ہمارے معاشرے میں جہیز ایک بہت بڑی لعنت ہے۔ ملک میںجہاں اور بہت سے بڑے رسم ورواج وقت کے ساتھ ختم ہوگئے،جس میں ستی کی رسم،بچوں کی شادی اور کسی حد تک چھوت چھات کا خاتمہ ہوگیا مگر یہ جہیز کی رسم وقت کے ساتھ بہت زیادہ حد تک پروان چڑھ گئی ہے۔پہلے زمانے میں یہ رسم کچھ اس طرح سے تھی کہ لوگ اپنی حیثیت کے مطابق اپنی لڑکیوں کو اس قسم کا سامان بطورِجہیز دیتے تھے، جس سے کہ وہ اپنا گھر بنا سکے، مگر رفتہ رفتہ جہیز دینا ضروری بن گیا ۔ اب لڑکا اور اس کے والدین اپنی مرضی سے جہیز لینے کے بعد ہی شادی طے کرتے ہیں۔کتابوں کےمطالعہ سے پتہ چلتا ہےکہ جہیز رسم بہت پرانی ہے۔رامائن میں بھی بتایا گیا ہے کہ جب رام چندر جی اور ان کے بھائیوں کی شادیاں ہوئی تھیں تو ان کی بیویوں کے والدین اُن کو تحفوں میں زیورات اور جائیداد بھی دیتے تھے، اسلئے جہیز کا کاروان ہندوستان میں صدیوں سےچلا آرہا ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔اول یہ کہ یہاں عورتوں کو مردوں کے مقابلے کم تر سمجھا جاتا ہے۔ لڑکی کا باپ لڑکے کے مقابلے میں اپنے آپ کو کمتر سمجھتا ہے اور لڑکے کا باپ اگر کسی کی لڑکی کو اپنے لڑکے کے لیے پسند کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ لڑکی کے باپ پرا حسان کر رہا ہے۔ اس احسان کا بدلہ چکانے کے لئے جہیز دیا جاتا ہے۔ اس بات کا احساس بہت کم لوگوں کو ہے کہ خدا کی نظر میں مرد اور عورت کی حیثیت ایک ہی ہے اور عورت کو مرد کے مقابلے میں کم سمجھنا گناہ ہے۔عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم تر سمجھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ عورتوں میں تعلیم بہت کم ہے۔ ان کے سسرال والے جو باتیں انہیں بتاتے ہیں وہ انہیں پر چلتی ہیں اور اسے ہی اپنا فرض سمجھتی ہیں۔جہیز کا رواج نہ ختم ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مالی اعتبار سے بھی عورتیں مردوں کی آمدنی پر گزارا کرتی ہیں۔ مرد روپیہ کما کر روٹی کا انتظام کرتا ہے، اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کی بیٹی کے لیے روٹی فراہم کرتا ہے اور اس وجہ سے وہ جہیز مانگتا ہے، اس بات کو دیکھتے ہوئے لڑکی والے جہیز دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں،جو لوگ جہیز کی موافقت کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ باپ کی جائداد کا کچھ حصہ لڑکی کو ضرور ملنا چاہیے۔ ویسے ان لوگوں کے اس خیال میں پختگی نہیں ہے۔ شادی کے بعد لڑکی کو ایک نیا گھر ملتا ہے اور لڑکے کو بیوی ملتی ہے جو کہ اس کے گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ دونوں کی ضروریات برابر کی ہیں جس میں دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں مگر جہیز ہی کی وجہ سے عورتوں کو سماج میں وہ عزت حاصل نہیں ہوتی جو کہ مردوں کو ہے، اسی وجہ سے اکثر عورتیں احساس کمتری کا شکار رہتی ہیں،اس کا اثر ان کی پوری زندگی پر پڑتا ہے۔ ان کے گھروں کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔ آج کل اخباروںمیں کوئی نہ کوئی خبر ایسی ضرور ہوتی ہے، جس میں لکھا ہو گا کہ لڑکی نے سسرال والوں کےبُرے سلوک سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ جہاںلڑکے والوں کو توقع سے کم جہیز ملتا ہےوہاں وہ لڑکی کو ہر طرح سے پریشان کرتے ہیں۔ان کے بُرے سلوک سے تنگ آ کر اکثر لڑکیاں خود کشی کر لیتی ہیں۔ بعض لوگ اپنی بہو کو زیادہ جہیز نہ لانے کے باعث زندہ جلا دیتے ہیں۔کچھ والدین اپنی لڑکی کا جہیز تیار کرنے کے لیے اپنی ساری جائیداد بیچ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی آمدنی ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ایسےبہت سے ذہن ختم ہو جاتے ہیں جو آگے چل کر ملک کی ترقی میں بہت مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔یہ بات اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہ لوگ جن کے صرف لڑکیاں ہوتی ہیں اور لڑکے نہیں ہوتے ،وہ بدقسمت سمجھے جاتے ہیں اور جن کے محض لڑکے ہوتے ہیں اور لڑکیاں نہیں ہوتی خوش قسمت سمجھے جاتے ہیں۔ تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر اس رسم کو ختم کر دیا جائے تو ہمارے ملک اور سماج کو کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔لہٰذا اب وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ایسے مثبت قدم اٹھائیں جن سے اس مصیبت سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ پایا جاسکے۔ اس سے چھٹکارہ پانے کا ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے کہ لڑکیوں میں تعلیم پھیلائی جائے، لڑکے اور لڑکیوں کو برابر کی تعلیم دی جائے۔ عورتوں کو ان کے حقوق کا احساس دلایا جائے اور ان کو اس بات کا بھی احساس دلایا جائے کہ سماج کو بنانے اور سنوارنے میں ان کو بھی اہمیت حاصل ہے۔