طبی ماہرین کے مطابق صحت مند ذہن کسی بھی معاشرے کی سماجی، سائنسی اور معاشی ترقی کی ضمانت ہوتا ہے۔ سخت اقتصادی حالات، سیاسی عدم استحکام، امن و امان کی صورتِ حال اورمختلف سماجی و معاشرتی مسائل کی وجہ سے دماغی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں،جن کا ذہنی صحت پر بڑا گہرا پڑتا ہے۔اسی طرح ہوش ربامہنگائی، بنیادی سہولتوں کے فقدان اور سیاسی بحران بھی لوگوں میں مایوسی اور ذہنی دباؤ کی شرح میں اضافہ کردیتی ہے۔ لیکن ہر نفسیاتی مرض کے علاج کے لئے ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اپنے سوچ و فکر کو فعال بنانے، کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی، ورزش کو معمول بنانے اور اپنے وسائل میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے سے ذہنی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔بے شک اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا،ہمیںوہی ملے گا جو تقدیر میں لکھاہوگا، گویاہماری تمام جدوجہد اور تدابیر کا حاصل اس قدر ہے کہ ہمیں اسباب کا پابند کیا گیا ہے اور خالق کی مرضی اور تقدیر میں درج فیصلوں کی ہمیں کوئی علمیت بھی نہیںہوتی ،تاہم تدبیر کے درجہ میں بھرپورتوانائی لگا دینا اہم ہے اور پھرکامیابی کی عطائی کے لئے اللہ سے دعا مانگنا بھی لازمی ہے۔لیکن جب ہم اپنے آپ پر نظر ڈالتے ہیںتوبالکل اس کے برعکس ہوتا رہتا ہے۔ ہم سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتے ہیں،ہم کسی بھی کام میں اللہ پر اعتماد کا سہارا نہیں لیتے،تقدیر کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتےاور جب ناکامی ہاتھ آتی ہے تو ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں،یہاں تک کہ ہم اپنے اقدام کی صلاحیت تک کھو دیتے ہیں۔در حقیقت ایک انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف کا درجہ دیا ہے ،اُس کے لئے لازم ہےکہ ہر معاملے میں تن بہ رضائے الٰہی رہے،تاکہ اُس کے ذہنی سکون اور دماغی سوچ میں بگاڑ پیدا نہ ہوجائے۔موجودہ دور میں ہم اپنے معاشرے میں اکثریہی دیکھ رہے ہیں کہ بیشتر لوگ تنہائی کے شکار ہوکر ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔نہ وہ نفسیاتی ڈاکٹروں سے پاس جاتے ہیں اور نہ اپنے علاج پر توجہ دیتے ہیں،کئی تو اپنے معاشی حالات اور تنگ دستی کے پیش نظر ایسا نہیں کرپاتے اور کئی اپنے اولاد یا اپنے والدین یا رشتہ داروں کی بے رُخی یا غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ایسے کئی مریض اپنی زندگی سے عاجز آ کر خود کشی بھی کرلیتے ہیں۔موجودہ دور میںایک اور سبب ہماری زندگی میں ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہواعمل دخل بھی ہے، اس سے سہولتیں تو بے پناہ حاصل ہوتی ہیں، لیکن بیشتر لوگ اپنی ذہنی صلاحیتوں سے زیادہ اسی پر اعتماد کرنے لگے ہیں،جس سے اُن کی ذہنی صلاحیت پر ہی نہیں بلکہ جسمانی تندرستی پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے۔ موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، ٹیب اور دوسرے آلات کے غیر ضروری استعمال نے اُن کی آنکھوںکی نیندتو چھین لی ہےبلکہ اُن پر ڈالے گئے ہزاروں اور اق کی دید و شنید سے جسمانی اعصاب پر بھی بڑا اثر ڈالاہے گویاجدید ٹیکنالوجی نےاُن کے جذبات و خیالات اور طرز عمل کو اس قدر اور اس طرح متاثر کیا ہے کہ وہ ذہنی طور پر بیمار اور انتشار کا شکار ہو گئے ہیں۔بے شک ہر چیز کے استعمال کی ایک حد ہوتی ہےاور جب کوئی حد سے گذر جاتا ہے تو اُس کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔بے شک صحت مند جسم اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ البتہ مضبوط اور صحت مند جسم کے ساتھ ذہنی صحت نہ ہو تو زندگی کی معنویت ختم ہو کر رہ جاتی ہے، ہم ایسے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جو جسمانی اعتبار سے انتہائی توانااور تر و تازہ ہوتے ہیں، لیکن حرکتیں پاگلوں جیسی کرتے ہیں، ان کے چہرے،چال چلن اور حرکات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہیں۔ایسے میں ضروری ہے کہ ہم ان اسباب ووجوہات پر غور کریں، جن سے ہماری ذہنی صحت مندی متاثر نہ ہوجائے۔ذہنی صحت مندی کو نقصان پہنچانے والی چیزمنفی سوچ اور فکر ہےاور دوسروں کے منفی رویے بھی ذہنی صحت متاثر کرتے ہیں، اس لئے بہتر ہےکہ جب کبھی دوسروں کا منفی رویے سامنے آئے،تو اسے اچھے طریقے سے ٹالنے کی کوشش کریںاور اپنے ذہن و دماغ کو منفی افکار و خیالات سے محفوظ رکھیں،اوریاد رکھیں کہ زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ پر اُمید رہنااور مثبت انداز اختیار کرنا بہت بہترہے۔ واہمے اور نااُمیدی انسان کو کم زور کر دیتی ہے اور کم زور انسان بیماریوں کا گڑھ بن جاتا ہے،اگر یہ حالت مسلسل رہے تو آخر کار انسان ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پیاروں کی زندگی کے لئےبھی روگ بن جاتا ہے۔