بلا شبہ جس شخص کا معاملہ سچائی کی بنیاد پر قائم ہے وہ گویا عمدہ ہتھیاروں سے آراستہ ہے لیکن اس کے راستے میں نشیب و فراز بھی ہوتے ہیں،اسی لئے عقلمند لوگ ہمیشہ اصول کی پیروی کرتے ہیں ،وہ جانتے ہیں کہ جو بات اصولی طور پر غلط ہے وہ عملی طور پر صحیح نہیں ہوسکتی۔ہم کشمیریوں کی یہ بد نصیبی رہی ہے کہ ہماری ملی یا معاشرتی زندگی میں ایس کوئی اصول کارفرما نہیں کہ جس کی بنیاد پر ہمیں اچھی قیادت میسر ہو،ہمارے ہاں جو بھی کوئی رہنما، لیڈر یا حکمران بنا ،اس سے نہ کشمیرمیں کوئی نمایاں تبدیلی آئی اور اور نہ ہی کوئی ایسا نظام قائم کیا ،جس سے کسی بھی معاملے کے متعلق جوابدہی حاصل کی جاسکے۔اسی طرح اور بھی کئی معاملات ہیں،جن پر بات کرنامضمون کو طوالت دینےکے مترادف ہوگا،البتہ ہمارے یہاں کے حاکموں نے خود غرضی کی جو روایت قائم کردی ہے، اس کی سنگینی سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہوکر رہ گئی ہے،اُن کی جوانیاں تک اپنے حاکموں اور انتظامی آفیسروں کی بدنظمی اور بے عملی کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں۔چنانچہ جس کسی کے ذہن میں دانش مندی تھی ، وہ اپنی ذات کے دائرے میں محدودرہا،جس کی زبان میں تاثیر تھی وہ بھی اپنا ہی قد بڑھاتا رہا ،جس کسی میں سماج میں تبدیلی لانے کا عزم تھا، وہ بھی مصلحت کا شکار رہا،انہوں نے دیکھا ہے کہ جس شخص نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ،اُس کے بخت بدل گئےاور وہ ہر آرام و آسائش کا حقدار بنا۔بغور جائزہ لیںتوشائد ہی کوئی سیاست داں ایسا رہا ہوگا، جو سیاست میں قدم رکھنے کے باوجود مالی طور پر وہیں ہو،جہاں سے اُس نے ابتدا کی تھی۔بات صرف سیاست دانوں کی نہیں ہے، ہر سُو ایک ہی مطابقت نظر آتی ہے۔کسی محکمہ کا سربراہ ہو یا کسی ادارے کا مالک ،اُن میں بھی بیشتر کی فطرت میں استحصالی کیڑا داخل ہوچکا ہے۔ آج بھی صورت حال کچھ ایسی ہی دکھائی دیتی ہے۔جس کے نتیجے میں ہمارے یہاں کا غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا چلا جارہا ہے۔لیاقت و صداقت کی پامالی کل بھی ہورہی تھی ، آج بھی ہورہی ہے۔ہر دور میں محض وقتی طور پر اصلاحات اور احتساب کا اعلان ہوتا رہا لیکن عملی طور پر آج تک کچھ بھی نہیں ہوسکا۔حالانکہ لوگوںکا یہی کہنا ہے کہ موجودہ دور ترقی کا دور ہے ،سائنسی ترقی کا ،اقتصادی ترقی ،فکرو نظر کی ترقی کا،سوچ اور اپروچ کی ترقی کا، جبکہ حالات و حقائق اور واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ دور صرف خود غرضی کا دور ہے،جس کی بنیاد ہمارے حاکموں نے عرصۂ دراز قبل ڈال دی ہے،جو وقت گذرنے کے ساتھ اب ہر شعبے سے وابستہ لوگوں کی زیادہ تر تعداد میں گھس چکی ہے۔ کئی ذی شعور اور مفکرین کا ماننا ہے کہ جس کسی ملک یا معاشرے کے حکمران ،لیڈران ،سیاست دان یا مذہبی رہنما خود غرض ہوتے ہیں ،اُس ملک اور معاشرے کے لوگ بھی خود غرض بن جاتےہیںجن میں سے بیشتر کا حیات ِ مقصد ہی خود غرضی بن جاتی ہے۔جس کے نتیجے میں عام لوگوں کو درپیش کوئی بھی مسئلہ حل نہیںہوپاتا۔نہ حکمران اُن کی باتوں پر یقین کرتے ہیں اور نہ ہی انتظامیہ اُن کے مسائل حل کرنے توجہ دیتے ہیں۔گویا لوگوں کی خود غرضی خود اُن کے آڑے آتی ہےاور وہ کسی سے جواب طلبی بھی نہیں کرپاتے ہیں۔ اس وقت بھی جب حالات و واقعات پر نظر ڈالی جاتی ہے توہر طبقے اور ہر شعبے سے وابستہ زیادہ تر لوگ خود غرضی کے تحت محض ذاتی مفادات کو ہی ترجیح دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں موجودہ حکمران اور اُس کا انتظامیہ بھی اپنے فرائض صاف و پاک اور غیر جانبدارانہ طریقے پر انجام نہیں دیتے ہیں۔ اب جبکہ یہاں انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور تمام سیاسی پارٹیاں جوش و خروش کے ساتھ سرگرم عمل ہیں،اپنے اپنے منصوبے عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں ،تو ساری صورت حال پر نظر ڈال کر یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہر کوئی اپنی روایتی خود غرضی پر عمل پیرا ہے۔نہ عام لوگ ،نہ سیاسی پارٹیاں اور نہ ہی حکمران حق گوئی پر نظر آرہے ہیں۔گویا کوئی خود غرضی سے بالا تر ہونے کی کوشش نہیں کرتا دکھائی دیتا ہے اور ہر کوئی اجتماعی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر محض انفرادی منفعت اور مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک آج بے شک طاقتور ہیں،تو اس کی وجہ اُن ممالک کے لوگوں کی اپنے وطن اور اپنے معاشروں کے ساتھ غیر مشروط محبت ہے۔وہاں لوگ اقتدار میں رہیں یا نہ رہیں،اُن کی زندگی کا مقصد خود غرضی سے بالاتر ہوکرصرف اور صرف اپنے معاشرے کے لوگوں کی خدمت ہی رہتا ہے۔جبکہ اپنے یہاں توباوا آدم ہی نرالا ہے۔ہماری رَگ رَگ میں خود غرضی رچ بس گئی ہے اور نتیجتاًہمارے یہاں ہر معاملے میں مصائب و مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