گایتری راول ، اتراکھنڈ
سال 2023 کے آخری مہینے میں مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا کو ایک تحریری جواب میں بتایا تھا کہ سال 2017 سے 2021 کے درمیان ملک بھر میں جہیز کے نام پر قتل کے لگ بھگ 35,493 معاملے درج ہوئے ہیں، یعنی تقریباً جہیز کے نام پر روزانہ قتل کے 20 واقعات درج ہوئے۔جبکہ سال 2017 میں جہیز سے ہونے والی اموات کے 7,466، 2018 میں 7,167، 2019 میں 7,141، 2020 میں 6,966 اور 2021 میں جہیز کی وجہ سے ہونے والی اموات کے 6,753 معاملے درج ہوئے۔ یہ وہ رپورٹ ہیں جو پولیس میں درج کیے گئے ہیں۔ ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں ایسے واقعات کی اطلاع پولیس کو کم ہی ملتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے اصل اعداد و شمار معلوم نہیں ہوسکے۔آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ شہروں کے برعکس دیہی علاقوں میں جرائم کے اعداد و شمار کم ہوں گے لیکن جہیز کے نام پر مظالم ایک ایسا اعداد و شمار ہیں جو ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں بھی تیزی سے پھیلنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان علاقوں میں سماجی وقار کے نام پر جہیز کا مطالبہ اور کم رقم کی صورت میں لڑکی کو جسمانی اور ذہنی اذیت دینے جیسے واقعات بھی تیزی سے بڑھنے لگے ہیں۔
اتراکھنڈ کا گنی گاؤں بھی اس سے اُچھوتا نہیں ہے۔ اس گاؤں کی آبادی تقریباً 1746 ہے، یہ گاؤں ریاست کے باگیشور ضلع سے 54 کلومیٹر اور گڑوڑا بلاک سے 32 کلومیٹر دور واقع ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، یہاں اعلی ذات کے 75 فیصد لوگ رہتے ہیں۔یہاں خواندگی کی شرح تقریباً 55 فیصد مردوں اور تقریباً 45 فیصد خواتین میں ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس گاؤں میں بھی جہیز جیسی سماجی برائی نے آہستہ آہستہ اپنے قدم جما لیے ہیں۔ شادی بیاہ میں جہیز لینا ایک عام رواج بنتا جا رہا ہے۔ جس کا اثر نہ صرف نئی شادی شدہ لڑکیوں کی زندگی پر بلکہ نوعمر لڑکیوں کی سوچ پر بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔اس حوالے سے 19 سالہ کویتا راول کا کہنا ہے کہ’’جہیز مانگنے والوں کے خلاف ملک میں بہت سے سخت قوانین ہیں، اس کے باوجود یہ برائی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔گاؤں میں جہیز کے لالچی اب براہ راست جہیز کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ کہہ کر لڑکی کے گھر والوں کو نفسیاتی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ جتنی زیادہ چیزیں دیں گے ،وہ ان کی لڑکی کے ہی کام آئے گا۔لیکن جب انہیں توقع کے مطابق جہیز نہیں ملتا ہے تووہ لڑکی کو ذہنی اور بعض اوقات جسمانی اذیت دینا شروع کر دیتے ہیں۔کویتا کہتی ہے کہ یہ ایک ایسی معاشرتی برائی بن گئی ہے کہ معاشرے سے ختم ہونے کے بجائے اسے فروغ دیا جاتا ہے۔ نوعمر لڑکیاں اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ اکثر ایسے وقت میں لڑکیاں خود کو اپنے والدین پر بوجھ سمجھنے لگتی ہیں۔
