ڈاکٹر عریف جامعی
استاذ گرامی، پروفیسر حمید نسیم رفیع آبادی کی کتاب ’’خطبات اقبال کا تنقیدی مطالعہ (اسلامی تعلیمات کی روشنی میں)‘‘ جو دراصل آپ کے تین تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے، کی ورق گردانی کا موقعہ نصیب ہوا۔ کتاب کی “تقدیم” ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی، جو ادارہ (اقبال انسٹیٹیوٹ) کے کارڈنیٹر ہیں، کے قلم سے ہے۔ انہوں نے خطبات اقبال کا تعارف تاریخی تناظر میں پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے مترجمین اور شارحین کی ایک فہرست پیش کی ہے جنہوں نے علامہ کے خطبات کو نہایت سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کی مختلف جہات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے ساتھ ساتھ مجموعے، جو پہلی بار ۲۰۰۲ ء میں پروفیسر بشیر احمد نحوی کے دور نظامت میں شائع ہوا تھا، کا تعارف پیش کرکے ان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجموعے کا مختصر ’’پیش لفظ‘‘ مشہور اقبال شناس (اور حافظ کلام اقبال) پروفیسر بشیر احمد نحوی صاحب نے تحریر فرمایا ہے۔ پروفیسر رفیع آبادی ’’گفتنی‘‘ میں شامل مجموعہ مقالات کا تعارف پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’ان (مقالات) میں خطبات میں موجود اہم ترین فلسفیانہ اور کلامی موضوعات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بعض دوسرے اہم مباحث کے ساتھ اعتناء کیا گیا ہے۔‘‘(ص، 9) ظاہر ہے کہ یہ عنوانات خطبات اقبال کا تمام تر مغز قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
کتاب کا پہلا مقالہ ’’خطبات اقبال پر اردو میں لکھی گئی بعض تصانیف کا ایک تنقیدی جائزہ ‘‘ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ مجموعی طور پر اقبال کی شاعری بشمول جمالیات (ایستھٹکس) پر اچھا خاصا کام ہوا ہے، لیکن خطبات اقبال پر ’’چند کتابوں، تبصروں، مقالات اور تجزیوں اور خلاصوں کو چھوڑ کر کوئی زیادہ‘‘ (ص، 13) تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ اس کی غالب وجہ، مصنف کی نظر میں، یہ ہے کہ یہ خطبات نہ صرف ادب کا شاہکار ہیں بلکہ ان میں گہرے فلسفیانہ مباحث کا بیان ہے۔ ظاہر ہے کہ اہل مشرق جو کبھی ہر فن مولا (پالیماتھ) ہوا کرتے تھے، دور حاضر میں علماء بر صغیر (بالخصوص) علوم فلسفہ میں کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔
اقبال کو شاید خود بھی اس بات کا احساس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ڈی بوئر کی کتاب “اے ہسٹری آف فلاسفی ان اسلام” کے فاضل مترجم سید عابد حسین سے اپنے خطبات کا اردو ترجمہ کروانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، جو بوجوہ نہیں ہوسکا۔ یہی کام علامہ اقبال کی خواہش کے مطابق سید نذیر نیازی صاحب نے ہاتھ میں لیا۔ تاہم یہ ترجمہ خاصی طوالت (۲۷ سال) کے بعد ۱۹۵۶ ء میں ایک مبسوط مقدمے ساتھ منظر عام پر آیا۔ پروفیسر رفیع آبادی کے مطابق “مقدمے میں نذیر نیازی نے خطبات کے موضوعات کا بڑا فلسفیانہ تجزیہ کیا ہے” اور ان “کے حواشی خطبات کے مضامین کے پوشیدہ گوشوں پر بھر پور روشنی ڈالتے ہیں۔” (ص، 18) تاہم نیازی صاحب کے “لہجے کی مشکلات اور غیر مانوسیت” کو محسوس کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: “بعض اوقات آدمی چاہتا ہے کہ اے کاش سید عابد حسین نے اقبال کی خواہش کے مطابق ترجمے کا کام ہاتھ میں لیا ہوتا تو زیادہ مفید ترجمہ ہمارے سامنے آجاتا۔” (ص، 18)
