کائنات میں انسان بہت سے امتیازات و اختیارات رکھنے کے باوجود اپنے خالق و مالک کے سامنے بے بس اور مجبور ہے۔ہر لحاظ اور ہر آن اس کی بارگاہ کا محتاج ہونے کے وجہ سے یہ ضروری تھا کہ اسے دربدر پھرانے کے بجائے مانگنے کا طریقہ بتلایا جائے۔چناچہ حضرت آدمؑ کو جب خطا سرزد ہوئی تو وہ اسی بات میں متفکر تھے کہ اب اپنے مشفق رب کو کیسے منائیں؟ان کی ناراضگی کو کیسے رضامندی میں تبدیل کرائیں؟انہیں کن الفاظ اور کس نہج میں پکاروں؟اسی فکر نے انہیں بے چین اور اندر سے کھوکھلا کر رکھا تھا۔انہیں اللہ کی ناراضگی کے احساس سے زبان بند ہو چکی تھی۔دل اس صدمے سے خون خون ہو رہا تھا۔رات دن آنسو بہانے کے سوا انہیں کوئی کام نہ تھا۔ان کی یہ شکست و ریخت،درماندگی اور فروتنی اللہ کے حضور کام آئی،رحمتِ حق جوش میں آئی تو انہیں فوری طور پر کہا گیا کہ ادھر اُدھر بھاگنے کے بجائے اپنے رب کے حضور آکر چند کلمات کو لے لیا کریں۔ان کلمات کو پکڑ کر وہ اپنے رب کو پورے ذوق و شوق،شعور اور نہایت ہی عاجزی و فروتنی کے ساتھ پکارنے لگے۔قرآنِ پاک میں ہمیں اس تاریخی حقیقت کا تذکرہ نہایت ہی اختصار کے ساتھ ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتا ہے:
’’پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب کی طرف سے چند کلمات،تو اس نے اس کی توبہ قبول کی۔کیونکہ وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘۔(البقرہ:37)
جن کلمات کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں بطورِ تحفہ عطا فرمائے، ان کا تذکرہ ذیل کی آیت میں اس طرح آیا ہے:
’’اے ہمارے رب!ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔اب اگر آپ نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقیناً نامرادوں میں سے ہو جائیں گے‘‘۔(الاعراف:23)
اس آیت کے ذیل میں مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ نے ایک ایسا دلفریب اور شاہکار نوٹ لکھا ہے کہ جس کو پڑھتے ہی انسان رب کے دربار میں ندامت کے آنسو بہانے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے اور اس کے در کا فقیر بننے میں فخر محسوس کرنے لگتا ہے۔لکھتے ہیں:
یعنی جیسے ہی انھیں تنبیہ ہوا اور پروردگار نے انھیں ان کی غلطی پر ٹوکتے ہوئے پکارا تو بےساختہ ان پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو گناہ کے شدید احساس کے بعد طاری ہوتی ہے اور فوراً انھوں نے اپنے رب کے دروازے پر دستک دی اور جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، انھوں نے سب سے پہلے نجانے کتنی گریہ وزاری کے بعد اپنے رب سے وہ کلمات سیکھے ،جن سے وہ اپنے رب کو پکار سکیں اور پھر انھوں نے اپنے رب کو پکارتے ہوئے کہا کہ اے ہمارے رب! ہم کوئی عذر پیش نہیں کرتے کہ ہم سے یہ گناہ کیوں سرزد ہوا،ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے یہ حرکت کر کے آپ کی شان میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ اپنے نفسوں کو تباہ کیا اور اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا ہے۔کیونکہ ہماری جانیں آپ کی عطیہ ہیں،ہمارا جسم آپ کی دین ہے،ہمارے احساسات آپ کی عطا کردہ نعمت ہیں،ہماری قوتیں سراسر آپ کی بخشش ہیں،ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سب آپ کا ہے ۔اس لحاظ سے ان سب کا آپ کے سامنے جھکنا آپ کا حق ہے، ہم نے اس حق کو کسی دوسرے کے حوالے کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔اب ہم اپنے اس گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے آپ ہی سے دست بستہ پوری عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ آپ ہمارے اس گناہ کو معاف فرما دیں، ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ آپ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں:
جس نے دیا ہے درد وہی چارہ گر بھی ہے
کہنی ہے چارہ گر سے ہی خود چارہ گر کی بات
