انسان کے لئے یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، جس میں اسے مختلف آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پروردگار نے اس کارگاہِ عالم فانی میں آرام و تکلیف،رنج و غم،دوست دشمن،بیماری تندرستی اور طرح طرح کی صَدہا راحتوں اور مصیبتوں کو پیدا فرما کر سب مخلوق اور خاص طور پر انسان کو اس میں مبتلا کیا۔ جیسا کہ اُس نے فرمایا:’’درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔‘‘(البلد:4) اسی حقیقت کو نبی اکرم ﷺ نے ایک حدیثِ پاک میں یوں بیان فرمایا ہے:’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چوکھٹا خط کھینچا،پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا۔اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا، چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے، جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو(بیچ کا) خط باہر نکلا ہوا ہے ،وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔پس انسان جب ایک(مشکل) سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے‘‘۔(بخاری:6417)
انسان ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت کی صبح تک گوناگوں حالات اور پریشانیوں میں مبتلا رہتا ہے۔مگر اپنے ربِ کریم کا کرم تو دیکھئے۔ اس نے انسان کو بے یارومددگار نہیں چھوڑا بلکہ زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ ہی اُس نے ایسی احتیاطی تدبیریں بھی مقرر فرمادی ہیں، جن پر گامزن رہنے سے پریشانیاں دور ہو سکتی ہیں۔جیسے سردی سے بچانے کے لئے گرم سامان اور گرمی سے بچانے کے لئے ٹھنڈ پہنچانے والی چیزیں،دشمن سے بچانے کے لئے سامانِ جنگ،رنج و غم کے دور کرنے کے لئے آرام و راحت کے اسباب،بیماری کے دور کرنے کے لئے دعائیں اور دوائیں پیدا کیں۔ایک حدیثِ پاک میں ہے:
’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اُتاری، جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔‘‘(بخاری:5678)
درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی رنج و غم،تکلیف و مصیبت ڈالنے والا ہے اور وہی ان مصیبتوں کو دور فرما کر انسان کو آرام و راحت،صحت و تندرستی اور چین و سکون عطا فرماتا ہے۔وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور مختار کُل ہے۔جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے،اپنے پیارے بندے کی بھلائی اس میں دیکھتا ہے کہ وہ صرف اسی کو پُکارے اور پُکارتا رہےاور سچ مچ میں رب کے سوا کون ہے جو اس کو اِن گوناگوں حالات اور پریشانیوں سے چُھٹکارا دلا سکتا ہے؟انسان ہر مصیبت کو دور کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی سہارا ضرور تلاش کرتا ہے۔وہ اسی پر قناعت نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھار وہ اپنے سے بڑی ذات کا وسیلہ و ذریعہ ٹھہراتا ہے اور اسی کا دامن پکڑ کر نجات حاصل کرنے کے خواہاں رہتا ہے۔لیکن جب ان سبھوں کے دربار سے مایوسی کے سوا اسے کچھ ہاتھ نہیں آتا تو ان تمام مادی اور ظاہری ذریعوں سے منہ پھیر کر ایک اللہ کے پاس واپس لوٹ کر اسے عاجزی،انکساری اور آہ وزاری سے پُکارتا ہے۔اللہ رب العزت اس گناہگار بندے کے ماضی کو بھول کر اسے بالآخر اپنی دامنِ رحمت میں چھپا ہی لیتا ہے۔جب خدا ہی اس آڑے وقت و مصیبت میں کام آنے والا ہے تو ہر حالت میں اسی کو پُکارنا چاہئیے اور بندے کی نجات بھی اسی راستے میں پنہاں ہے۔کب تک بندہ دوسرے درباروں کے دروازوں کو کھٹکھٹائے گا،وہاں ذلت و رسوائی ہی اس کے ہاتھ آئے گی۔دوسرے عاجز و محتاجوں کو پُکارنے سے کیا فائدہ کیوں کہ وہ تو اس کی پُکار بھی نہیں سنتے ہیں ، وہ اسکی کیسے حاجت روائی کریں،یہ کھیل دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ارشاد ربانی ہے:’’آخر اُس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ اِس سے بھی بے خبر ہیں کہ پُکارنے والے اُن کو پکار رہے ہیں۔‘‘(الاحقاف:5)
