یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان صدیوں سے امن و اتحا داورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کا گہوارہ رہا ہے، صوفی سنتوں کی آماجگاہ رہا ہے اور گنگا جمنی تہذیب کا سنگم رہا ہے ۔جہاں مختلف مذ اہب کے ماننے والے ساتھ ساتھ رہتے تو وہیں ایک دوسرے کے خوشی و غم میں برابر کے شریک ہوتے آئے ہیں مگر افسوس کہ نفرت اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی خطرناک و افسوسناک روش نے سب کچھ بدل کررکھ دیا ہے۔ چنانچہ اب پچھلے کچھ عرصہ سے ملک بھرمیں کبھی مذہب کی بنیادپر موب لنچگ ہوتی ہے تو کبھی نعروں کی تکرار ہوتی ہے ،جب نفرت میں اندھے ہوکرجھنڈ کی شکل میں کچھ لوگ کسی نہتے اوربے گناہ انسان کو پکڑ لیتے ہیں تو اسے مختلف طریقوں سے مجبور کرتے ہیں اور ایسا بھی مرحلہ آیا ہے کہ اسے پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے، اس طرح کے واقعات ہندوستان کے ماتھے پر کلنک اور بدنما داغ ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ سرکاری مشینری نہ صرف اسے شہہ دے رہی ہیں بلکہ مجرموں کو بچانے میں بھی کبھی کبھی مصروف نظرآتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت اور حکومت کی مشینری سب کی خوشحالی اور سب کے تحفظ کیلئے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کرتی تاکہ ہرذا ت برادری، ہر مذہب کے لوگ بلا خوف رہیں، تجارت کریں، سفر کریں، کسی طرح کی کوئی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایک انسان دوسرے کو انسان سمجھے، ایک برادر وطن دوسرے کو برادر وطن سمجھے، ایک پڑوسی دوسرے کو پڑوسی سمجھے اور یہ تبھی ممکن ہے جب انصاف کا دامن تھاما جائے ورنہ انصاف سے منہ موڑ نے کی بنیاد پر ملزموں اور مجرموں کے حوصلے بلند ہونگے اور یہ آئین کے ساتھ مزاق ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ مجرم کو کیفرکردار تک پہنچا نے کے بجائے اس کو بچانا قانون کی خلاف ورزی ہے، جمہوریت کی توہین ہے، ناانصافی ہے، ملک کی عوام کے ساتھ وشواس گھات ہے اور قول وفعل میں تضاد ہے،اگر حکومت اس روئیے پر قائم رہتی ہے تو اقلیتوں کا اعتماد کیسے حاصل کرسکتی ہے۔ پھر تو اقلیتوں کے اندر سے یہ آواز بھی اٹھ سکتی ہے کہ حکومت اقلیتوں کو جھوٹی تسلی دے رہی ہے اور ایسا ہوا تو اقلیتیں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگیں گی جبکہ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ آئین کی بالادستی کو قائم رکھا ہے، ملک کی عدلیہ پر بھروسہ کیا ہے، جمہوریت کو فروغ دیا ہے، ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی مسلمانوں کو ملک کے آئین اور عدلیہ پر مکمّل اعتماد ہے۔ اب وزیراعظم کو خود سوچنا چاہیے کہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس جیسا دیا گیا نعرہ کیسے کامیاب ہوگا کیونکہ کسی کے جذبات کو مجروح کرکے اس کا دل نہیں جیتا جاسکتا، کسی کے ساتھ نا انصافی کرکے اس کا اعتماد حاصل نہیں کیا جاسکتا، کسی کو تکلیف پہنچا کرکے اسے خوش نہیں رکھا جاسکتا یعنی مذکورہ نعرہ کی کامیابی کے لئے انصاف ضروری ہے تبھی ملک و ملت کا بھلا ہوگا ۔انصاف تو ہر حال میں ضروری ہے اور جہاں تک بات مذہب اسلام کی ہے تو مذہب اسلام کی تعلیمات یہ ہے کہ انصاف کے معاملے میں امیر و غریب اور مذہب کی تفریق نہیں رکھی گئی ہے بلکہ انصاف اور مساوات پر زور دیا گیا ہے یہاں تک کہ جہاں سات قسم کے لوگوں کو عرش الٰہی کے سائے میں رہنے کی بات کہی گئی ہے وہیں اس حدیث میں الامام العادل کا لفظ بھی آیا ہے کہ عدل و انصاف کرنے والا میدان محشر میں عرش الہٰی کے سائے میں ہوگا اور امام کے معنیٰ ذمہ دار کے ہوتے ہیں یعنی ہر وہ شخص جو کسی شعبے، کسی محکمے، کسی قوم، کسی ملک کا ذمہ دار ہے تو وہ امام کے زمرے میں آتا ہے ،مصلیٰ کا امام مقتدی کا ذمہ دار ہے، بادشاہ رعایا کا ذمہ دار ہے، اسے ہر حال میں عدل و انصاف کا پرچم بلند کرنا ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جہاں عدل وانصاف سے کام لینے پر اللہ کی طرف سے انعام و اکرام ہے تو ناانصافی کرنے پر اتنا ہی سخت ترین عذاب بھی ہوگا ۔