گاؤں کی ایک 26 سالہ خاتون رنکو (نام بدلا ہوا) کہتی ہیں۔’’میں ایک بہت غریب گھرانے سے آتی ہوں۔ ہم 6 بھائی بہن ہیں۔ میرے والد ایک ٹرک ڈرائیور ہیں۔ انکی معمولی تنخواہ کی وجہ سے ہمارے گھر کی مالی حالت اچھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے ہم سب کو اچھی تعلیم دی۔ لیکن میری شادی کے وقت میرے سسرال والوں نے جہیز کے نام پر بہت سارے پیسے مانگے۔ جس کو پورا کرنے میں ان کا قرضہ بہت بڑھ گیااوران کی مالی حالت اور بھی زیادہ کمزور ہو گئی ہے۔اس کے باوجود سسرال والوں کی طرف سے مجھے طعنے دیے جا رہے تھے کہ تم جہیز کے نام پر کچھ نہیں لائی ہو۔وہ مجھے مسلسل ذہنی اذیت دیتے رہے لیکن میں نے اپنے والدین کواس بارے میں کچھ نہیں بتایا تاکہ وہ پریشان نہ ہو جایں۔‘‘وہ کہتی ہیں کہ اس کی وجہ سے میں بہت ذہنی طور پر پریشان رہنے لگی، اسی دوران میں حاملہ ہوگئی، لیکن بڑھتے ہوئے ذہنی دباؤ کی وجہ سے میں نے قبل از وقت بچے کو جنم دیا، اس سارے عمل میں میری جان بچانا بھی ڈاکٹر کے لیے مشکل ہوگیاتھا۔ اس کے بعد میں 6 مہینے اپنے والد کے گھرپر رہی۔ جب میرے والد نے انہیں پولس اور قانونی دھمکی دی، تب جاکر میرے سسرال والے خاموش ہوئے،اب مجھے جہیز کے نام پر پریشان نہیں کرتے ہیں۔ رنکو کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتی تھی کہ حکومت نے جہیز مانگنے والوں کے خلاف اتنے سخت قوانین بنائے ہیں۔وہ کہتی ہے کہ اگر تمام لڑکیاں اس حوالے سے آگاہ ہو جائیں تو وہ خود اس ظلم کو ختم کر سکتی ہیں۔
اس حوالے سے 55 سالہ پنولی دیوی کا کہنا ہے کہ’’میری چار بیٹیاں ہیں، میں ان کی شادی کو لے کر بہت پریشان ہوں، لڑکے والے مجھ پر جہیز کے لیے ذہنی دباؤ ڈال رہے ہیں، ہماری آمدنی اتنی نہیں ہے کہ ہم ان کے مطالبات پورے کر سکیں۔‘‘ حکومت نے خواتین اور لڑکیوں کو خود کفیل بنانے کے لیے بہت سی اسکیمیں شروع کی ہیں لیکن اس کے باوجود والدین پر جہیز کا بوجھ کم نہیں ہوا ہے۔ گاؤں کی 80 سالہ بزرگ لچھما دیوی کا کہنا ہے کہ معاشرے میں جہیز کی بُرائی صدیوں سے موجود ہے۔ آج اس برائی نے وسیع شکل اختیار کر لی ہے۔ آج لڑکی کے گھر والوں پر جہیز کے لیے ذہنی دباؤ ڈالا جاتا ہے جو کہ بہت غلط ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر سماج شروع ہی میں اس کے خلاف آواز اٹھاتا تو اسے بہت پہلے ختم کیا جا سکتا تھاتاکہ کسی لڑکی کو جہیز کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھونا نہ پڑے۔ سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ جہیز ایک ایسی سماجی بُرائی ہے جس نے خواتین کے خلاف ناقابل تصور تشدد اور جرائم کو جنم دیا ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے دیہی علاقے ہیں جہاں لڑکیوں کو جہیز کی وجہ سے قتل کیا جا رہا ہے یا ان پر ذہنی یا جسمانی تشدد کیا جا رہا ہے۔ اس سماجی برائی کے خاتمے کے لیے معاشرے کو خود آگے آنا ہو گا۔ انہیں لڑکیوں کو تعلیم یافتہ اور خود انحصار بناناہوگا تاکہ لڑکیاں اتنی بااختیار ہو جائیں کہ وہ خود آگے آئیں اور جہیز کے لالچی لوگوں کوجواب دیں سکیں۔ (چرخہ فیچرس)