ہمیںاکثر لوگ سماج میںبرابری اور مساوات کی رٹ لگانے والے ملیںگے لیکن اگر ہم ان کی باتوں کی جانچ پرکھ عمل کی سکوٹی پر کریں تو یہ دیکھیں گے کہ ان کی باتیں اور دعوے دونوںکھوکھلے اور سچائی سے کوسوں دور ہیں ۔یہ تضاد صرف ہندستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں اور قوموں میں بھی ملتی ہے۔ ہندوستانی سماج نے پیدائش کی بنیاد پر انسانوں کو بانٹ دینا ہزاروں سال پہلے شروع کردیا تھا ۔اس بٹوارے میں کسی کو سماج کے اعلیٰ مقام پر رکھا گیا اور کسی کو نچلے پائدان پر اس کی بنیاد پر سماجی حیثیت اور مقام و مرتبہ کا فیصلہ کیا جانے لگا۔ اصولی طور ہر انسان زندہ رہنے کے لئے کشمکش کر تا ہے اور زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی سلامتی کا ہر ممکن انتظام کرتا ہے ، جب کہ فطرت انسان کو جینے کے لئے برابر مواقع دیتی ہے ۔ دنیا میں پیدا ہوتے ہی سماج انسان کو ذاتوں اور برادریوں میں بانٹ دیتا ہے اور ذات ہی کو سماج میں کسی شخص کے بڑے یا چھوٹے ہونے کا معیار قراردیا جاتا ہے ۔ حالانکہ انسان جب پیدا ایک ہی طریقہ سے ہوتا ہے تو پھر پیدا ہوتے ہی اُسے الگ الگ ذات اور برادریوں میں کیوں باٹ دیا جاتا ہے؟ ہر ایک انسان ماں کی کوکھ سے ہی جنم لیتا ہے، مگر جنم پانے کے ساتھ ہی اُسے ذاتوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ اس طرح نومولود کے دم قدم سے ذات پات کی تقسیم صدیوں پھلتی پھولتی چلی جاتی ہے۔ ذات پات کا مصنوعی ڈھانچہ اپنے استحصال بھی سماج میں اپنی جڑیں جماتا جاتاہے ۔ چناںچہ چھوٹی کہلائی جانے والی ذاتوں کے لوگ صدیوں سے سماجی مر تبت، اخلاقی بلندی، تعلیم کے نور اورتہذیب کے ظہورسے دور ہیں ،جس کا انجام یہ ہے کہ اونچی اور نچلی کہلانے والی ذاتوں کے لوگ باہم دگر تفرقات میں پڑ جاتے ہیں ، اول الذکر لوگ آگے بڑھتے ہیں اور موخرالذکرطبقہ سماج میں پچھڑتا چلا جاتا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ اس ظالمانہ رواج کے خلاف لوگوں نے آواز نہیں اٹھائی۔اگر ہم جدید تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ دیکھیں گے کہ کئی بڑی شخصیات نے اس بدعت اور قبیح رسم ورواج کے خلاف آوازاٹھائی کیونکہ اس سے صرف استحصال کی بھٹی گرم ہوتی چلی آرہی ہے ۔ ہندو مذہب میں چونکہ یہ تفریق حد سے بڑھ کر ہے، اس لئے اس دھرم کوماننے والے کچھ سماجی اصلاح کاروں نے ذات پات اور چھوت چھات کے خلاف ایک لمبی لڑائی آج تک لڑی ۔ آئین ہند کے خالق ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے اس تقسیم کے خلاف زوردار مہم چلائی تھی۔
صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو اسلام میں برابری اور مساوات کو اہم ترین اصول مانا گیا ہے۔ یہاں انسان کے کردار کی کسوٹی پر کسی کا بڑا یا کسی کا چھوٹا ہو نے کا دارومدار ہے ۔ یہ دین ذات پات اور فضول رسم ورواج کے خلاف بولتا ہی نہیں بلکہ کام بھی کرتاہے ۔ آخری رسول ﷺ نے اپنے آخری خطبۂ حج میں یہاں تک فرمایا ہے کہ کسی عربی کو کسی غیر عربی پر اور کسی غیر عربی کو کسی عربی پر کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پرکوئی فوقیت حاصل نہیں ہوگی ۔ اس کے برعکس ہندو دھرم میں ذات پات کا ا تنا گہرااثر ہے کہ یہ نچلی ذاتوں کے ساتھ اونچی ذات والوں کا اکھٹے کھانا کھانے ، ایک ہی مندر میں پوجا پاٹ کر نے ، ایک ہی کنوئیں کا پانی پینے ، شادی بیاہ کر نے سے سختی سے ممانعت کر تاہے ۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسلام ذات پات کے بالکل خلاف ہے لیکن اس حوالے سے اکثر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ جب ذات اور برادری کی بات آتی ہے تو اسلام کے بتائے ہوئے یہ سارے زریں اصول بھلائے جاتے ۔ مانا کہ سبھی مسلمان ایسا نہیں کرتے لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو رشتوں کے ردوقبول اور دیگر سماجی معاملات میں ذات اور برادری کی کھلی حمایت کرتے ہیں ۔ اس صورت حال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دور جاہلیت واپس چلاآیاہے ۔ مزید برآں جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا سماج بہت جدیدیت پسند ہے اور ترقی کر چکا ہے وہ آدھا سچ بولتے ہیں ،جب کہ پوری حقیقت یہ ہے کہ ذات پات اور برادری اِزم سے اوپر اٹھ کر لوگ آپس میں سماجی تعلقات قائم کر نے کو تیار ہوتے ہیں اور نہ شادی بیاہ میں اس انسانی تقسیم کو برا مانتے ہیں ۔ ذات پات کی اس بیماری کا ہی یہ اثر ہے کہ اپنے آپ کو لبرل اور کمیونسٹ نظریات کا حامی کہلانے والے بھی ذات پات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ان ساری چیزوں کو دیکھ کر آدمی کو مایوسی ہوتی ہے اور وہ سوچتا ہے کہ وہ دن کب طلوع ہو جب سماج میں ذات پات اور برادری ازم کی لعنت کا خاتمہ ہو۔اس بارے میںمایوس ہونے سے قطعی طور کام نہیں چلے گا ۔ہمیںسماج میں صحت مند خیالات رکھنے والوں سے اُمید باندھنی ہوگی کہ وہ سماجی اصلاح کی نشترز نی سے ان ناگفتہ بہ حالات کو ایک دن ضرور بدلیںگے کہ وسیع القلب اور وسیع الدماغ لوگوں کے چلتے ہی سماج میں اونچ نیچ کی اس غیر فطری تقسیم کے مجرمانہ اثرات زائل ہو کر رہیں گے ، اگر چہ اس میں وقت ضرور لگے گا۔ ہمیں اپنے سماج کی اس جدیدبناوٹ اور مساوات پر مبنی صالح معاشرے کے قیام کے لئے خواب ضرور دیکھنے چاہیے لیکن اس کے لئے مقدور بھر کاوشیں بھی کرنی چاہیے ۔ جو لوگ سماج میں ذات پات اور اونچ نیچ کی آڑ میں خود غرضانہ استحصال کی چکی چلاکر صدیوں سے پچھڑ ے ہوئے طبقات کو تعلیم اور ترقی کے میدانوں میں پیچھے دھکیل رہے ہیں، ایک نہ ایک دن اُن کی ناکامی سے سماج اور ملک اس تقسیم سے چھٹکارا پائے گا اور کمزور یا پچھڑہوؤں کو بھر پورمعاشی ترقی اور سماجی عزت ملے گی ۔ آئیے اپنے سماج میں ذات پات اور اونچ نیچ کی سرخ لائین کا خاتمہ کریں ، سب انسانوں کو مساوی درجہ دیں،ہر ایک کی عزت کریں اور انسان کی اچھائیو ں اور برائیوں کو اس کے سماجی درجے کے تعین میں شامل کر یں ۔ اس کام کی شروعات سب سے پہلے ہم اپنے آپ سے کریں اور پھر آہستہ آہستہ دوسروں کو اس کار خیر میں شامل کریں۔
موبائل نمبر ۔ 9797315344