ہمارے اس درد کی چارہ گری صرف آپ کے ہاتھ میں ہے اس لیے ہم آپ ہی کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور آپ ہی کے آستانے پر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ اس آستانے کے سوا ہمارا کوئی آستانہ نہیں اور اس خزانے کے سوا کوئی اور خزانہ نہیں، جہاں سے یہ قیمتی سوغات ملتی ہو۔ اس لیے آپ ہم پر رحم فرمائیں اور ہمارے گناہ کو معاف فرما دیں کیونکہ ہماری معافی کا تعلق سراسر آپ کے رحم و کرم سے ہے۔گناہ گار کا گناہ صرف رحم و کرم کے پانی ہی سے دھل سکتا ہے ،اس کے علاوہ دنیا کے سمندر بھی اس گندگی کو ختم نہیں کرسکتے۔
اس لیے حضرتؑ آدم اور حضرت حواؑ یہ فرما رہے ہیں کہ’’ تیرے سوا اور آستانہ کوئی نہیں کہ جہاں ہم جا کر معافی کے طلبگار ہوں، اس لیے تو نے اگر ہمیں معاف نہ فرمایا تو پھر ہماری نامرادی اور تباہی میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جائے گی‘‘۔اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ گناہ ابلیس سے بھی ہوا، لیکن اس نے بجائے عجز و اعتراف کے انکار و بغاوت کا راستہ اختیار کیا اور ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ ہوگیا اور گناہ حضرت آدمؑ اور حضرت حوا ؑسے بھی ہوا لیکن وہ فوراً اللہ کی بارگاہ میں جھک گئے ۔جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ گناہ فرشتوں اور اللہ کے پیغمبروں کے سوا ہر مخلوق سے ہوسکتا ہے کیونکہ چلے بچ کر کوئی کتنا ہی وہ ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے۔
کوئی چال لڑکھڑاہٹ سے پاک نہیں ہوتی،کوئی عمل معصیت کی جراہتوں سے محفوظ نہیں ہوتا،کوئی خیال آوارہ خیالی سے بچا ہوا نہیں ہوتا۔یہاں قدم قدم پر محرکات شر اور آلودگیوں کے بھنور موجود ہیں جن سے ہر وقت محفوظ رہنا اولاد آدم کے لیے آسان نہیں، کسی بھی وقت گناہ کا ظہور ہوجانا بالکل ممکن ہے ۔اس لیے حضرت آدم کا رویہ ہمیں یہ راستہ دکھاتا ہے کہ تم گناہوں سے معصوم پیدا نہیں کیے گئے ہو، تمہارا کام یہ ہے کہ کبھی اپنے اندر انکار کی جرأت نہ پیدا ہونے دینا، یہ ابلیس کا رویہ ہے۔ تم سے اگر غلطی ہوجائے اور کبھی معصیت کے راستے پر پڑجاؤ تو تنبیہ ہوجانے کے بعد فوراً توبہ کا راستہ اختیار کرنا، یہی ابلیس اور آدم کے رویے میں فرق ہے اور اللہ کریم کا یہ وعدہ ہے کہ کسی کے گناہ اگر زمین و آسمان کے درمیانی حصے کو بھر بھی دیں لیکن وہ جب بھی اخلاص اور عاجزی کے ساتھ ہم سے معافی مانگے گا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا یقین دلا دے گا تو ہم اسے معاف کردیں گے بلکہ اس کا کرم اس حد تک بے پایاں ہے کہ وہ صرف گناہوں کو معاف ہی نہیں کرتابلکہ گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔ سورة الفرقان میں اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو آدمی توبہ کرتا ہے اور پھر نیک عمل کا راستہ اختیار کرلیتا ہے :’’تو اللہ ان لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کردیتا ہے‘‘۔(الفرقان:70)
بلکہ بعض دفعہ تو یہ رحمت ایسے جھوم کر برستی ہے کہ گناہ صرف نیکی ہی میں تبدیل نہیں ہوتا بلکہ معافی اور توبہ کی صورت میں ڈھیروں نیکیوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ایک صحابی کا واقعہ ہے کہ ایک دن نیند نہ کھلنے کے باعث ان کی تہجد چھوٹ گئی، جب آنکھ کھلی تو فجر کی اذان ہوچکی تھی۔فجر کی نماز پڑھی لیکن دل غم سے نڈھال ہو رہا تھا اور بار بار آنکھوں میں آنسو آرہے تھے کہ ہائے مجھ سے تہجد کیوں چھوٹ گئی۔پورا دن اللہ سے معافی مانگتے گزارا کہ میں یہ غفلت کی نیند کیوں سویا، جس کی وجہ سے میری تہجد رہ گئی۔ چناچہ دوسرے روز رات کو سوتے ہوئے جب تہجد کا وقت ہوا تو دیکھا کہ انھیں کوئی جگا رہا ہے، انھیں حیرت ہوئی کہ میری خواب گاہ میں کون آگیا،پوچھا کہ تم کون ہو؟وہ بولا میں شیطان ہوں۔ پوچھا:تم کیوں آئے ہو؟کہا میں اس لیے آیا ہوں کہ تمہیں تہجد کے لیے اٹھا دوں۔انھوں نے حیران ہو کر کہا
کہ شیطان تو لوگوں کو تہجد کے وقت سلاتا ہے تاکہ وہ تہجد نہ پڑھ سکیں تم کیسے شیطان ہو جو مجھے تہجد کے لیے اٹھا رہے ہو؟اس نے کہا کہ کل تمہاری تہجد چھوٹ گئی اور تم نے دن بھر رو رو کر برسوں کی تہجدیں اپنے نام لکھوا لیں۔میں آج اس لیے آیا ہوں کہ اٹھو تہجد پڑھو اور ایک ہی تہجد کا ثواب پاؤ۔میں یہ نہیں چاہتا کہ آج پھر اگر تمہاری تہجد چھوٹ جائے تو تم برسوں کی تہجدیں پھر اپنے نام لکھوا لو۔(جاری۔۔۔)