تاہم علمیات (اپسٹمالوجی) کو نیازی صاحب نے، پروفیسر رفیع آبادی کے نزدیک، خطبات اقبال کا خاص پہلو قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ “فکر کا مسئلہ علم کا مسئلہ ہے” اس لئے خطبات میں “ذرائع علم جیسے وجدان، احوال و واردات، مدرکات حواس کے بارے میں تفصیل سے بات کی گئی ہے۔” (ص، 17) اس طرح ایک طرف خطبات میں “فکر اور علم کو ایک ہی عمل کے دو پہلو قرار دیا گیا ہے” اور دوسری طرف “مادیت اور روحانیت یا دین و دنیا کی تفریق” کی نفی بھی ہوتی ہے۔ (ص، 17) یہ بات علامہ کے پہلے خطبے “علم اور مذہبی تجربہ” سے ہی عیاں ہوتی ہے جہاں عقل، حواس اور وجدان کو علم کے تین ذرائع قرار دیئے جانے کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح کی گئی ہے کہ “عقل، حواس اور وجدان سے حاصل شدہ علم” مجموعی طور پر علم کہلاتا ہے۔ اس بات کی وضاحت ڈاکٹر جاوید اقبال نے “تسہیل و تفہیم خطبات اقبال” میں کی ہے۔
محمد شریف بقاء کا خطبات اقبال پر کام پروفیسر رفیع آبادی کے مطابق “واسطتہ العقد” (مشکل مقامات کی تسہیل) تو ہے لیکن اس باپت سید عبداللہ صاحب کا یہ دعوی قبول نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے ذریعے خطبات اقبال کے مشکل مقامات کی ہر لحاظ سے تسہیل ہوتی ہے۔ (ص، 19) اسی طرح وجدان اور فکر کے متعلق اقبال کی غزالی پر تنقید، اقبال کی غزالی اور ابن رشد پر تنقید کی نوعیت اور فکر اور وجدان پر اقبال کے فکر میں تضاد کی بقاء صاحب کی فراہم کردہ توضیح بھی پروفیسر رفیع آبادی کے مطابق ادھوری ہے۔ (ص، 21)
مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی کتاب “خطبات اقبال پر ایک نظر” کو پروفیسر رفیع آبادی “ایک قابل قدر کوشش” قرار دیتے ہوئے اس بات سے متفق نظر نہیں آتے کہ مولانا، بقول پروفیسر آل احمد سرور “اسلامی فلسفے اور علوم سے گہری واقفیت کے ساتھ مغربی افکار سے بھی آشنا ہیں۔” (ص، 25) شاید یہی وجہ ہے کہ پروفیسر صاحب کے نزدیک یہ بات بھی محل نظر ہے کہ امام غزالی، امام رازی، ابن سینا، ابن تیمیہ وغیرہم کو محض متکلمین قرار دیا جائے، کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی فلسفیانہ حیثیت سے اغماض برتنا لازم آتا ہے۔ (ص، 27) تاہم کتاب کو مطالعہ خطبات اقبال کے لئے “ایک قابل قدر مگر نامکمل کوشش” قرار دیتے ہوئے پروفیسر صاحب علامہ اقبال کی متکلم فلسفی یا متکلم صوفی حیثیت کے بجائے ان کی فلسفی متکلم حیثیت کے قائل نظر آتے ہیں۔ (ص، 40) یہی وجہ ہے کہ پروفیسر سید وحیدالدین کی کتاب “تفکر اقبال” کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہیں: “اگر اکبر آبادی نے اقبال کو متکلم صوفی یا متکلم فلسفی کہا تو وحید صاحب نے اس کے برعکس اقبال کو فلسفی متکلم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔” (ص، 41)
پروفیسر رفیع آبادی کی کتاب میں شامل دوسرا مقالہ “اقبال کا تصور نبوت اور مسلم فلاسفہ و متکلمین” ہے۔ اس سلسلے میں “اقبال” پروفیسر صاحب کے الفاظ میں “نبوت کے تصور کو واضح کرنے سے پہلے فکر اور وجدان کے تعلق پر گفتگو، اور مذہب اور فلسفے کی حیثیت کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے۔” (ص، 83) یہ بات بھی نہایت دلچسپ ہے کہ امام غزالی کے “فکر اور وجدان کے درمیان ایک خط فاصل” کھینچنے پر اقبال کے نقد سے پروفیسر صاحب یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ “اقبال فکر اور احساس میں فرق نہیں کرتے ہیں اور احساس کو ہی مذہبی مشاہدات کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک جذب مذہبی میں تعقل کا عنصر کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔” (ص، 90)
“اقبال کے تصور زمان و مکان کا ایک تحقیقی جائزہ، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں” اس کتاب میں شامل تیسرا مقالہ ہے جو نہایت ہی دلچسپ ہے۔ اس مقالے میں سائنسی تحقیقات کی روشنی میں تصور زمان و مکان (کنسپٹ آف ٹائم اینڈ اسپیس) کو سمجھنے کی کو شش کی گئی ہے اور اس ضمن میں علامہ اقبال کے فکر پر اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اقبال کی مسئلہ زمان و مکان سے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے محنت شاقہ کرکے اس بارے میں مواد جمع کیا۔ اس سلسلے میں وہ جید علماء، خاصکر سید سلیمان ندوی، سے ہمیشہ رابطہ کرتے رہے۔ پروفیسر رفیع آبادی علامہ اقبال کی زمان و مکان کا پیچیدہ مسئلہ بیان کرنے سے قبل کی گئی علمی تگ و دو کو ان کی “علمی دیانت اور محققانہ بصیرت کا منہ بولتا ثبوت” قرار دیتے ہیں۔ (ص، 112)
