تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ اُسکی ذات سے اختلاف کر رہا ہے اور یہی سوچ دشمنی کی بنیاد بنتی ہے جو تباہی کا باعث ثابت ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بند دماغوں پر علم کو خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی بوجھ کی طرح لادنے کی بجائے انھیں کھولا جائے اور ان کی تربیت اس طرح سے کی جائے کہ انہیں اس بات کا احساس ہو کہ ان کے اِردگرد بسنے والے لوگ ان سے مختلف سوچ اور رائے رکھتے ہیں اور وہ یہ رائے رکھنے میں حق بجانب ہیں اور اس رائے کا احترام ہم سب کا دینی اور معاشرتی فرض ہے۔یارکھیں کہ اگر لوگوں کا دل جیتنا ہو تو اُن سے نرم لہجے میں بات کرو، بہت زیادہ بات کرنا بھی آدمی کی حیثیت کو کم کر دیتا ہے ۔زبان اور لہجے کی سختی سے مخاطب کو نہ صرف تکلیف ہوتی ہے بلکہ وہ متکلم سے ناراض ہو کر دور بھاگتا ہے ۔