اس آیتِ مبارکہ کے تحت مولانا سید مودودیؒ نے ایک ایسا شاندار اور جاندار نوٹ لکھا ہے کہ جس کو پڑھتے ہی انسان کے ذہن سے دعا کے متعلق بہت سارے غلط تصورات یک دم چُھٹ جاتے ہیں اور وہ ایک صالح فکر کو پروان چڑھاتے ہوئے رب کے در کا سوالی بن ہی جاتا ہے۔لکھتے ہیں:’’جواب دینے سے مراد جوابی کاروائی کرنا ہے نہ کہ الفاظ میں بآواز جواب دینا یا تحریر کی شکل میں لکھ کر بھیج دینا۔مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اگر ان معبودوں سے فریاد یا استغاثہ کرے،یا ان سے کوئی دعا مانگے،تو چونکہ ان کے ہاتھ میں کوئی طاقت اور کوئی اختیار نہیں ہے،اس لیے وہ اس کی درخواست پر کوئی کارروائی نفی یا اثبات کی شکل میں نہیں کرسکتے‘‘۔
قیامت تک جواب نہ دے سکنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ دنیا باقی ہے، اس وقت تک تو معاملہ صرف اسی حد پر رہے گا کہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب ان کی طرف سے نہ ملے گا،لیکن جب قیامت آجائے گی تو اس سے آگے بڑھ کر معاملہ یہ پیش آئے گا کہ وہ معبود اپنے ان عابدوں کے الٹے دشمن ہوں گے،جیسا کہ آگے کی آیت میں آرہا ہے۔
یعنی ان تک ان پکارنے والوں کی پکار سرے سے پہنچتی ہی نہیں۔نہ وہ خود اپنے کانوں سے اس کو سنتے ہیں،نہ کسی ذریعہ سے ان تک یہ اطلاع پہنچتی ہے کہ دنیا میں کوئی انہیں پکار رہا ہے۔اس ارشاد الٰہی کو تفصیلاً یوں سمجھیے کہ دنیا بھر کے مشرکین خدا کے سوا جن ہستیوں سے دعائیں مانگتے رہے ہیں وہ تین اقسام پر منقسم ہیں۔ایک بےروح اور بےعقل مخلوقات ،دوسرےوہ بزرگ انسان جو گزر چکے ہیں۔تیسرےوہ گمراہ انسان جو خود بگڑے ہوئے تھے اور دوسروں کو بگاڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔پہلی قسم کے معبودوں کا تو اپنے عابدوں کی دعاؤں سے بے خبر رہنا ظاہر ہی ہے۔ رہے دوسری قسم کے معبود،جو اللہ کے مقرب انسان تھے،تو ان کے بےخبر رہنے کے دو وجوہ ہیں۔ایک یہ کہ وہ الہ کے ہاں اس عالم میں ہیں جہاں انسانی آوازیں راہ راست تک نہیں پہنچتیں۔دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی ان تک یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ جن لوگوں کو آپ ساری عمر اللہ سے دعا مانگنا سکھاتے رہے تھے، وہ اب الٹی آپ سے دعائیں مانگ رہے ہیں،اس لیے کہ اس اطلاع سے بڑھ کر ان کو صدمہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی،اور اللہ اپنے ان نیک بندوں کی ارواح کو اذیت دینا ہرگز پسند نہیں کرتا۔اس کے بعد تیسری قسم کے معبودوں کے معاملہ میں غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان کے بےخبر رہنے کے بھی دو ہی وجوہ ہیں۔ایک یہ کہ وہ ملزموں کی حیثیت سے اللہ کے ہاں حوالات میں بند ہیں، جہاں دنیا کی کوئی آواز انہیں نہیں پہنچتی۔دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی انہیں یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ تمہارا مشن دنیا میں خوب کامیاب ہو رہا ہے اور لوگ تمہارے پیچھے تمہیں معبود بنائے بیٹھے ہیں،اس لیے کہ یہ خبریں ان کے لیے مسرت کی موجب ہوں گی،اور خدا ان ظالموں کو ہرگز خوش نہیں کرنا چاہتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
mail:[email protected]