خوشنویس میر مشتاق
ایک آواز جو مسلسل کانوں سے ٹکرانے کے بعد ہوا میں یوں تحلیّل ہو گئی جیسے کوئی اَن سنی اَن دیکھی آواز جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہو ۔ یہ کسی مخلوق کی آواز نہیں بلکہ میرے اندر بسے میرے وجود کی آواز تھی ۔ جو بار بار مجھے یہ باور کرانے کی ناکام کوشش کے بعد بھی یہی کہتے ہوئے میرے اندر کہیں دب کر رہ گئی۔
سنو ! میرے محسن یہ زندگی ایک درسِ فنا ہے۔ یہاں ہر زندہ چیز نے بوسیدہ ہو کر اپنے انجام کار کو پہنچنا ہے۔ یہاں ہر ذّی روح کو موت کا مزّہ چکھنا ہے۔ فنّا ہماری مقدّر ہے۔ یہاں کسی بھی شئے کو سوائے اللہ کے بَقا نہیں ہے۔
سنو ! موت ایک ایسی اَٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے ۔ لیکن نہ جانے میں سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی بالکل عدم واقفیت کا مظاہرہ کرتا رہا ایسے جیسے میں زندگی کے انجام کار سے لاتعلق اور بے خبر تھا۔ ایسے جیسے مجھ پر اس مافوق الفطری آواز کا کوئی اثر ہی نہ ہوا ہو۔ ایسی آواز جو شاید۔۔۔۔۔۔ ہاں ! میرے مافی الضّمیر کی آواز تھی۔ جو بار بار میرے ضمیر کو ٹٹولتی جَھنجوڑتی ہوئی یہی احساس دِلاتی رہی کہ زندگی پانی کا ایک بلبلہ ہے جو اصل میں کوئی وجود ہی نہ رکھتی ہو۔ اور اس بات کا عندیہ ہے کہ زندگی کا وجود بھی محض وقتی اور عارضی ہے۔ صدیوں سے دنیائے جہاں کو روشن اور منّور کرنے والا سورج بھی بالآخر بے نور ہو جائے گا۔ سورج کے مانند ہم سے ہماری زندگی کی سانسیں چھینی جائیں گی۔ ہم سے ہمارا برسوں کا اختیار چھینا جائے گا۔ دنیا میں آکر ہر شئے پر اپنا اختیار جتانے کے باوجود بھی ہم بے اختیار ہی اپنے اصل کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اختیار والی ذات تو فقط اللہ کی ہے۔ جس کا ہم سب پر اختیار ہے۔ جو اس نظامِ کل کا اصل خالق و مالک ہے۔ ہر شئے کا اختیار اسی کے پاس ہے۔ جس کیلئے کوئی فنّا نہیں جو ہمیشہ قائم و دائم رہنے والی ذات ہے۔
زندگی خود ایک بہت بڑا فلسفہ ہے جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اور جس کو سمجھنے کے لئے ژرف نگاہی کی ضرورت ہے۔
زندگی کیا ہے ؟؟؟
زندگی اتنی سادہ نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے۔ اس میں بہت پیچ وخم اور نشیب وفراز بھی ہیں ۔ زندگی بہت ہمدرد بھی اور بہت سفاک بھی ہے۔ زندگی مسلسل چلنے کا نام ہے۔ کوئی زندگی سے لڑتے لڑتے تھک جاتا ہے۔ تو کوئی تھک ہار کے تَازہ دَم ہو کر پھر سے محو سفر ہو جاتا ہے۔ زندگی کسی کو روح کا سکون اور ذہنی رفعت بخشتی ہے تو کسی کو سوالیہ نشان بنا کر غم و یاس کی داستانِ حیات بناتی ہے۔ کسی کو امڈتی آنکھوں اور موت کی مسکراہٹ میں بدحال اور رنجیدہ خاطر بناتی ہے تو کسی کو غربت و افلاس کی بے زاری اور اداسی دیتے ہوئے ایک ہیجان کا عالم برپا کرتی ہے۔ کوئی زندگی سے بے نیاز اور بے فکر ہو کر اس کے اِسرارورموز سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے تو کوئی زندگی کے بھّنور میں غوط زَن ہو کر زندگی کی حقیقت سے شناسائی حاصل کرتا ہے۔
زندگی کہیں رات کی تاریکی تو کہیں دن کے روشن تصّور کے رنگ دکھاتی ہے۔ کوئی اسے نظروں کا دھوکا تو کوئی اسے امتحان سمجھ کر محو سفر ہے۔ کوئی اسے آزمائیشوں اور محرومیوں سے تعبیر کرتا ہے تو کوئی اسے جہدِ مسّلسل اور عمل پہیم کا نام دیتا ہے۔
یہی زندگی کبھی تتلیوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ رنگ بکھیرتی ہوئی نظر آتی ہے تو کبھی یہی زندگی مانندِ دریا چیختی چِلاتی ، دھاڑے مارتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ کبھی یہی زندگی وقت کی برق رفتاری کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ دریائے سکوت کے مِثل جامد و ساکن اپنے سینے میں ہزارہا راز چھپائے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
کاش ! زندگی حسین رنگوں کی طرح ہوتی ۔
انسان جس رنگ میں چاہتا، جیسے چاہتا رنگ جاتا۔ جس طرح چاہتا جیسے چا ہتا گزارتا ۔جس سمیت چاہتا جیسے چاہتا زندگی کا رخ موڑ دیتا ۔ پھولوں کی طرح گونہ گوں رنگوں سے سجاتا اور سنوارتا۔ کبھی بھی ، کہیں بھی کوئی رنگ پَھیکا نہ پڑتا۔ کاش ! زندگی قوس و قزح کی طرح یونہی حسین و جمیل ہوتی۔ کاش ! وقت یہیں تھم جاتا۔ وقت کے تیز بہائو کے ساتھ ساتھ چہرے کی کیفیت اور رنگت نہ بدلتی ۔
کاش ! بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ بالوں کا سیاہ مائیل رنگ سفیدی کی صورت نہ اختیار کرتا۔
ہائے زندگی ! تیرے انجام پہ رونا آیا۔ دل خون کے آنسو رونا چاہتا ہے۔ ہائے زندگی ! تیرا آغاز بھی مٹی تیرا انجام بھی مٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
���
ایسو ( اننت ناگ کشمیر)
[email protected]