جموں //آئین کی دفعہ 35اے کی حمایت میں بولنے پر جموں بار ایسو سی ایشن نے 2سینئر وکلاء کی رکنیت معطل کرتے ہوئے ان کے نام اظہار وجوہ نوٹس جاری کیاہے ۔اس فیصلے پر بار میں تقسیم پیدا ہوگئی ہے اور جہاں کچھ وکلاء نے معطل کئے گئے ممبران کی حمایت کا اعلان کیا ہے وہیں کچھ نے اس اقدام کی تائید کرتے ہوئے دفعہ 35اے کی تنسیخ پر زور دیا ۔دوروز قبل لگ بھگ 150وکلاء نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کمپلیکس کے احاطے میں ایک میٹنگ منعقد کرکے ریاست کو حاصل خصوصی تشخص پر تبادلہ خیال کیا جس دوران بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر ایڈووکیٹ اے وی گپتا اور سابق ایڈووکیٹ سالسٹر جنرل ایس سی گپتا نے دفعہ 35اے اور دفعہ 370کی حمایت میں بولتے ہوئے خصوصی تشخص کی برقراری پر زور دیاتھا۔اس میٹنگ نے بار ایسو سی ایشن کی نئی منتخبہ کمیٹی کو آگ بگولہ کردیا اور اس کے رد عمل میں ایگزیکٹو کمیٹی نے دو نوں سینئر وکلاء کی رکنیت معطل کردی ۔ اس حوالے سے بار ایسو سی ایشن کے صدر ابھینو شر ما جوبھارتیہ جنتاپارٹی کے ترجمان بھی ہیں ،کی قیادت میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس دوران متفقہ طور پر دونوں سینئر ارکان کی رکنیت معطل کرنے کافیصلہ لیاگیا۔ ابھینو شرما نے بتایاکہ ایگزیکٹو کمیٹی کے سبھی ارکان نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ سنایاکہ بار کے سابق صدر اے وی گپتا اور سینئر وکیل ایس سی گپتا کی بنیادی رکنیت معطل کی جائے اور ان سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کو کہاگیاہے ۔ابھینو شرما کاکہناتھاکہ دو روز قبل بار جموں سے جڑے کچھ وکلاء نے کچھ سیاسی جماعتوںکی ایما پردفعہ 35اے کے دفاع میں بیان دیاتھا اوریہ بیان ان وکلاء کا ذاتی بیان تھا جس سے بار ایسو سی ایشن لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ اس بیان سے جموں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اور سماج میں بار ایسو سی ایشن کے حوالے سے ایک غلط پیغام گیاہے کہ شائد بار کا دفعہ 35اے کے تعلق سے قومی نظریہ سے مختلف ہے ۔انہوں نے مزید کہاکہ بار ایسو سی ایشن جموں دفعہ 35اے کے سخت خلاف ہے اور3اگست 2018کو بار کے جنرل ہائوس اجلاس کے دوران متفقہ طور پر اس کے تنسیخ کا فیصلہ ہواجس کے بعد بار کی طرف سے اس دفعہ کو ہٹانے کیلئے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیاگیا ۔انہوں نے کہاکہ جنرل ہائوس کے فیصلے کے بعد بار ممبران کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اس دفعہ کی حمایت کریں ۔انہیں اپنی ممبر شپ سرینڈر کرناہوگی ۔ان کاکہناتھاکہ مستقبل میں ایسے معاملات خاص طور پر 35اے پر صرف بار کاترجمان ہی رائے ظاہر کرے گا۔بنیادی رکنیت سے معطل کئے جانے کے بعد بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر ایڈووکیٹ اے وی گپتا نے کشمیرعظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ انہیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا نہ ہی معطلی کے بارے میں سناہے ۔ان کاکہناتھا’’آج انہوں نے ایک میٹنگ منعقد کی لیکن بدقسمتی سے میں اس کا حصہ نہیں تھا ،یہ ایگزیکٹو کمیٹی 8سے 10ممبران پر مشتمل ہے جنہیں موجودہ صدر نے چناہے لیکن بار کا سابق صدر ہونے کے باوجود میں اس کمیٹی کا رکن نہیں ہوں ،قبل ازیں سابق صدور کمیٹی کے ارکان ہواکرتے تھے ‘‘۔انہوں نے کہاکہ دفعہ 35اے اور دفعہ 370پر ان کا موقف واضح ہے اور ان دفعات کو مضبوط کیاجائے ۔ان کاکہناتھاکہ ریاست کو ملنے والے خصوصی تشخص کیلئے اہلیان جموں نے بی جے پی کے سابق ایم ایل اے اجے نندا کے داداروپ چند نندا کی قیادت میں مہاراجہ کی حکومت کے دوران ایجی ٹیشن شروع کی تھی ۔ان کاکہناتھا’’اس وقت کے راجہ نے نندا کو شہر بدر کردیا لیکن انہوں نے جموں توی کے کنارے دفتر قائم کیا اورغریب اور کم تعلیم یافتہ ڈوگروں کیلئے جدوجہد جاری رکھی کیونکہ ملازمتیں پڑھے لکھے پنجابی لے جاتے تھے اور انہوں نے جموں میں جائیدادیں قائم کرلی تھیں ‘‘۔انہوں نے کہاکہ یہ جدوجہد خالص جموں کی تھی نہ کہ کشمیر کی جس کے نتیجہ میں خصوصی درجہ ملا ۔ان کاکہناتھا’’ہم نے دفعہ 35اے اور دفعہ 370کڑی جدوجہد کے بعد حاصل کئے اور یہی خصوصی تشخص ریاست کے آئین کا ناقابل تردید حصہ بن گیاجو بیرون ریاست کے لوگوں کو یہاں روزگاراورجائیداد سے روکتاہے ۔انہوں نے الزام عائد کیاکہ یہ لوگ جموں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرناچاہتے ہیں اور ایسا ایک خاص جماعت کی ایما پر کیاجارہاہے ۔اس دوران سابق ممبر قانون ساز کونسل و سینئر وکیل محمد رشید قریشی نے کہاکہ بار کا فیصلہ یکطرفہ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ فیصلہ انتہائی اشتعال انگیزاور قابل مذمت ہے اور سینئر وکلاء نے خصوصی تشخص کی حمایت میں بیان دے کر کوئی غلطی نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے کوئی غیر قانونی کام سرانجام دیا بلکہ وہ آئین میں موجود دفعات کے تحفظ کی مانگ کررہے ہیں ۔ ایڈوکیٹ شیخ شکیل احمد نے بار کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دونوں سینئر وکلاء کی حمایت کا اعلان کیاہے ۔ انہوں نے کہاکہ بار کا فیصلہ قابل مذمت اور غیر آئینی ہے جس سے ایک مخصوص نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جسے برداشت نہیں کیاجاسکتا۔ انہوں نے کہاکہ چند وکلاء بار کے ممبران کی آزادی اظہار رائے پر قدغن لگاناچاہتے ہیں ۔