علامہ اقبال کا فکر نہایت منصبط نظر آتا ہے کیونکہ آپ کے خطوط سے شروع ہونے والا یہ فلسفہ بالآخر آپ کے اشعار اور آپ کے خطبات میں برگ و بار لاتا ہے۔ تاہم جس طرح خواجہ غلام السیدین کے نام اپنے خط میں آپ “زمانے کی جلوہ گری کو تخریب سے منسوب کرنے کے بجائے اس کو شان رحمانی کا حامل” قرار دیتے ہیں، (ص، 110) بالکل اسی طرح آپ اپنے خطبات میں “زمان کو افلاطون اور زینو کی طرح غیر حقیقی قرار نہیں دے رہے ہیں اور اس کو سائکلک بھی نہیں مانتے ہیں، بلکہ اسٹوئکس کی طرح اور ہرکلٹس کی پیروی میں اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ وقت اپنے آپ کو دہراتا ہے۔” (ص، 113)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح کئی لوگوں نے علامہ اقبال کے “تصور خودی” کو نیٹشے کے تصور “سپرمین” سے مستعار سمجھا ہے، اسی طرح علامہ کے تصور زمان و مکان کو جرمن مفکر اسپنجلر، جو خود قدیم ایرانی “زورانیت” سے متاثر تھا، کی ہمنوائی قرار دیا گیا۔ اس لئے پروفیسر رفیع آبادی شبیر احمد غوری کے اقبال پر اعتراضات کا بھرپور رد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر صاحب اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تصور زمان و مکان علامہ اقبال سے قبل بھی علماء اور مفکرین پیش کرتے آئے ہیں اور بلا جھجک اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ “تاریخ فلسفہ اسلام میں علامہ اقبال بلاشبہ وہ پہلے معتبر فلسفی ہیں جنہوں نے تصور زمان کو اپنی خاص دلچسپی کا موضوع بنادیا اور ایک ایسی منضبط تھیوری پیش کی جو اسلام کے مجموعی مزاج سے بہت حد تک ہم آہنگ ہے۔” (ص، 132) اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے پروفیسر صاحب نے “حدیث دھر” کے مطالب اور معانی جید علماء و مفکرین کے علمی ذخائر سے پیش کیے ہیں، کیونکہ علامہ کے تصور زمان و مکان میں اس حدیث کو اساسی اہمیت حاصل ہے۔ پروفیسر رفیع آبادی صاحب تاہم اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ “علامہ اقبال نے دھر والی حدیث کا بھر پور استعمال کیا ہے، مگر سورہ عصر کو اس سلسلے میں نظر انداز کیا ہے۔” (ص، 148، 149)
چونکہ علامہ اقبال کو علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ فکر کی نئی نئی راہیں کھلنے کا خوب اندازہ تھا، اس لئے وہ اس بات کے متمنی تھے کہ فکر انسانی کے ارتقاء پر نظر رکھی جائے اور آزادانہ اسلوب تنقید کو قائم رکھا جائے۔ اس ضمن میں پروفیسر رفیع آبادی کے مطابق اقبال کے نظریہ زمان و مکان کو آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ اور اس قبیل کے دوسرے سائنسدانوں کے اس دائرے میں پیش کردہ نظریات اور تحقیقات سے زیادہ بہتر انداز میں سمجھا بھی جاسکتا ہے اور آگے بھی بڑھایا جاسکتا ہے۔ (ص، 122، 123) یہ بات بہت ہی حوصلہ افزا ہے کیونکہ کئی لوگ (جیسے پاکستان کے نیوکلیر فزیسسٹ اور “سیاسی متکلم” پرویز ہود بھائی) نہ صرف محققین اقبال کی حوصلہ شکنی کرتے نظر آتے ہیں بلکہ علامہ اقبال کی تنقیص کے ساتھ ساتھ ان کا تمسخر اڑاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں!
اس طرح یہ کتاب طلباء اور محققین کے ساتھ ساتھ شائقین اقبالیات کے لئے بھی نہایت مفید ہے۔ البتہ جہاں قابل قدر مصنف نے مقالات کو اصل کتابی شکل نہ دیکر عام قارئین کو مشکل میں ڈالدیا ہے، وہیں ناشر (اقبال انسٹیٹیوٹ) نے بھی (شاید) فلسفے کی داستان گنجلک جان کر اسے اصل کتابی قالب دینے میں کوتاہی کی ہے۔
رابطہ9858471965
[email protected]