احادیث میں تو یہاں تک ملتا ہے کہ دنیا میں کوئی سینگ والی بکری کسی بغیر سینگ والی بکری کو مارے گی تو الله تعالیٰ بروز قیامت بغیر سینگ والی بکری کو سینگ عطا کرے گا اور حکم دے گا کہ تو اپنا بدلہ لےلے ،یہ انصاف ہے۔ جب امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیت المقدس فتح کرنے کے لیے فلسطین کے لئے چلے تو ایک اونٹ تھا اور ساتھ میں آپ کا غلام بھی تھا، حضرت عمر ؓنے کہا کہ تو لگام پکڑنا، میں اونٹ پر بیٹھوں گا، میں لگام پکڑوں گا تو اونٹ پر بیٹھے گا۔ اس طرح باری باری لگام پکڑتے ہوئے اور باری باری پیدل چلتے ہوئے سفر طے کیا جائے گا ،اتفاق یہ کہ جب یروشلم میں داخل ہونے کا موقع آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لگام پکڑنے کی باری آگئی، غلام کو اونٹ پر بیٹھنے کی باری آگئی۔ غلام بولا امیرالمومنین اونٹ پر بیٹھنے کی میری باری بھلے ہی آگئی لیکن میں آپ کا غلام ہوں، آپ اونٹ پر بیٹھیں آپ امیرالمومنین ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں! مذہب اسلام کی یہ تعلیم نہیں ہے بلکہ مذہب اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جس کا جو حق ہے وہ دیا جائے ۔میری لگام پکڑنے کی باری ہے،میں لگام پکڑونگا۔ چنانچہ غلام کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر اونٹ پر بٹھایا، خود لگام پکڑے ہوئے یروشلم کے اندر داخل ہوئے یہ ہے انصاف، یہ ہے مساوات۔ خود نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی ظاہری زندگی میں جب ایک عورت نے چوری کی تو رسول کائناتؐ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ عورت بڑے ہی سرمایہ دار گھرانے کی ہے، لوگ کٹا ہوا ہاتھ دیکھیں گے تو انکی توہین ہوگی، تو امام کائناتؐ نے فرمایا کہ سنو پہلے کی قومیں اِسی وجہ سے تباہ ہوئی ہیں کہ وہ لوگ مذہبی امور نافذ کرنے میں تفریق سے کام لیا کرتے تھے۔ مذہب اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا، اگر فاطمہ بنت محمدؐ نے بھی چوری کی ہوتی تو میرا یہی فیصلہ اور یہی حکم ہوتا کہ فاطمہ کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ غرضیکہ انصاف اور مساوات کی ضرورت سب کو ہے اور سب کی ذمہ داری بھی ہے ۔ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے بڑی بڑی حکومتیں تباہ ہو گئیں۔ نمرود، فرعون، شداد، ہامان یہ سب ظالم تھے، ظلم و ناانصافی ان کا شیوہ تھا لیکن انجام یہ ہوا کہ آج پوری دنیا اُن پر لعنت بھیج رہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ کسی مذہبی اور دین پر عمل کرنے والے شخص سے کوئی غلطی ہو جائے تو اُسے خوب اُچھالا جاتا ہے ،یہاں تک کہ شریعت اور اسلام تک کو نشانے پر لے لیا جاتا ہے اور شریعت و سنت پر چلنے والے کو بدنام کیا جاتا ہے، جس سے لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق نفرت پیدا ہوتی ہے ۔نتیجتاً عوام الناس ان کو نظرِ حقارت سے دیکھتے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت کی بربادی کا سامان اکٹھا کرتے ہیں۔ ایسے نامساعد حالات میں دین پر کار بند اور نماز و سنت کے پابند ی کے لئے اسلامی بھائی بہنوں کو مزید محتاط ہونا چاہیے، معمولی سی بے احتیاطی بھی کبھی کبھی زبردست نقصان کا باعث بنتی ہے ۔