بے شک موجودہ د نیا مادی ترقیوں کے حوالے سے زمین کی گہرائیوں اور آسمان کی اونچائیوں کو برا بر مسخر کر تی جا رہی ہے مگر اس کے بین بین اخلاقی تنزل کے ہاتھوں عالم ِ انسانیت پستی اور زوال کی گہری کھائیوں میں بھی متواتر لڑھکتی جارہی ہے ۔ خطۂ کشمیر جسے امیر کبیر شا ہ ہمدانؒ نے دینی انفرادیت سے سرشار کیا ،اس جیسی چرب دست وتر دماغ اور خلیق قوم کا ایک قابل لحاظ حصہ اب اخلاقی بحران کی لپیٹ میں پورے طور آچکاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں جرائم بڑھ رہے ہیں ، یہاں کااخلاقی تشخص تہس نہس ہورہا ہے، یہاں آدمیت کا چراغ غل ہورہاہے۔ یہ بات تسلیم ہے کہ یہاں شرح خواندگی میں مسلسل بڑھوتری ہورہی ہے اور مختلف شعبہ ٔ ہائے حیات میں نوجوا نوں کی متاثر کن کارکرگی قوم کا سینہ پھول رہی ہے لیکن ساتھ ساتھ جرائم اورغلط کاریوں کے گراف میں تیز رفتار اضافے سے قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ کسی بھی قوم اور سماج میں نئی نسل کے اندر اخلاقی بگاڑ کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں ۔ دورجدید میں ان کی ایک شکل مخلوط تعلیمی ادارے اور کو چنگ سنٹر ہیں۔ حق یہ ہے کہ کوچنگ سنٹروں میں زیر تعلیم زیادہ تر طلبہ و طالبات اپنے کیرئیر تعمیر کر نے اور مسابقتی امتحانات کا میدان مارنے کے لئے ہی رجوع کر تے ہیں ۔ ان کے والدین اپنی اولاد کے واسطے شاندار مستقبل کے حسین خواب سجا کر اپنے نو نہالوں کو بصد شوق ان میں داخلہ دلاتے ہیںاور وہ خوشی خوشی بھاری بھرکم تعلیمی اخرجات کا بوجھ اُٹھا تے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض والدین اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ کر بچوں اور بچیوںکے تعلیمی اخراجات اوراُن کی نت نئی فرمائشیں پو ری کر تے ہیں۔ دیکھا یہ جارہاہے کہ یہ بچے اور بچیاں جونہی مخلوط کوچنگ سنٹروں میں قدم رکھتی ہیں تو ’’ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کر کے چھوڑتی ہے‘‘ یہیں سے ان میں سے بعضوں کی تباہی کاآغاز ہوتا ہے ۔ چونکہ بہ حیثیت مجموعی معاشرہ اخلاقیات سے دن بہ دن تہی دامن ہورہاہے ، تطہیر معاشرہ کا جذبہ بھی مفقود ہے ، تعلیم وتعلم کا آدم گر انہ پیشہ کمرشلزائز ہو ا ہے ، تعلیم کا ناقص تصور اور ناہنجار تدریسی نظام نسل ِ نو میں فرسٹیشن کا سبب بنا ہے ، منشیات کا جان لیوامرض اپنے بال وپر پھیلاتا جا رہا ہے اور اس سب میں جو کو ئی کمی رہے اُسے بالی وڈ فلموں کا ننگا پن ، ماردھاڑ ، جنسی ہیجان کی آگ بھڑکا نے والی ، فیشن پرستی، بے ہنگم سوشل میڈیا جیسی ا وبائیں پورا کر رہی ہیں، اس لئے نوخیز پود کا بد یوںا ور برائیوں کے چنگل میں بآسانی اُلجھ جانا قابل فہم بات ہے ۔ اس طرح کی گھمبیر صورت حال کا تدارک کر نے کے ضمن میں اگرچہ سول سوسائٹی اور سماجی اصلاح کاروں پر انسدادی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ،لیکن جب وہ بھی تجاہل عارفا نہ بر تنے لگیں تو بگاڑ کے خزاں کا بناؤ کی بہاروں میں بدلنے کی کیا تو قع کیجئے ؟ سماجی سطح پر ناگفتہ بہ حالات کے اس مایوس کن منظر نامے میں نئی نسل کے اندرجرائم کی جانب میلان اوررجحان بڑھنے کے علاوہ اور کیا تو قع کی جا سکتی ہے ؟ ہاں، اس سماجی روگ پر سر کاری طور قابو پانے کی ایک موہوم سی اُمید پولیس فورس سے وابستہ کی جاسکتی تھی مگر گزشتہ اٹھائیس سالہ قیامت خیزسیا سی ہلچل نے اس محکمہ کے ہاتھ پاؤں مکمل باندھے رکھے ہیں ۔ بایں ہمہ جب تک پولیس اور اس کے پہلو بہ پہلو سماجی ریفارمر معاشرے کے تئیںاپنی اہم ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو نے میں پیش قدمی نہیں کرتے ، جرائم کی کوکھ سے المیے جنم لیتے رہیں گے اور اخلاقی فساد وبگاڑ کا اندھیرا بڑھتا ہی نہ جائے گابلکہ ان کے تواتر اور تسلسل میںمزید شدت پیدا ہو سکتی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب دلی میں پھول چہرہ سنجے چوپڑا ور گیتا چوپڑا کو رنگا اور بلا جیسے نامی گرامی بدمعاشوں نے اغواء کر کے و حشیانہ موت کے گھاٹ اُتاردیا تو یہ دلی پولیس ہی تھی جس نے فوری طورحرکت میں آکر انسانیت کے ان دو مجرموں کو پھا نسی کے پھندے تک لا یا اور انہیں اپنے منطقی انجام تک پہنچاکر کم ازکم مجرموں بد معاشوں کو اپنے وجود کا احساس دلایا۔ اسی طرح سال 2012 ء میں جب رات کے اندھیرے میں دامنی کے ساتھ دلی میںاجتماعی عصمت دری کا اندوہناک المیہ پیش آیا ، پھر اُسے جان بلب حالت میں سر راہ چھوڑ دیا گیا تو کسی اور نے نہیں بلکہ پولیس نے جب مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑ اکرنے میںکوئی پہلو تہی نہ کی تودامنی کے ساتھ کم ازکم انصاف ہوا ۔ اُس وقت سماج اورقانون نے مجرموں کے سامنے خود سپردگی کر نے یا جرائم کے آگے بھیگی بلی بننے کی بجائے اپنی فرض شناسی اور فعالیت کی دھاک بٹھائی توانسانیت کی جیت ہوئی ۔ یہ الگ بات ہے کہ رائے عامہ کے غیر معمولی دباؤ اور موثر پولیس کارروائی کے باوجود آج بھی دلی سمیت ملک کے دوسرے حصوں میں برابر اس نوع کے ناقابل معافی کرائم ہو رہے ہیں۔ کھٹوعہ کا بدنام زماں جرم اس کا زندہ جاوید ثبوت ہے۔ تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ عادی جرم خود کو اتنا آزاد بھی نہیں پاتے جتنا قبل ا زیں وہ خود کو عملاً محسوس کر تے تھے۔ جرائم کی کسی نہ کسی درجہ حوصلہ شکنی بھی ہو ئی باوجودیکہ سماج میں آئے دن جرائم کا بول بالا اور گناہوں کا بے تحاشہ دور دورہ ہو رہا ہے ۔ بہرصورت ہمیں یہ بات بھی گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ جب تک پولیس فورس کے شانہ بشانہ خود سارا سماج جرائم کی منظم انداز میں روک تھام اور بیخ کنی کے لئے ایک نتیجہ خیز اصلاحی اور انسدادی مہم کی باگ ڈور نہیں سنبھالتا ، پیر واری کہلانے والی اس سرزمین میں جرائم کی نرسریاں کبھی کو چنگ سنٹروں کے بہا نے ، کبھی باغات اور میلوں ٹھیلوں کی آڑ میں اور کبھی کلچرل پروگراموں وغیرہ کے رُوپ میں پروان چڑھتی رہیں گی۔ اس ضمن میں حقیقی طوروالدین کسی بھی حال میں اپنی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے۔انہیں یہ دیکھنے کی بھی لامحالہ زحمت گوارہ کر نی چا ہیے کہ اُن کی اولادیں دن بھر کیا کررہی ہیں ، اُن کی دلچسپیاں کیا ہیں ، ان کے دوست کس قبیل وقماش کے ہیں ، اُن کے اصلاح باطن کے لئے وہ خود کس قدر صحت مند افکار واعمال اپنوں میں منتقل کررہے ہیں۔ سرکاری اور سماجی سطحوں پر اگر سب لوگ ان حوالوں سے اپنی اپنی مفوضہ ذمہ داریوں سے بھر پور ا نصاف کرلیں گے تو بڑی حد تک نسل ِ نو غلط کاریوں یاجرائم کی بھینٹ چڑھنے سے محفوظ رہے گی اور یہ سب ممکن العمل ہے۔