سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔۔(علامہ اقبال)
اگر کامیابی کا راز کسی چیز میں پوشیدہ ہے تو وہ تعلیم اور علم حاصل کرنے میں ہے۔ پھر چاہے وہ دنیاوی کامیابی ہو یا دینی کامیابی، اس بات کا اعتراف تقریباً دنیا کا ہر ایک ذی شعور انسان کرتا ہے کہ ایک لاعلم اور اَن پڑھ انسان کو دنیا ایک نامکمل انسان سمجھتا ہے۔
اس انسان سے دنیا ویسا ہی سلوک کرتا ہے جیسے ایک گدھے کے ساتھ کیا جاتا ہے، غرض دنیا اس انسان کو بہت ہی چھوٹی نظر سے دیکھتا ہے۔
اگر بات ہم اپنے مذہب یعنی دین اسلام (جو کہ زندگی بسر کرنے کا بہترین اور مکمل طریقہ ہے) کی کرے تو اسلام میں تعلیم اور علم حاصل کرنے میں سخت طور پر تاکید و تلقین کیا گیا ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنا جو پہلا پیغام و حکم اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو وہ پیغام، حکم اور ہدایت تعلیم اور علم حاصل کرنے کا تھااور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی علم کا حاصل کرنا ضروری یعنی فرض قرار دیا ہے۔ چاہے اخلاقی تعلیم ہو یا دنیاوی تعلیم دونو ںہی انسان کے لیے انتہائی ضروری ہیں، تاکہ وہ اپنے ساتھ ساتھ قوم کو بھی ترقی یافتہ اور بہتر سے بہترین بنانے میں تعاون فراہم کرسکے۔مگر اگر ہم اپنے وطن یعنی وادی کشمیر کی بات کریں، دنیا میں وادی کشمیر واحد ایسی جگہ ہے، جہاں آج تک تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اور جہاں کے طلباء سب سے زیادہ علمی نقصان اور گھاٹے سے دوچار ہوئے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔یہاں کے حال و احوال کسی سے چھپے نہیں بلکہ عیاں ہیں۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا فرد ہو گا جو یہاں کے حالات سے واقف نہ ہو۔ اگر بات تعلیم کے حوالے سے کی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہماری تعلیم صرف 'کورونا نامی بیماری کے سبب متاثر نہیں ہوئی بلکہ ایک طویل عرصہ سے ہمارے یہاں کے حالات وقتاً فوقتاً مختلف مراحل میں مختلف طریقوںسے غیر یقینیت کا شکار ہوئے اور پھر نا مساعد حالات کے دوران ہر کس ناکس پر مصائب و تکالیف کے پہاڑ توڑے گئے۔ جس کی وجہ سے یہاں کا تعلیم نظام بھی درہم برہم ہوکر رہ گیا اور زیر تعلیم طلبہ و طالبات بُری طرح متاثر ہوتے رہے۔خاص طور پر متوسط اور غریب طبقے سے منسلک بچوں کی تعلیمی زندگی تباہ و بُرباد ہوگئی۔
اگر ملک کے دیگر 'ریاستوں (States) اور 'یونین ٹیریٹریز (Union Territories) کی بات کریں تو وہاں تعلیم صرف کورونا سے متاثر ہوئی۔ مگر ہمارے تعلیمی اداروں کے دروازوں پر 'کورونا جیسی مہلک بیماری پھیلنے سے پہلے بھی تالے لگے ہوئے تھے اور تا ایں دَم آج بھی تالہ بند ہیں۔ میں بحیثیت ایک طالب علم اوراس مظلوم وادی کا مظلوم بیٹا انتظامیہ کے منتظمین سے اس بات کا جواب چاہتا ہوں کہ اگر اب رفتہ رفتہ آپ نے ہر شعبے سے منسلک تمام افراد کو اپنا اپنا کام انجام دینے کی اجازت دی ہے۔ تو تعلیمی اداروں کو مسلسل بند رکھنے میں آپ کے پاس کیا جواز ہے۔ اگر آپ کے اولاد باہر کی ریاستوں میں یادنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو آپ کو غریب اور پسماندہ خاندان سے تعلق رکھنے والے طلبا کے تعلیم حاصل کرنے سے اعتراض کیوں؟
