بلال فرقانی
سرینگر//جموں و کشمیر میں گزشتہ دہائی کے دوران 10 لاکھ کنال زرعی اراضی کی کمی زرعی مزدوروں کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی کا باعث بنی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، رہائشی کالونیوں اور تجارتی عمارتوں کی تعمیر کے بڑھتے ہوئے رجحان نے زرعی زمینوں کو متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے زراعت سے وابستہ مزدوروں کی تعداد میں 75 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق، 70 فیصد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ زرعی سرگرمیوں پر منحصر ہے۔ 1961 میں جہاں 85 فیصد مزدور زراعت میں مشغول تھے، وہ آج کی تاریخ میں 28 فیصد تک محدود ہو چکے ہیں۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ جدید میکنکل آلات کی آمد نے بھی مزدوروں کی ضرورت کو کم کیا ہے، جبکہ کھیتوں میں کام کرنے کا رجحان بھی کمزور ہوا ہے۔زرعی ماہر ڈاکٹر ایوب محی الدین کے مطابق’’گزشتہ 10 سالوں میں 10 لاکھ کنال زرعی اراضی کو غیر زرعی اراضی میں تبدیل کیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ مسلسل خشک سالی، سیلاب اور طوفانی ہوائیں بھی زراعت کے شعبے میں روزگار میں کمی کے ذمہ دار ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2012 میں ایک لاکھ 58 ہزار ہیکٹر اراضی پر پیداوری فصلیں لگائی گئی تھیں، جو اب سکڑ کر ایک لاکھ 41 ہزار ہیکٹر رہ گئی ہیں۔ 2011 میں مرتب کی گئی محکمہ زراعت کی رپورٹ کے مطابق، وادی میں 2 لاکھ کنال سے زائد زرعی اراضی کو تجارتی و دیگر سرگرمیوں کے لیے استعمال میں لایا گیا ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 1952 میں جب وادی کی آبادی 18 لاکھ تھی، وہاں ایک لاکھ 63 ہزار ہیکٹر اراضی پر دھان کی کاشت کی جاتی تھی، جو اب 130740 ہیکٹر تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح، مکی کی فصل کے لیے ایک لاکھ ہیکٹر اراضی تھی، جو 2012 تک 80 ہزار 14 ہیکٹر رہ گئی۔سروے رپورٹ کے مطابق، 1950-51میں جموں و کشمیر میں 32 فیصد اناج درآمد کیا جاتا تھا، جو اب بڑھ کر 82 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ، سرینگر میں 98.6 فیصد لوگ شہری علاقوں میں رہتے ہیں، جبکہ جموں میں یہ تعداد 50 فیصد ہے۔سٹی میئرز فاؤنڈیشن لندن کے حالیہ سروے میں، سرینگر کو 300 شہروں میں سے 92ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جہاں شہری علاقوں میں رہائش اختیار کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ صورتحال زراعت کے مستقبل اور مقامی معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