سید مصطفیٰ احمد
میں خود بھی کسی حد تک جھوٹ کے کاروبار میں کسی نہ کسی طریقے سے ملوث ہوں۔ اب لگتا ہے کہ جھوٹ کے بغیر زندہ رہنا محال ہے۔ میں ایک نجی کوچنگ سنٹر میں ایک ادنیٰ پوسٹ پر براجمان اکثر جھوٹ کے سہارے ہی بیشتر کام انجام دیتا ہوں۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جھوٹ کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے تو ایسے میں جھوٹ کے پاؤں کیسے اتنے مضبوط ہوگئے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ اصل میں موجودہ زمانے کی چال ڈھال ہی ایسی ہے کہ جھوٹ کی غیرموجودگی کا تصور بھی محال ہے۔ اب لگتا ہے کہ جھوٹ کا ہونا ضروری ہے۔ دیکھا دیکھی کا بازار اتنا گرم ہے کہ اگر کوئی صرف سچائی کے راستے پر چلتا رہے تو سو فیصد یقینی ہے کہ وہ دوسروں سے پیچھے رہ جائے گا اور دنیا میں اس کی کوئی بھی قدر و قیمت نہیں رہ جائے گی۔ آج کے زمانے میں ایک طرف مذہب کی حدیں ہیں، تو دوسری طرف سماج کے بنائے ہوئے عقلی یا غیر عقلی رواج اور اصول ہیں کہ دونوں کے بیچ میں ایک انسان چکّی کے دو پاٹوں میں پِستا رہتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے ایک خدا دوست شخص سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کی سادگی نے میرے دل پر گہرے نقوش چھوڑے۔ لیکن جب میں نے اس سے زندگی جینے کے بارے میں کچھ سوالات کئے تو اس کی کچھ باتیں مجھے عجیب لگی۔ اس کے مطابق آج کی دنیا میں جینے کے لئے جھوٹ اور فریب کے کاموں میں ملوث ہونا ضروری ہیں۔ اس کے مطابق جو شخص حلال کی کھوج میں رہا، وہ شخص اپنے گھر کے لئے سختیوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ وہ اس حقیقت سے آشنا تھا کہ کیسے اس دنیا میں سچ کا ساتھ دے کر وہ اپنی ایک بیٹی کا نکاح بھی بڑی مشکل سے کر پایا۔ وہ سچ کے راستے پر چلتے چلتے بڑے بڑے کٹھن راستوں پر چلنے پر مجبور ہوا تھا۔اس کی باتوں کو اپنے دماغ میں بٹھا کر میں اس کی باتوں پر سوچ بچار کرنے لگا۔ اس کا نتیجہ اس مضمون کی شکل میں نکل کر آیا ہے۔اس مضمون کو لکھنے سے کیا ہوگا۔ اخبار کی کچھ جگہ بھر جائے گی اور بس۔ کوئی قاری فون کرکے میرا حوصلہ بڑھائے گا اور بات ختم۔ دنیا اپنی روش پر چلتی رہے گی، لوگ جھوٹی داستانوں کے بڑے شوقین ہیں۔ وہ جھوٹی کہانیاں لکھتے رہتے ہیں اور بیشتر جھوٹے قارئین کا من بہلاتے ہیں۔ میں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور جھوٹ کے باب میں ایک اور سبق کا اضافہ کیا۔ کیا بولو ںاور کیا نہیں، اس تذبذب میں پھنس کر میں یہ فیصلہ ہی نہیں کر پارہا ہوں کہ آگے کیا لکھوں۔ صحیح زندگی کی خاطر سچ پر چلنا کا عہد کیا تھا لیکن اب ہر دن جھوٹ کے اتنے ڈھانچے الماری سے دھڑا دھڑا نکل آرہے ہیں کہ بےقراری کا سماں ہرسُو ہے۔ جھوٹے خدا دوست کے علاوہ جھوٹے ڈاکٹرس کا اتنا پرچار عام ہوا ہے اور پھر لوگوں کا ان کے پیچھے پیچھے چکر لگانا
افسوسناک معاملہ ہے۔
میں کسی بھی قسم کی بےادبی کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ میری ناقص عقل کے مطابق جینا اب بہت مشکل ہوگیا ہے۔ میں بھی اوروں کی طرح تذبذب کا شکار ہوں کہ اگر میں اپنی انفرادی سطح پر نیک بننے کی کوشش کرتا ہوں تو بازار میں جھوٹ کا عام سا چلن ہے۔ اس لئے سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آگے کیا کروں۔ اپنے ایمان کی سخت فکر ہے۔ گناہوں کی کتاب بھری پڑی ہیں لیکن دل میں ندامت ہے کہ اللہ کے حضور کھڑا ہوکر ہر عمل کا حساب دینے پڑے گا۔ اب اس جھوٹ کے بازار میں کس کے سہارے چلیںاور کس کس سے رشتے منقطع کرکے ایک پاکیزہ زندگی گزاری جائے، یہ فکر دامن گیر ہے۔ اُمید ہے اس پریشانی کے عالم سے خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکالے گا۔ اگلے مضمون میں کچھ ایسی ہی باتوں کا ذکر کرنا میں معقول سمجھتا ہوں کہ جس سے کسی حد تک روح کی پاکیزگی اور باطنی صفائی کے سامان پیدا ہونگے۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]