اگر بات کورونا وائرس کے احتیاطی تدابیرCOVID SOP'sکی کریں تو جب کورونا کی پہلی لہر تھمنے لگی تو کچھ دنوں کے لیے سرکار نے تعلیمی اداروں (اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں) کو درس و تدریس کے لئے کھول دیا تھا۔ جس میں یہ نتائج سامنے آئے اوریہ دیکھنے کو ملا کہ سب سے زیادہ تعلیمی اداروں میں احتیاطی تدابیر (COVID SOP's) پر عمل ہو رہا تھا۔ مگر اب جب چند روز پہلے 'کورونا کی دوسری شدید لہر بھی تھم گئی ہےتو سرکار نے اولین فرصت میں یہاںسیاحتی مقامات اور بازاروں وغیرہ کو کھول دینے کے احکامات جاری کئے۔ ان سارے مقامات پر احتیاطی تدابیر(COVID SOP's) کی کس طرح دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اُس سے ہم سب اچھی طرح سے واقف ہیں۔ یہاں پر انتظامیہ پر یہ سوالیہ نشان لگتا ہے کہ اگر وہ سیاحتی مقامات، باغات،جھیلیں اور مصروف بازار ،ہوٹلز ،گیسٹ ہاوس یا دیگر اُن جگہوں جہاں لوگوں کا مجمع لگتا ہے، سے واقف ہوکر بھی ہر خاص وعام کے لئے کھول رہے ہیں یہ جان کر بھی کہ ان مقامات پر لوگ 'کورونا کے احتیاطی تدابیر(COVID SOP's) پر عمل نہیں کر رہے ہیںتو انتظامیہ تعلیمی اداروں کو درس و تدریس کے لئے کیوں نہیں کھول سکتی؟ کیا 'وائرس (Virus) صرف تعلیمی اداروں میں ہے؟ کیا سیاحتی مقامات باغات اور بازار یا شاپنگ مالز ،ہوٹلز یا ہاوس بوٹوں وغیرہ میں وائرس نہیں ہے؟
یہاں میرے کہنے کا بالکل بھی یہ مدعا و مقصد نہیں کہ آپ ان ساری جگہوں کو پھر سے بند کریںبلکہ میرا اصل مقصد یہ ہے کہ اگر تعلیمی اداروں میں احتیاطی تدابیر(COVID SOP's) پر سب سے زیادہ عمل ہورہا ہے تو آپ نےانہیں بدستور کیوں بند رکھا ہے ؟ کیوں آپ بچوں کا مستقبل اندھیرے میں دھکیل رہے ہیں؟ کیا آپ یہاںتعلیم یافتہ سماج نہیں چاہتے؟
آخر میں سرکار سے میری یہی گزارش رہے گی کہ خدارا جلد از جلد وادی میں تمام تعلیمی اداروں کو درس و تدریس کے لیے کھول دیا جائےتاکہ طلبہ کو مزید تعلیمی نقصان اور گھاٹے سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ میری وادی کے تعلیم یافتہ لوگوں سے بالخصوص اساتذہ کرام سے التماس ہے کہ جب تک تعلیمی ادارے بند ہے تب تک برائے مہربانی جتنا ممکن ہو سکے غریب اور پسماندہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے زیر تعلیم بچوںاور بچیوں کو اپنا علمی تعاون دے دیںاور اِن کو اللہ کی رضا کے لیے دینی اور دنیاوی تعلیم سے منور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔اس کا اجر آپ کو دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں ضرور ملے گا ۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر ضرور رکھتی ہے۔۔(ڈاکٹر علامہ اقبال)
رابطہ:- 8803250765